سپریم کورٹ نے کراچی میں سات سے آٹھ سالہ بچے کے قتل کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا 

رپورٹ کے مطابق فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ  کسی ملزم کے پولیس کی حراست میں صحافی کو دیے گئے انٹرویو یا پولیس کے سامنے اقراری بیان سے جرم ثابت نہیں ہو جاتا، قانون شہادت کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے آزادانہ اور بغیر کسی دباؤ کے دیا گیا بیان کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔
 
اس میں کہا گیا کہ اس مقدمے میں متعلقہ تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر کے طرزِ عمل پر اپنی آبزرویشنز ریکارڈ پر لائیں، ایک صحافی کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کا انٹرویو کرے اور کیمرے پر اس کا بیان ریکارڈ کرے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ایسے بیان کی قانونی حیثیت کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں، لیکن یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں زیرِ حراست ملزم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا گیا ہو،ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے، جو کہ نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

فیصلے کے مطابق میڈیا، چاہے وہ پرنٹ ہو یا کسی اور شکل میں معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کے پاس بے پناہ طاقت ہے، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کے معاملات میں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق قانون کے تحت ضابطوں اور معقول پابندیوں سے مشروط ہے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ پولیس کی تحویل میں دیا گیا بیان صرف اس وقت قابلِ قبول ہوتا ہے جب وہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا ہو، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رپورٹر کو ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر وہ بیان پبلک میں نشر کر دیا جاتا ہے۔

فیصلے کے مطابق جرم سے متعلق خبروں میں عوامی دلچسپی عام بات ہے، خاص طور پر جب کیس ہائی پروفائل ہو یا جرم کی نوعیت عام لوگوں کی توجہ کا مرکز ہو، اس میں میڈیا ٹرائل کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے جو کہ صرف ملزم ہی نہیں بلکہ متاثرین کے لیے بھی ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں اصل مجرم بچ نکلتے ہیں جبکہ بے گناہ افراد کو سزا دی جاتی ہے، یہ معاملہ اور اس کے مضر اثرات اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں جب جرم کے واقعہ کا کوئی عینی شاہد نہ ہو اور متاثرہ فریق کوئی بچہ ہو، میڈیا بیانیے بنا سکتا ہے جو سچے بھی ہو سکتے ہیں اور جھوٹے بھی، جو کہ ملزم اور اس کے خاندان کی زندگی تباہ کر سکتے ہیں، انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ 

فیصلے کے مطابق میڈیا کے پاس وہ طاقت ہے کہ وہ کسی کو ہیرو یا ولن بنا دے اور یہ طاقت اکثر ایسے معاشروں میں غلط استعمال ہو سکتی ہے جہاں ریاست آزادی اظہارِ رائے کو دباتی ہو یا میڈیا کو کنٹرول کرتی ہو، اس لیے میڈیا پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر عمل کرے تاکہ فریقین کے حقوق اور عوامی مفاد کے درمیان توازن قائم رہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ فوجداری نظام انصاف کی بنیاد یہ ہے کہ ہر کیس میں منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنایا جائے،اس کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر ملزم کو بے گناہ سمجھا جائے گا جب تک کہ جرم ثابت نہ ہو جائے، میڈیا کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسی رپورٹنگ کرتے ہوئے خاص طور پر زیرِ تفتیش مقدمات میں، ملزم اور متاثرہ فریقین دونوں کے حقوق کا احترام کرے۔

فیصلے کے مطابق حد سے زیادہ توجہ اور یک طرفہ میڈیا کوریج عوام اور فوجداری عدالتی عمل سے وابستہ افراد کو متاثر کر سکتی ہے، حتیٰ کہ عدالتی افسران بھی انسان ہوتے ہیں اور اس ڈیجیٹل دور میں وہ بھی میڈیا کے زیرِ اثر آ سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ ملزم پولیس کی حراست میں تھا اور عدالت نے صرف تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا تھا،وہ بے گناہ تصور کیا جا رہا تھا، مگر تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو انٹرویو کی اجازت دی اور اس بیان کو میڈیا پر نشر کیا گیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ جس سے نہ صرف ملزم بلکہ متاثرہ خاندان بھی متاثر ہوا،یہ اقدام قانون کی صریح خلاف ورزی تھا کیونکہ پولیس کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کا کام صرف تفتیش کرنا اور بعد ازاں عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کرنا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابلِ قبول نہ تھا کیونکہ یہ نہ تو کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا زیرِ حراست افراد کو کیمروں کے سامنے لاتا ہے یا رپورٹر ان سے جارحانہ انداز میں سوالات کرتے ہیں،یہ روش قابلِ مذمت ہے کیونکہ یہ منصفانہ ٹرائل کو متاثر کرتی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ غیر متعلقہ افراد کو تفتیشی عمل میں مداخلت کی اجازت دینا یا اس میں سہولت دینا ایک سنگین قانونی خلاف ورزی ہے اور کسی بھی پولیس افسر یا تفتیشی افسر کی جانب سے ایسا کرنا پیشہ وارانہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ میڈیا، خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک لازم ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ اور پروگرامز نشر کرنے سے پہلے خود احتسابی اور بین الاقوامی بہترین اصولوں پر مبنی طریقہ کار اپنائے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ آفس کو  ہدایت کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کی کاپی سیکریٹری وزارت داخلہ،سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات،چیئرمین پیمرا،صوبائی چیف سیکرٹریز کو بجھوائی جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ تاکہ اس فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز کی روشنی میں وہ مناسب اور فوری اقدامات کر سکیں جو کہ فوجداری کیسز کے فریقین کے حقوق اور تفتیش و مقدمے کی شفافیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصلے کے مطابق نے قرار دیا کہ کی اجازت دی عدالت عظمی کہا گیا کہ کے سامنے افراد کو پولیس کی ہے کہ وہ کے حقوق دیا گیا ہے اور اور اس

پڑھیں:

مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ کا عمر قید کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ میاں بیوی میں جھگڑا نہیں تھا تو ساس سسر کو قتل کیوں کیا؟ دن دیہاڑے 2 لوگوں کو قتل کر دیا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ بیوی ناراض ہوکر میکے بیٹھی تھی۔  ملزم کے وکیل پرنس ریحان نے عدالت کو بتایا کہ میرا موکل بیوی کو منانے کے لیے میکے گیا تھا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ تو لگتا ہے بغیر ریاست کے پرنس ہیں۔

بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ 2 بندے مار دیے اور ملزم کہتا ہے مجھے غصہ آگیا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے سوال کیا کہ بیوی کو منانے گیا تھا تو ساتھ پستول لے کر کیوں گیا؟۔  جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ مدعی بھی ایف آئی آر کے اندراج میں جھوٹ بولتے ہیں۔ قتل شوہر نے کیا،  ایف آئی آر میں مجرم کے والد خالق کا نام بھی ڈال دیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو۔

واضح رہے کہ مجرم اکرم کو ساس سسر کے قتل پر ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی جب کہ لاہور ہائیکورٹ نے سزا کو سزائے موت سے عمرقید میں تبدیل کردیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی امیر قطر سے ملاقات، قریبی روابط برقرار رکھنے پر اتفاق

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • وقف قانون پر سپریم کورٹ کی متوازن مداخلت خوش آئند ہے، مسلم راشٹریہ منچ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو سیکیورٹی دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا
  • سپریم کورٹ: تہرے قتل کے مجرم اورنگزیب کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ: ساس سسر کے قتل کے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، عمر قید کا فیصلہ برقرار
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی