سرکاری ملازمین اور ٹیکس کی وصولی
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
محصولات کی وصولی ہمیشہ سے ایک فعال ریاست کے ڈھانچے میں ایک ناگزیر ستون رہی ہے۔ منظم طرزِ حکمرانی کے ابتدائی ادوار سے ہی ٹیکس عائد کرنا ایک معمول کا عمل رہا ہے تاکہ انتظامی نظام کی بقا، عوامی خدمات کی فراہمی اور ریاست کے دفاع کو یقینی بنایا جا سکے۔ کوئی بھی معاشرہ، خواہ وہ کتنا ہی خوشحال یا محدود وسائل کا حامل کیوں نہ ہو، مستقل آمدن کے بغیر قابلِ عمل نہیں رہ سکتا، اور یہ آمدن ٹیکس ہی فراہم کرتے ہیں۔ جدید ریاستوں میں، خاص طور پر اُن ریاستوں میں جہاں آبادی زیادہ ہو اور ترقیاتی ضروریات بڑھ رہی ہوں، ٹیکس وصولی صرف مالی مجبوری نہیں بلکہ اخلاقی اور شہری فریضہ بن جاتی ہے۔ شہری جو ریاست کی جانب سے حاصل ہونے والے حقوق، سہولیات اور تحفظ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اُن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنا جائز حصہ ادا کریں۔ یہ اصول اگرچہ نظریاتی طور پر دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے، تاہم عملی طور پر اس میں اکثر نمایاں تضادات پائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان اس تضاد کی ایک کلاسیکی مثال پیش کرتا ہے۔ بارہا مہمات چلانے اور پالیسی اقدامات اٹھانے کے باوجود ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ٹیکس کی ادائیگی کو ایک قومی فریضے کے بجائے ایک ایسا بوجھ سمجھتا ہے جس سے بچنا چاہیے۔ مختلف مفاد پرست گروہ، جو اکثر سیاسی سرپرستی یا غیر رسمی روابط کے سائے تلے محفوظ ہوتے ہیں، کئی دہائیوں سے اپنا جائز حصہ ادا کرنے سے بچنے کے راستے نکالتے رہے ہیں۔ تاہم اس چنیدہ احتساب اور چالاکی سے بچ نکلنے کی عمومی روش کے درمیان ایک ایسا طبقہ ضرور موجود ہے جو مسلسل اور ناگزیر طور پر یہ بوجھ اٹھاتا ہے،اور وہ ہے سرکاری ملازمین کا۔
پاکستان میں دیگر کئی طبقات کے برعکس، تنخواہ دار سرکاری ملازمین کے پاس نہ تو کوئی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی بچنے کا راستہ۔ ان کی آمدنی براہِ راست سرکاری خزانے سے حاصل ہوتی ہے، جس پر منبع سے ہی خودکار طریقے سے کٹوتی کر لی جاتی ہے۔ خواہ وہ رضامند ہوں یا نہ ہوں، یا ان کی مالی حالت کچھ بھی ہو، ان پر ٹیکس ان کی تنخواہ ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی لاگو ہو جاتا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں یہ کٹوتیاں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، مالی سال جو 30 جون 2025 ء کو ختم ہوا، میں تنخواہ دار طبقے نے حیران کن طور پر 545 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا۔ یہ رقم نہ صرف نمایاں تھی بلکہ معیشت کے دو اہم شعبوں،برآمد کنندگان اور ریٹیلرزکی مجموعی ٹیکس ادائیگی کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئی۔
