عمر سے متعلق تنقید، اداکارہ ماہرہ خان نے والدہ کو کیا جواب دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
پاکستان کی مقبول ترین اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنی عمر چھپانے کا مشورہ دیا جسے سن کر انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔
ماہرہ خان نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں مختلف موضوعات پر بات کی اس دوران انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک بار وہ اپنے والدین کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھی تھیں کہ میری والدہ نے کہا میں نے کچھ دیکھا جو مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔
ماہرہ خان کے مطابق ان کی والدہ نے کہا کہ تم بھی اپنی عمر سب کو بتا دیتی ہو جس پر انہوں نے والدہ سے کہا میں بالکل ایسا ہی کروں گی، میں نے کبھی کچھ نہیں چھپایا جب میری شادی ہوئی، بچہ ہوا، طلاق ہوئی میں نے سب کچھ بتایا تو میں عمر کیسے چھپا سکتی ہوں۔
اداکارہ کا مزید کہنا تھا کہ میں جو ہوں وہی رہوں گی اور اپنی عمر کبھی نہیں چھپاؤں گی مجھے کسی کی پرواہ نہیں مجھے اپنے ساتھ مخلص رہنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتی ہوں لیکن اپنی عمر سے مطمئن ہوں اور مجھے لوگوں کی باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ آپ جو ہیں وہی ہیں، عمر چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے اور اس پر آپ کو فخر ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ ماہرہ خان کو حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’لو گرو‘ میں40 سال کی عمر میں فلم میں بطور ہیروئن کام کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر عمر عادل نے کہا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہرہ خان خوبصورت ہیں، لیکن ہدایتکار نے پوری فلم میں ان کے بہت زیادہ کلوز اپ شاٹس لیے، جس کی وجہ سے ان کی عمر اور جھریاں نمایاں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ میک اپ کے ذریعے ماہرہ خان کی جھریاں چھپانے کی کوشش کی گئی، لیکن بڑی اسکرین پر وہ عمر رسیدہ نظر آئیں، جو اچھا تاثر نہیں دیتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
لو گرو ماہرہ خان ماہرہ خان عمر ہمایوں سعید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لو گرو ماہرہ خان ماہرہ خان عمر ہمایوں سعید
پڑھیں:
مسلم لیگ (ن) حکومت اپنے ہی کارکنوں کی تنقید کی زد میں،وجہ کیابنی؟
پاکستان میں ان دنوں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اپنے ہی سوشل میڈیا ورکرز اور حمایتیوں کی تنقید کی زد میں ہے اور یہ تنقید پچھلے کچھ دنوں سے آہستہ آہستہ سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے، تاہم اس میں اضافہ حال میں تیل کی قیمتوں کے اضافے کے بعد شروع ہوا۔
اردونیوز کے مطابق وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ جو کبھی حکومت کی مدح سرائی میں مشغول دکھائی دیتے تھے اور ان کے فالوورز کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اب انہی سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جس کا سامنا ماضی میں تحریک انصاف کو کرنا پڑا۔ یعنی جب 2018 میں عمران خان اقتدار میں آئے تو اس کے تقریباً دو سال بعد 2020 میں صورت حال ایسی تھی کہ ان کے اپنے سوشل میڈیا پر حامی اپنی حکومت کے اقدامات خاص طور پر مہنگائی اور ایندھن کی قیمتوں پر نہ صرف تنقید کرتے دکھائی دیتے تھے بلکہ انہوں نے حکومتی اقدامات کی ہر طرح کی حمایت بھی بند کر دی تھی۔
کچھ اس قسم کی صورت حال کا سامنا اب مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلم لیگ کے ایک متحرک سوشل میڈیا کارکن جو آر اے شہزاد کے نام سے ایکس پر اپنا اکاؤنٹ چلاتے ہیں حال ہی میں ان کے اکاؤنٹ سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کی ایک تازہ پوسٹ کے مطابق موجودہ حکومت کو آئے کل ملا کر ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کو ان کے آنے سے کوئی ریلیف نہیں ملا، اس کا بجٹ ان کے آنے کے بعد کم ہوا ہے۔ بجلی گیس کے بل بڑھ گئے۔ پیٹرول مہنگا ہے جبکہ اس دوران ایلیٹ کلاس، وزیروں اور اراکین اسمبلی کی ہر چیز چھ سو فیصد بڑھ گئی ہے، اب عام پاکستانی آپ کی ان حرکتوں کی حمایت کیسے کرے؟‘
آر اے شہزاد خود ڈنمارک میں رہتے ہیں اور ان کا شمار ن لیگ کے بڑے سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔ یہ ایک ٹویٹ نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں ان کے ٹویٹس کے نیچے لیگی کارکن بھی سوال اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
