الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) منگل کو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں کی تقسیم کے معاملے پر کسی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام رہا۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ کمیشن کا اجلاس غیر نتیجہ خیز رہا کیونکہ قانونی ونگ اس کے لیے تیار نہیں تھا، انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی (ف) اور دیگر افراد کی جانب سے اس معاملے پر دائر کی گئی کچھ درخواستیں تاحال زیر التوا ہیں۔

اہلکار نے ان خبروں کو مسترد کیا کہ فیصلے کی نقل نہ ملنے کی وجہ سے کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کر سکا، ان کے مطابق الیکشن کمیشن کو فیصلے کی نقل یعنی آئینی بینچ کی جانب سے پی ٹی آئی کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے ایک دن بعد ہفتہ کو موصول ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ کمیشن بدھ (آج) دوبارہ اجلاس کرے گا اور امید ظاہر کی کہ اس معاملے پر فیصلہ کر لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ آئینی بینچ نے جمعہ کو 3-7 کی اکثریتی رائے سے 12 جولائی 2024 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔

اس فیصلے نے سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے سابقہ اکثریتی فیصلے کو بھی کالعدم کر دیا تھا، جس میں پی ٹی آئی کو خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا۔

بینچ نے 25 مارچ 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بحال کر دیا، جس میں سنی اتحاد کونسل، جس میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار شامل ہوئے تھے، کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔

اس آئینی فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی اب ایک پارلیمانی جماعت نہیں رہی، لہٰذا قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کی 77 سیٹیں ان پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی جو متعلقہ ایوانوں میں موجود ہیں، کیونکہ ان نشستوں کو خالی نہیں رکھا جا سکتا۔

قانونی ماہرین کے مطابق قومی اسمبلی کی 22 مخصوص نشستوں کی تقسیم کچھ یوں ہو گی، مسلم لیگ (ن) کو 15، پیپلز پارٹی کو 4 اور جے یو آئی (ف) کو 3 نشستیں ملیں گی۔

اس عمل کے بعد حکومتی اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گا، 336 ارکان پر مشتمل ایوان میں 2 تہائی اکثریت کے لیے 224 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

نااہلی کیس
علاوہ ازیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کے خلاف دائر نااہلی ریفرنس کی سماعت عدالت کے حکم پر روک دی ہے اور اسے 15 جولائی تک ملتوی کر دیا ہے۔

منگل کو الیکشن کمیشن کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس کی سربراہی سندھ سے رکن نثار احمد درانی کر رہے تھے۔

عمر ایوب کے وکلا نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکمِ امتناع پیش کیا، الیکشن کمیشن کے خیبر پختونخوا سے رکن ریٹائرڈ جسٹس اکرام اللہ نے نشاندہی کی کہ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں نئی سماعت کی تاریخ مقرر نہیں کی، بینچ نے کمیشن کی قانونی ٹیم کو ہائی کورٹ سے وضاحت لینے کی ہدایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس 90 دن کے اندر نمٹایا جانا لازم ہے۔

عمر ایوب کو اثاثہ جات ظاہر کرنے کے مقدمے میں بھی جواب داخل کرانے کی ہدایت کی گئی ہے جو کہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی اور ریٹرننگ افسر کو دی گئی معلومات میں مبینہ تضادات کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا۔

یہ نااہلی ریفرنس سابق ایم این اے بابر نواز کی درخواست پر قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بھیجا تھا، بابر نواز 2024 کے انتخابات میں این اے 18 (ہری پور) سے عمر ایوب کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں کی الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کی جانب سے معاملے پر ہائی کورٹ پی ٹی آئی عمر ایوب کورٹ کے کر دیا کے لیے

پڑھیں:

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کی نگرانی کا اختیار مانگ لیا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی نگرانی کے لیے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے اس حوالے سےسفارشات کا مسودہ وزارت قانون کو ارسال کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 208 میں تجویز کی گئی ہے، جس کا مقصد جماعتوں کے اندر جمہوری عمل کو بہتر بنانا اور انتخابی نظام کو مزید شفاف بنانا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں درجنوں سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن بیشتر کے اندرونی جمہوری ڈھانچے کمزور ہیں۔ ایسے میں انٹراپارٹی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کمیشن کو نگرانی کا باقاعدہ اختیار دینا ضروری ہے۔ موجودہ قوانین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو الیکشن کمیشن کو اس عمل کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دے۔
ذرائع کے مطابق، کمیشن کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ افسران پر مشتمل ایک ٹیم سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات کا مشاہدہ کرے اور اس کی رپورٹ سالانہ رپورٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے۔ اس اقدام سے نہ صرف جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ ملے گا بلکہ خواتین کی نمائندگی اور شمولیت کو بھی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
مزید برآں، ترامیم کا مقصد سیاسی جماعتوں کے اندراج، انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ اور خواتین کی موثر شرکت جیسے دیرینہ مسائل کو حل کرنا بھی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان تجاویز کی منظوری سےعوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا اور انتخابی نظام کو منظم اور شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔
تاہم، ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان تجاویز پر سخت ردعمل کا امکان ہے، کیونکہ بعض جماعتیں پہلے ہی انٹراپارٹی انتخابات کی شفافیت اور کمیشن کی مداخلت پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن نے "ایس آئی آر" کا پورا کھیل بی جے پی کے اشارہ پر کھیلا ہے، کانگریس
  • الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کی نگرانی کا اختیار مانگ لیا
  • مخصوص نشستیں کیس: آئین لکھنے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کو بغیر فریق بنے ریلیف ملا، برقرار نہیں رہ سکتا: سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا‘ عدالت عظمیٰ
  • مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • مخصوص نشستیں کیس: تحریک انصاف کوفریق بنے بغیرریلیف ملا،برقرارنہیں رہ سکتا،عدالت عظمیٰ
  • مخصوص نشستیں کیس، فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا