پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر بے بنیاد، من گھڑت اور ثبوت کے بغیر الزامات لگا کر نہ صرف پاکستان پر جنگ مسلط کی بلکہ یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان کا پانی بھی روک دیا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کا بڑا واضح موقف رہا ہے کہ بھارت کسی بھی صورت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے یہ تاریخی فیصلہ دیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا بھارتی اعلان غیر قانونی ہے۔ کیوں کہ دو طرفہ معاہدے میں ایسی کوئی شق شامل نہیں کہ کوئی فریق یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کر دے اور نہ ہی کوئی فریق یکطرفہ طور پر عدالت کے ثالثی کے دائرہ اختیار کو ختم کر سکتا ہے۔ لہٰذا ثالثی کا عمل جاری رہے گا۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے متوازی طور پر مقرر کردہ ’’غیرجانبدار ماہر‘‘ کے دائرہ اختیار پر ہندوستان کے موقف کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یہاں واضح رہے کہ عدالت نے یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے بھارت کے مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر پن بجلی منصوبوں کے خلاف دائر مقدمے میں جاری کیا ہے۔ پاکستان عالمی ثالثی عدالت کے مذکورہ فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان پانی، تنازع کشمیر اور دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر بھارت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
عدالتی فیصلے سے سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کے بیانیے کو تقویت ملی ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر بھارت پر واضح کر دیا کہ پانی ہماری ریڈ لائن ہے۔ افسوس کہ بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے مذکورہ فیصلے کو ماننے سے نہ صرف انکار کر دیا ہے بلکہ عدالت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں 19 دسمبر 1960 کو کراچی میں طے پایا تھا۔ معاہدے پر اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر جنرل ایوب خان نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا جب کہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو دیا گیا تھا۔ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ اگر دونوں ممالک میں پانی کے استعمال پر کوئی تنازع پیدا ہوا تو عالمی ثالثی عدالت کے ذریعے اسے حل کیا جائے گا۔ اس پس منظر میں بھارت نہ تو یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر سکتا ہے اور نہ ہی عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کو مسترد کر سکتا ہے۔ اسے ہر صورت عالمی فیصلوں اور معاہدے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
بصورت دیگر حالات ایک اور جنگ کی طرف جا سکتے ہیں جیساکہ حکومت پاکستان اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر متعدد مرتبہ بھارت پر واضح کر چکے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی اور دریاؤں کے بہاؤ کو روکنا جنگ کے مترادف تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں عالمی برادری بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پانی پر دوسری پاک بھارت جنگ کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔
ادھر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کو ان کی جیتی ہوئی نشستوں کی تعداد کی بنیاد پر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی الاٹ منٹ کے حوالے سے حکومت کی نظرثانی کی تمام اپیلیں منظور کرتے ہوئے عدالت کے 12 جولائی 2024 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس طرح سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اب یہ نشستیں حکمراں اتحاد کی (ن) لیگ، پی پی اور دیگر جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں حکمراں اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی جس کے بعد وہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق باآسانی قانون سازی کر سکیں گی۔
وزیر اعظم نے آئینی بینچ کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین کی بالادستی اور قانون کی درست تشریح قرار دیا ہے۔ جب کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین کی غلط تشریح اور پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔ بہرحال عدالتی فیصلے سے پی ٹی آئی کو سخت دھچکا لگا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اس کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔ کے پی کے میں بھی اس کی اکثریت محدود ہونے سے گنڈا پور حکومت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ البتہ حکمران اتحاد مضبوط ہو گیا ہے، جس سے حکومت کے مستحکم ہونے اور پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی ثالثی عدالت کے سندھ طاس معاہدے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل کرتے ہوئے معاہدے پر کہ بھارت کر سکتا سکتا ہے دیا ہے