برآمد کنندگان، جو غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کے فوائد اور حکومت کی جانب سے دی گئی خاطر خواہ مراعات سے مستفید ہوتے ہیں، نے صرف 180 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ ریٹیلرز، جو ایک سیاسی طور پر مضبوط اور تاریخی طور پر دستاویزی نظام و ضوابط کی مزاحمت کرنے والا طبقہ ہے، نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 236 جی اور 236 ایچ کے تحت محض 62 ارب روپے کی معمولی سی رقم ادا کی۔ جب ان دونوں شعبوں کی ادائیگی کو جمع کیا جائے تو یہ 242 ارب روپے بنتی ہے جو تنہا تنخواہ دار طبقے کی جانب سے ادا کردہ رقم سے بھی آدھی ہے۔ یہ فرق ہمارے ٹیکس نظام میں موجود ڈھانچہ جاتی عدم مساوات کو واضح کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی وہی انکم ٹیکس کی شرح اور وہی جذبہ کیوں لاگو نہیں ہوتا جو سرکاری ملازمین پر ہوتا ہے؟ یہ سوال عوامی مباحثوں کی راہداریوں میں بار بار گونجتا ہے، لیکن بدستور غیر جواب دہ اور ناگوار سمجھا جاتا ہے۔
سرکاری ملازمین کی جانب سے ادا کیے گئے 545 ارب روپے گزشتہ مالی سال کے 367 ارب روپے کے مقابلے میں ایک نمایاں اضافہ ہے، جو 178 ارب روپے کے اضافی بوجھ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ اس نمایاں اضافے کو محصولات میں بہتری کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، مگر یہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ مختلف شعبوں پر ٹیکس نافذ کرنے میں توازن اور انصاف کا شدید فقدان ہے۔ یہ ایک گہری ستم ظریفی ہے کہ وہ افراد جو سب سے زیادہ نمایاں ہیں، جن کی آمدن سب سے زیادہ شفاف ہے، اور جن کے پاس ٹیکس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں، وہی اس بوجھ کا سب سے بڑا حصہ اٹھا رہے ہیں۔
بڑے زور و شور سے متعارف کروائی گئی ”تاجر دوست اسکیم، جس کا مقصد ریٹیلرز کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لانا تھا، اپنی دعوؤں پر پوری اترنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ریٹیلرز، اپنی منافع بخش کاروباری سرگرمیوں اور لین دین کے بڑے حجم کے باوجود، ایک بار پھر مؤثر ٹیکس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 236 جی اور 236 ایچ، جو ڈسٹری بیوٹرز، ڈیلرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز پر ان کی مجموعی فروخت کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرتی ہیں، عدم تعمیل کے خلاف ایک روک کے طور پر متعارف کرائی گئی تھیں۔ تاہم یہ اقدامات بھی خاطر خواہ نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ ان سے کچھ آمدنی حاصل ہوئی ہے اور چند افراد ٹیکس نیٹ میں لائے گئے ہیں، مگر مجموعی ردِعمل اب بھی مایوس کن اور سرد مہری پر مبنی ہے۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایف بی آر کے مطابق مالی سال 2025-26 ء کے لیے ابتدائی دو ٹیکس سلیبز میں کمی کی گئی ہے۔ سالانہ 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے کمانے والے افراد پر اب 5 فیصد کے بجائے صرف 1 فیصد ٹیکس عائد ہوگا، جبکہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ روپے سالانہ آمدن رکھنے والے افراد پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی گئی ہے۔ اس رد و بدل سے تنخواہ دار طبقے کو مجموعی طور پر 50 ارب روپے کا ریلیف ملنے کی توقع ہے،اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی مجموعی ٹیکس ادائیگی کے تناسب سے یہ محض ایک معمولی سا ریلیف ہے۔
