انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
فلسفہ انسانی شعور کی گہرائیوں میں اترنے کائنات، انسان اور زندگی کے بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو نہ صرف عقل و منطق کو بروئے کار لاتا ہے بلکہ اخلاق، وجود، علم، سیاست، مذہب اور فنون جیسے شعبوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ فلسفہ محض خیالی قیاسات نہیں بلکہ انسانی رویوں، اقدار، روایات، معاشرتی ڈھانچوں اور علمی ترقی کے لیے ایک مضبوط فکری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ فلسفے کا انسانی زندگی میں کیا کردار ہے ؟فلسفہ انسان کو اپنی ذات کے شعور کی طرف مائل کرتا ہے ، یہ انسان کے اندر سوال پیدا کرتا ہے کہ’’میں کون ہوں؟‘‘، ’’میری اصل کیا ہے؟‘‘ اور ’’مجھے کن راستوں پر چلنا ہے؟‘‘ یہ سوالات فرد کی شخصیت میں گہرائی، سنجیدگی اور خودی کا شعور پیدا کرتے ہیں۔
فلسفے کا دوسرا مقصد انسان کے اخلاقی معیار کی تشکیل ہے۔اخلاقیات یا علمِ اخلاق فلسفے کی ایک اہم شاخ ہے جو اچھے اور برے، صحیح اور غلط کی تمیز میں مدد دیتی ہے۔ زندگی میں فیصلے کرتے وقت فلسفیانہ سوچ انسان کو انصاف، ہمدردی اور حق پسندی کی طرف مائل کرتی ہے اور یہ کہ فلسفہ انسان کی عقلی اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے ۔جس کی وجہ سے انسان محض تقلید ہی نہیں کرتا بلکہ دلائل، شواہد اور استدلال کی روش اپناتا ہے۔ یہ تنقیدی سوچ معاشرے میں سچ اور جھوٹ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کرنے میں مدد دیتی ہے۔
فلسفہ معاشرتی فہم اور اصلاح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی ڈھانچوں، قوانین، ریاست، عدل و انصاف اور آزادی جیسے موضوعات کا گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے۔ افلاطون، ارسطو، ہیگل، اور ابن خلدون جیسے فلسفیوں نے معاشرتی اور سیاسی نظریات پیش کیے جو آج بھی دنیا بھر کے نظاموں میں اثرانداز ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جڑیں فلسفے میں پیوستہ ہیں۔ طبیعیات، حیاتیات، منطق، اور ریاضیات کے ابتدائی تصورات فلسفیوں نے ہی پیش کیے تھے۔ دیکارٹ، کانٹ، اور برکلے جیسے فلسفیوں کے افکار سائنسی طریقہ کار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
فلسفے کی تاریخی اہمیت:فلسفے کی بنیادیں قدیم یونان میں رکھی گئیں۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو نے اخلاقیات، سیاست، منطق اور علمیات کے ایسے تصورات پیش کیے جو صدیوں تک مغربی فکر پر غالب رہے۔8ویں سے 12ویں صدی عیسوی کے درمیان مسلم دنیا میں فلسفے نے زبردست ترقی کی۔ فارابی، ابن سینا، ابن رشد، الکندی اور الغزالی جیسے فلسفیوں نے یونانی فلسفے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ کیا اور نئی فکری راہیں کھولیں۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں فلسفہ سائنسی ترقی، انسانی آزادی، اور عقلی تحریک کا بنیادی ذریعہ بنا۔ جدید مغربی فلسفہ ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ، اور ہیگل جیسے مفکرین کی بدولت ارتقا پذیر ہوا۔مارکس، نطشے، سارتر، فوکو اور ڈیریدا جیسے فلسفیوں نے جدید معاشروں کے مسائل، اقتدار، شناخت، اور وجود کے نئے پہلوئوں کو اجاگر کیا۔ وجودیت (Existentialism)، ردتشکیلیت (Deconstruction) اور تنقیدی نظریات (Critical Theories) نے انسانی زندگی کے نئے امکانات کو نمایاں کیا۔
فلسفہ انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے کیونکہ یہ ہمیں سوچنے، سمجھنے اور خود کو دریافت کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ فلسفہ صرف ماضی کی دانش نہیں، بلکہ حال کی بصیرت اور مستقبل کی رہنمائی بھی ہے۔ اگرچہ عام انسان شاید فلسفے کے دقیق مباحث میں نہ اترے، مگر اس کی روزمرہ زندگی، فیصلوں،رویوں اور اقدار میں فلسفے کے اثرات نمایاں طور پر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ فلسفہ انسانی تہذیب کی روح ہے۔یہاں ایک فکری سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب علم کی پیاس بجھانے کے لئے دنیا میں عظیم جامعات نہیں تھیں تب انسان کے فلسفیانہ مسائل کی نوعیت کیا تھی ؟