پڑھیں:
سیاست کے کندھوں پر ایشیا کپ کا جنازہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کہتے ہیں کہ کھسیانی بِلّی کَھمبا نوچے مودی کا بھی یہی حال ہے ۔ہندوتوا سوچ نے کھیلوں کو زہر آلود کر دیا ہے ۔مودی اور وہاں کے گودی میڈیا نے ایشیا کپ کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ تماشہ کرنا تھا تو ایشیا کپ کھیلنے ہی کیوں آئے ۔اس کی وجہ اسپانسر شپ جس کے پس پردہ بھارت کے بڑے بڑے ٹائیکون ہیں جنہوں نے بے تحاشہ اس ایشیا کپ سے پیسے کمائے ۔بعض مبصرین مکیش امبانی کا نام لے رہے ہیں اس نے مودی پر دباؤ ڈال کر بھارتی ٹیم کو ایشیا کپ کھیلنے پر مجبور کیا جبکہ وہاں کے انتہا پسند ہندو تنظیموں اور پہلگام واقعہ کی ودھواؤں نے سخت احتجاج کیا لیکن پیسہ جیت گیا کھیل ہار گیا ۔مکیش امبانی بی جے پی کا سب سے بڑا ڈونر ہے جو کہ مالی مدد کرتا ہے ۔جب کہ کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ برصغیر میں یہ جذبوں، رشتوں اور قوموں کے مزاج کا عکس بن چکا ہے ۔
ایشیا کپ 2025بھی کروڑوں شائقین کی توجہ کا مرکز تھا مگر افسوس یہ ایونٹ کرکٹ کے حسن کے بجائے بدمزگی، تنازع اور سیاست کے سائے میں اختتام پذیر ہوا۔ سب سے زیادہ حیران کن اور افسوسناک لمحہ وہ تھا جب بھارتی ٹیم نے فائنل کے بعد ایشیا کونسل کے چیئرمین محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ یہ حرکت نہ صرف اسپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف تھی بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے چھوٹے ذہن اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی تھی۔کھیل کی دنیا میں روایت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فتح یا شکست سے بالاتر ہو کر حریف کو عزت دی جائے ، اور ایوارڈ یا ٹرافی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر قبول کی جائے ۔ مگر بھارتی ٹیم نے یہ بنیادی اصول بھی پامال کر دیا۔ اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس جیت کو ”آپریشن سندور” سے جوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی تقریروں اور میڈیا بیانات میں اس کامیابی کو فوجی مہمات کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی، جو کھیل کے میدان میں سیاست اور عسکریت کو داخل کرنے کی کھلی مثال ہے ۔ دنیا کے معتبر اسپورٹس تجزیہ کاروں اور عالمی خبر رساں اداروں نے اس طرزِ عمل پر سخت تنقید کی اور کہا کہ بھارت نے کھیل کے تقدس کو پامال کر کے خود اپنی جگ ہنسائی کروائی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے کھیل کو سیاست کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔ ماضی قریب میں بھی بھارتی بورڈ اور حکومت نے کئی بار پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنے سے انکار کیا، مشترکہ ایونٹس میں رکاوٹیں ڈالیں اور حتیٰ کہ آئی سی سی کے بعض فیصلوں پر بھی سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ بھارتی کرکٹ بورڈ دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی اثر رکھنے والا بورڈ ضرور ہے مگر اس طاقت کو کھیل کی ترقی اور فروغ کے بجائے سیاسی اور سفارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا عالمی کرکٹ کے لیے نقصان دہ ہے ۔فائنل میچ کے بعد کی اس متنازع صورتحال پر بین الاقوامی میڈیا کا ردعمل بہت واضح تھا۔ برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور خلیجی ممالک کے بڑے اسپورٹس چینلز نے کھلے الفاظ میں کہا کہ بھارت نے اسپورٹس مین اسپرٹ کی دھجیاں اڑا دیں۔ بی بی سی، الجزیرہ، اسکائی اسپورٹس اور کرک انفو جیسے پلیٹ فارمز پر بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ کھیل کو سیاست میں گھسیٹنے سے اس کے عالمی تشخص کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔ دنیا بھر کے ناظرین نے سوشل میڈیا پر بھارتی ٹیم کے اس رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لاکھوں پیغامات میں یہ واضح کہا گیا کہ اس طرح کی حرکت سے بھارت نے اپنی اخلاقی برتری کھو دی ہے ۔
بھارت کی اس بوکھلاہٹ کو اس کے ماضی کے فوجی اور سفارتی ناکامیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے ۔ جب سے پاکستان نے بھارت کے چھے جنگی طیارے گرا کر اسے منہ توڑ جواب دیا تھا، بھارتی قیادت میں ایک مستقل بے چینی پائی جاتی ہے ۔ وہ ہر موقع پر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کبھی کھیل کو، کبھی میڈیا کو اور کبھی سفارت کاری کو استعمال کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے ”آپریشن سندور” جیسے بیانات اسی بوکھلاہٹ کا شاخسانہ ہیں۔ مگر دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ کھیل کا میدان فوجی کاروائیوں کی توسیع نہیں بلکہ انسانوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے ۔