محسن بیگ جو کہ ایک سینیئر صحافی اور ماضی میں عمران کے قریبی دوست بھی رہے اور بعد ازاں ان عمران خان کے دور میں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ بعد میں ن لیگ کی سیاسی حمایت میں شامل ہو گئے۔
تاہم ان دنوں وہ بھی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے حالیہ ٹویٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ٹیگ کر کے کہا گیا ہے کہ وہ بجلی کی قیمتیں کم کریں۔
’بجلی کے حالیہ بھاری بھرکم بلز نے واقعی عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ وزیراعظم اور وزیر پاور اویس لغاری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اس معاملے پر فوری توجہ دینا ہو گی اور یہ جو سلیب بنا کر ٹیرف کا کھیل کھیلا جا رہا ہے عوام کو اس کی سمجھ نہیں ہے۔ انہیں سستی بجلی چاہیے۔
وکیل اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ میاں داؤد جنہوں نے سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کر کے انہیں استعفے پر مجبور کیا تھا، کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی ان دنوں ن لیگ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے ان کا شمار ان انفلوئنسرز میں ہوتا تھا جو ن لیگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ ن لیگ کے حمایتی اب کھل کر حکومتی پالیسیو پر تنقید کر رہے ہیں۔
یہ تنقید صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں سپیکر ،چیئرمین سینیٹ اور اراکین اسمبلی کی مراعات بڑھائے جانے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تو ایسے میں کئی طرح سے سوال سامنے آ رہے ہیں کہ کیا موجودہ حکومت ن لیگ کے اپنے حلقوں کی طرف سے تنقید کسی منصوبے کا حصہ ہے یا قدرتی ہے؟
امریکی لامار یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے پاکستانی نژاد ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’اس کو دو تین طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کے ڈائی ہارٹ سپورٹر ہوتے ہیں وہ ان کو اقتدار تک نہیں پہنچاتے۔ اقتدار میں وہ لوگ لے کر آتے ہیں جو تھوڑے دور بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ان کو امید ہوتی ہے بعض اقدامات کے نتیجے میں ان کو لگتا ہے کہ اب کون حالات ٹھیک کرے گا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو جب کسی حکومت سے مسئلہ دکھائی دیتا ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اب اگلے کو چانس دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اویس سلیم کہتے ہیں کہ ’جس طرح آج کل تحریک انصاف کا سپورٹر یہ کہتا ہے کہ 90 فیصد عوام عمران خان کے ساتھ ہیں آج حکومت ان کی آ جائے تو ایک سال میں ہی یہ توپوں کا رخ ان کی طرف ہو جائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وفادار کارکن جب تنقید شروع کر دیں تو اس کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ تو ڈاکٹر اویس سلیم کا کہنا تھا کہ ’اس کی سائنسی توجیہہ یہ ہے کہ جب آپ کو سیاسی پیغام ملتا ہے تو آپ اس کو دو راستوں سے سمجھتے ہیں۔ ایک ہے آپ کا مینٹل شارٹ کٹ راستہ کہ یہ میرا پسندیدہ بندہ کہ رہا ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ دوسرا ہے سنٹرل روٹ جب آپ اس پیغام پر دماغ استعمال کرتے ہیں تو وہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ اس سے ذاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔‘
موجودہ صورت حال میں ن لیگی سپورٹرز کی طرف سے تنقید کے سیاق و سباق میں ان کا کہنا تھا کہ ’پرابلم یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ جتنی بھی بڑی بڑی باتیں کر لیں کہ کہ ملک ڈیفالٹ سے نکل آیا ہے لیکن یہ نمبر عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے وہ تو یہ دیکھیں گے کہ انہیں کیا ملا۔ ن لیگ کے عام ورکر اب اپنی حکومت کے چار بجٹ دیکھ چکے ہیں کیونکہ کہانی 2022 سے شروع ہوئی تھی۔ چار سال گزر جانے کے بعد بھی جب حالات تبدیل نہیں ہوئے تو اس سختی نے شارٹ کٹ روٹ سے سینٹرل روٹ کی طرف سفر شروع کر دیا۔ اب لوگ سوال کر رہے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی اس لیے آپ کو غصہ دکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ن لیگ میں حالیہ تنقید کا نشانہ شہباز شریف ہیں اب بھی عام لیگی کارکن یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔
ڈاکٹر اویس کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مزیدار فرق ہے اور ن لیگ کی گڈ کاپ بیڈ کاپ سیاست یہاں کھل کے دکھائی دے رہی ہے۔ عام لیگی ورکر اب بھی نواز شریف کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا اور یہ ان کی سیاست کی کامیابی ہے۔ جس میں شہباز شریف نے ہمیشہ تنقید اور الزام سمیٹے ہیں جبکہ نواز شریف نے کامیابیاں۔