یہ سوال ہماری توجہ انسانی شعور کی سطح کی بلندی یا پستی کے بارے میں سوچنے اور تعبیرات پر دھیان کی طرف راغب کرتا ہے کہ تب انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کہاں تلاش کئے جاتے تھے ، تو ہم ان سوالات کی نوعیت، دائرے اور اس دور کی زندگی پر غور کرتے ہیں کہ اظہار کے ذرائع کیا تھے اور اس دور کی زندگی کا تعلق اپنے ماحول سے کس قدر توانا یا کمزور تھا ۔جب انسان کچھ خود شناس ہوا تو کائنات ، زمین و آسمان،بارش، زلزلوں ،چاند ،سورج اورموت و حیات کو سمجھنے کی جستجو کن مظاہر کی روشنی میں کرتا تھا۔چونکہ ان دنوں سائنسی اور منطقی بنیادوں کا ظہور تو نہیں ہوا تھا۔شاید ان سب کے ادراک کے لئے ہی اس نے ماورائی قوتوں ، دیوی ،دیوتاں یا روحانی عناصر کا فرضی تصورقائم کر لیا۔
اس دور میں فلسفہ یا مذہب بھی شاید جادوئی روایتوں سے جڑے ہوئے تھے !بارش کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟سورج کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے ؟اور موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ انسان نے جب پہلی بار خود کوشعور کی روشی میں محسوس کیا تو سب سے پہلے اپنے ہی بارے خود سے سوال کیا میں کون ہوں ؟ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ میری آخری منزل کونسی ہے؟
پھر جب انسان نے قبیلوں اور گروہوں کی صورت میں رہنا شروع کیا تو جھوٹ، سچ ،عدل وانصاف اور وفا و بے وفائی کے سوال اس کے روبرو کھڑے ہوگئے ،جو معاشرتی زندگی کا لازمہ تھے۔ان سب میں خوف اور حیرت بنیادی محرکات تھے اور یہ حیرت ہی تھی جس سے فلسفہ پیدا ہوا۔ حیرت اور خوف کے ابتدائی فلسفیانہ اور مذہبی بیانیئے کو جنم دیا۔یوں بغیر اداروں کے نسل در نسل ، کہانیوں شاعری اور ضرب الامثال اور قبائلی سیانوں کے ذریعے علم منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ابتدا میں فلسفہ عام طور پر علامتی انداز میں ظہور پذیر ہوا‘ ہندووید، مصری دیو مالا اوریونانی اساطیر کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔
اداروں یا جامعات سے پہلے فلسفہ تحریر ی شکل میں نہیں تھا بلکہ تجربات ،عقائد،روایاتواور حکمت کی آمیزش کے طور پر موجود تھا۔یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ انسانی تاریخ سے بھی کہنہ علم ہے اور انسان کی بصیرت آفروزی میں اس کا کردار کلیدی ہے ۔اس کے مفاہیم مقاصد ،ماہیت، دائرہ کار اور اظہار کے وسیلے ابتدا سے اب تک تغیر سے جڑے ہوئے ہیں اور فلسفے کی اسی جہت کی وجہ سے اہل علم اسے سائنس سے تعبیر کرنے میں کوئی قباحت نہیں گردانتے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فلسفہ انسانی انسانی زندگی فلسفہ انسان انسان کے شعور کی کرتا ہے اور اس
پڑھیں:
’حمیرا کی موت اس جھوٹی دنیا کا چہرہ ہے جہاں’فالوورز‘ ہوتے ہیں دوست نہیں‘
ماڈل اور اداکارہ حمیرا اصغر گزشتہ روز کراچی میں اپنے فلیٹ میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔ پولیس کے مطابق ان کی لاش تقریباً 15 سے 20 دن پرانی ہے۔
فلیٹ میں مردہ حالت میں پائے جانے کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے قبل سینئر اداکارہ عائشہ خان کے گھر سے ان کی 7 روز پرانی لاش ملی تھی۔ صارفین کا کہنا ہے کہ فنکار کس قدر تنہا زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ مر جائیں تو کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔
کراچی میں مشہور ماڈل اور ایکٹرس حمیرا اصغر کی کئی دن پرانی لاش اس کے فلیٹ سے ملی ہے
یہ کچھ دنوں میں دوسرا ایسا واقعہ جو بتاتا کہ کراچی جیسے شہر میں فنکار کس قدر تنہا زندگی گزار رہے کہ مر جائیں تو کسی کو خبر تک نہی ہوتی ہے pic.twitter.com/TFwIMbzSW8
— RAShahzaddk (@RShahzaddk) July 8, 2025