تنخواہ دار طبقے میں شامل اُن سرکاری ملازمین کو جو تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہیں، ایک عرصے تک ٹیکس ریبیٹ کی ایک معمولی مگر باعزت سہولت حاصل رہی—جو اُن کی علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر دی گئی تھی۔ یہ ریبیٹ سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2006 ء میں متعارف کروایا گیا، جس کی شرح 75 فیصد تھی۔ بعد ازاں 2013 ء میں اسے کم کر کے 40 فیصد کر دیا گیا، اور پھر 2022 ء تک اسے مزید گھٹا کر 25 فیصد تک محدود کر دیا گیا۔ تاہم، فنانس ایکٹ 2022 ء کے تحت یہ رعایت مکمل طور پر ختم کر دی گئی، جس سے تعلیمی اور تحقیقی شعبے سے وابستہ افراد وہ سہولت کھو بیٹھے جس پر وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے انحصار کر رہے تھے۔
مارچ 2025 ء میں اساتذہ کی انجمنوں کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں وفاقی کابینہ نے 25 فیصد ریبیٹ بحال کر دی۔ تاہم، اس بحالی کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جس نے اس سہولت کو ٹیکس ہم آہنگی کے اصولوں کے خلاف قرار دیا۔ آئی ایم ایف کے دباؤ کے باوجود حکومت نے فنانس بل 2025-26 کے ذریعے یہ 25 فیصد ریبیٹ ٹیکس سال 2023، 2024، اور 2025 ء کے لیے ازخود مؤثر کرتے ہوئے بحال کر دی۔ اس اقدام کو اساتذہ اور محققین کی منفرد خدمات کے اعتراف کے طور پر خوش آئند قرار دیا گیا، اگرچہ اس سہولت کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال اب بھی برقرار ہے۔ ایسے واقعات اس وسیع تر مخمصے کی عکاسی کرتے ہیں کہ آیا قومی مالیاتی پالیسی کو بیرونی ہدایات کو فوقیت دینی چاہیے یا ملکی ضروریات اور انصاف کے اصولوں کے مطابق ترتیب دیا جانا چاہیے۔
کسی بھی منصفانہ اور ذمہ دار ریاست میں ٹیکس کا نظام وسیع بنیادوں پر، منصفانہ اور شفاف ہونا چاہیے۔ صرف اُن طبقات پر بوجھ ڈالنا جو آسانی سے دستیاب ہوں، جبکہ بااثر طبقات کو چھوٹ دینا، عوام میں بددلی پیدا کرتا ہے اور ریاستی اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ، خصوصاً سرکاری ملازمین، نے اپنا فرض نبھایا ہے—اکثر بغیر کسی داد یا اعتراف کے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دیگر شعبے بھی اسی معیار پر پورا اتریں۔ ٹیکس میں مساوات صرف اعداد و شمار کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ریاست کی اخلاقی قوت اور انتظامی دیانت کا امتحان ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے سرکاری ملازمین کی جانب سے انکم ٹیکس کے طور پر مالی سال ارب روپے ٹیکس ادا پر ٹیکس ٹیکس کی کرتا ہے ٹیکس ا ہے اور ادا کی
پڑھیں:
سی سی ڈی کے ملازمین اور افسران کو ایک اضافی تنخواہ دینے کا اعلان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سی سی ڈی کےملازمین کے الاؤنس کا اجراء کر دیا گیا، افسران اور ملازمین کو 2011 کے بنیادی پےاسکیل کے مطابق ایک اضافی تنخواہ دی جائےگی۔
مراسلے کے مطابق ڈیپیوٹیشن پرسی سی ڈی میں آنے والے ملازمین کو الاؤنس نہیں دیا جائے گا،دوران ڈیوٹی معطل ہونے والے افسران اور اہلکار بھی الاؤنس نہیں لے سکیں گے۔
طویل مدت رخصت اور دوران ڈیوٹی لمبی چھٹی پر جانے والوں کوبھی الاؤنس نہیں ملےگا،سی سی ڈی کے اوایس ڈی بنائے جانے والے افسران اور اہلکار الاؤنس کے حقدارنہیں ہوں گے۔
محکمہ داخلہ نے فنانس ڈیپارٹمنٹ کومراسلہ بھیج دیا،سی سی ڈی کےملازمین کی الاؤنس کی منظوری صوبائی کابینہ نےدی تھی۔