ایشیا کپ 2025 کا فائنل لاکھوں کرکٹ شائقین کے لیے خوشی، جوش اور اتحاد کا لمحہ ہونا چاہیے تھا مگر بھارتی رویے نے اسے تلخی میں بدل دیا۔ پاکستان نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے ٹورنامنٹ میں کھیل کی اعلیٰ اقدار کو مقدم رکھا۔ یہاں تک کہ فائنل کے بعد بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے حریف کو مبارکباد دی، مگر جواب میں بھارتی ٹیم نے سرد مہری اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ یہ فرق واضح کر گیا کہ کھیل کے میدان میں اصل عظمت اس قوم کی ہے جو رواداری اور بڑے پن کا مظاہرہ کرے ، نہ کہ اس قوم کی جو اپنی جیت کو سیاسی پروپیگنڈے کا ذریعہ بنائے ۔یہ واقعہ دنیا کے کرکٹ بورڈز اور عالمی تنظیموں کے لیے بھی لمحئہ فکریہ ہے ۔ اگر بھارت جیسی بڑی ٹیم بار بار کھیل میں سیاست کو استعمال کرے گی تو یہ صرف ایشیائی کرکٹ کو نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ ایشیا کپ کے بعد پیدا ہونے والی بدمزگی نے یہ سوال ضرور اٹھا دیا ہے کہ کیا کھیل واقعی سیاست سے آزاد رہ پائے گا یا پھر بڑی طاقتیں اسے بھی اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتی رہیں گی؟کھیل کا بنیادی مقصد قوموں کو قریب لانا، تعلقات میں بہتری پیدا کرنا اور نوجوانوں کے اندر مثبت سوچ اجاگر کرنا ہے ۔ مگر جب میدان میں سیاسی انا، تعصب اور حکومتی پالیسیوں کی مداخلت بڑھ جائے تو کھیل کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ بھارت نے اس رویے سے نہ صرف اپنی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی ایک غلط پیغام دیا کہ کھیل جیتنے کے بعد رواداری اور عاجزی کی ضرورت نہیں بلکہ تکبر اور سیاست کا سہارا لینا چاہیے ۔ یہ رجحان کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے ۔
کرکٹ ہمیشہ سے برصغیر کی عوام کو جوڑنے والا کھیل رہا ہے ۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں، دوستیاں بڑھتی ہیں اور دشمنیاں کم ہوتی ہیں۔ مگر بھارتی رویے نے ایک بار پھر اس خواب کو توڑ دیا ہے ۔ اس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے عوام میں دوریاں بڑھیں گی بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ کھیل کے میدان میں ایسی مثالیں قائم کرنا کسی بھی قوم کے لیے باعثِ فخر نہیں بلکہ باعثِ شرمندگی ہے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور ایشین کرکٹ کونسل کھیل کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے سخت قوانین بنائیں۔ کسی بھی ٹیم یا ملک کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ سیاسی بنیاد پر کھیل کے اصولوں کو پامال کرے ۔ ساتھ ہی پاکستان سمیت تمام کھیل دوست ممالک کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو عالمی اسپورٹس فورمز پر اٹھائیں تاکہ آئندہ کسی ٹیم کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ کھیل کے تقدس کو پامال کرے ۔
پاکستانی قوم اور کرکٹ بورڈ کو بھی اپنی پالیسی مزید مضبوط کرنی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کھلاڑیوں کو ہمیشہ اسپورٹس مین اسپرٹ کی تعلیم دیں تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان کھیل کے میدان میں سیاست نہیں بلکہ خلوص اور کھیل کے فروغ پر یقین رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مواقع پر جذباتیت میں آنے کے بجائے عالمی سطح پر مثبت اور دلیل پر مبنی موقف پیش کریں۔
اب یہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ عالمی کرکٹ ادارے کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے کے لیے ضابطہ اخلاق مزید سخت کریں۔ دوسرا یہ کہ بھارت جیسی ٹیموں پر جرمانے یا پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ دنیا بھر کو سبق ملے کہ کھیل کے میدان میں سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تیسرا یہ کہ پاکستان اپنی سفارت کاری اور کھیلوں کے ذریعے امن اور بھائی چارے کا پیغام جاری رکھے تاکہ دنیا دیکھے کہ اصل فاتح وہی ہے جو جیتنے کے بعد بھی عاجزی اور رواداری دکھائے ۔ اگر یہ اقدامات بروقت کر لیے جائیں تو ایشیا کپ 2025 کا تلخ تجربہ مستقبل میں کسی اور ایونٹ میں نہ دہرایا جائے گا۔یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ بھارت نے اس ایونٹ کو سیاست کی نذر کر کے اپنی ساکھ برباد کی ہے ۔ مگر کرکٹ اور کھیل کے چاہنے والوں کے لیے امید اب بھی باقی ہے کہ اگر عالمی سطح پر انصاف اور کھیل کے اصولوں کو مقدم رکھا جائے تو کھیل ایک بار پھر وہی جذبہ، خوشی اور محبت واپس لا سکتا ہے جو اس کا اصل مقصد ہے ۔ یہی وقت ہے کہ کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