ایک ایکس صارف کا کہنا تھا کہ حمیرا کی موت صرف ایک انسان کی موت نہیں، یہ سوشل میڈیا کی اُس جھوٹی دنیا کا چہرہ بھی ہے جہاں ’لائکس‘ تو ہوتے ہیں، محبت نہیں۔ جہاں ’کمنٹس‘ ہوتے ہیں، توجہ نہیں۔ جہاں ’فالوورز‘ ہوتے ہیں، دوست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ روشنیوں سے لپٹی زندگی جب ختم ہوئی، تو اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ کئی دنوں بعد بھی کسی نے تلاش نہ کیا۔ اور یہ ایک سوال ہے کہ کیا ہم واقعی کسی کو جانتے ہیں یا صرف اس کی پوسٹس، تصویریں، اور پردے پر بنائے گئے چہرے سے دھوکا کھاتے ہیں؟
چمکتی روشنیوں کے پیچھے چھپی تنہائی
زندگی دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں
کراچی،
اداکاری کی دنیا، ماڈلنگ کی چکاچوند، سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز، جگمگاتی پارٹیوں میں جگنوؤں کی طرح چمکتی ایک لڑکی… حمیرا اصغر علی۔
وہ نام، جو فیشن شوز، فلمی سیٹس اور ایلیٹ کلاس کی محفلوں میں چرچا بن… pic.twitter.com/kc9VHbR7GJ
— Imran abbas (@Imranab03518323) July 9, 2025
ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ حمیرا اصغر کے لاکھوں فالوورز تھے لیکن اپارٹمنٹ میں ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنوں کو اپنے ساتھ رکھیں، اپنوں میں رہیں۔
حمیرا اصغر۔۔۔۔ پاکستانی ماڈل اور اداکارہ کی لاش ایک مہینے سے اپارٹمنٹ میں تھی ۔۔۔ اسکے 731K کے فالورز تھے مگر کوئی نہ تھا اسکے پاس اپارٹمنٹ میں اسکے ساتھ ۔ اپنوں کو اپنے ساتھ رکھیں، اپنوں میں رہیں۔ pic.twitter.com/EaJ3DnngLK
— Dr Ayesha (@Dr_AyeshaNavid) July 8, 2025
شمع جونیجو نے کہا کہ آپ کتنے بھی تنہا کیوں نہ ہوں، زندگی میں کم از کم ایک دوست، رشتہ دار، پڑوسی، یا کولیگ ایسا رکھیں جو آپ کے لیے فکر کرے اور اگر آپ دو تین دن غائب ہوجائیں تو پریشان ہو۔
آپ کتنے بھی تنہا کیوں نہ ہوں، زندگی میں کم از کم ایک دوست، رشتہ دار، پڑوسی، یا کولیگ ایسا رکھیں جو آپ کے لئے فکر کرے اور اگر آپ دو تین دن غائب ہوجائیں تو پریشان ہو۔
حمیرا اصغر کی لاش ہفتوں فلیٹ میں پڑی رہی، اس کی زندگی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو پتہ کرتا
pic.twitter.com/9CAV8YcoyJ
— Dr Shama Junejo (@ShamaJunejo) July 9, 2025
پاکستانی اداکارہ امر خان نے کہا کہ حمیرا کی کہانی کئی فنکاروں کی کہانی ہے، جو لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عارضی دنیاوی اہداف کی خود شناسی کا دن ہے، جہاں آپ لباس، کیریئر اور دولت کی بنیاد پر جج کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام لڑکیاں جو اپنے کیریئر کا آغاز کر رہی ہیں وہ اپنے آپ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں اور باقی اللّٰہ پر چھوڑ دیں۔ کوئی بھی چیز آپ کی ذہنی صحت اور زندگی سے اہم نہیں ہے۔
اداکارہ و ماڈل نادیہ حسین نے کہا کہ مجھے حمیرا کا بہت افسوس ہے اس لیے نہیں کہ وہ ہماری انڈسٹری میں ہے کیونکہ ایسی اور بہت سی لڑکیاں ہوں گی جو کہ فیملی سپورٹ کے بغیر اور تعلیم کی کمی کے باعث انہیں مواقع نہیں ملتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام لڑکیوں کے لیے پیغام ہے کہ اپنی زندگی کو کنٹرول کریں اور اپنی فیملی، دوستوں سے رابطے میں رہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Nadia Hussain Khan (@nadiahussain_khan)
واضح رہے کہ حمیرا اصغر کی لاش گزشتہ روز کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کے ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی، اور مختلف اطلاعات کے مطابق وہ تقریباً ایک ماہ پہلے انتقال کر چکی تھیں۔ ان کی موت کی وجہ تاحال غیر واضح ہے اور پولیس نے اس بارے میں باضابطہ تفتیش شروع کر دی ہے۔
حکام کے مطابق فلیٹ کے مالک نے کرایہ نہ ملنے پر قانونی کارروائی کرتے ہوئے کیس دائر کیا تھا، اور گزشتہ روز عدالتی بیلف کے ہمراہ جب فلیٹ خالی کروانے کے لیے ٹیم پہنچی تو لاش برآمد ہوئی۔ اداکارہ کی موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ کے مطابق اسپتال لائی جانے والی لاش مسخ شدہ حالت میں ہے، جس کے مختلف نمونے اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ موت کی حقیقی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے سامنے آئے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
حمیرا اصغر حمیرا اصغر موت عائشہ خان