حماس ختم شُد۔۔۔۔ تو پھر مذاکرات کس سے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج جب اسرائیل اور امریکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حماس کو ختم کر دیا گیا ہے تو وہ دراصل اپنے خوف کو چھپا رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں کہ حماس ابھی زندہ ہے، متحرک ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسرائیل کیلئے ایک لازوال سوال بن چکی ہے اور حماس کہہ رہی ہے کہ اگر ہم ختم ہوچکے تو تم ہم سے بات کیوں کر رہے ہو۔؟ یہ سوال صرف اسرائیل کیلئے نہیں، پوری دنیا کیلئے ایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں جھانکنے کی ہمت ہو تو وہ یہ دیکھے گی کہ جنگ میں ٹینک اور جہاز صرف جسم مارتے ہیں، نظریئے نہیں اور جب تک نظریہ زندہ ہو، مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں، خواہ دشمن اسے جتنا بھی ختم شدہ قرار دے۔ تحریر: ظہیر حسین
دنیا کی طاقتور ترین زبانیں جب کسی گروہ یا ریاست کے خلاف بولتی ہیں تو اُن کے الفاظ کے نیچے ہمیشہ طاقت، ایجنڈے اور خاص مفاد کا خنجر پوشیدہ ہوتا ہے۔ آج جب اسرائیل، امریکہ اور ان کے دوست یورپی ممالک بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے حماس کو ختم کر دیا ہے، تو یہ محض ایک اعلان نہیں بلکہ ایک (خالی) بیانیہ ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کا سب سے مضبوط ستون مٹی میں دفن ہوچکا ہے اور اب میدان اسرائیل کے امن اور من مانی کے لیے بالکل خالی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی حماس ختم ہوچکی ہے، تو پھر اسرائیل انہی ختم شدہ عناصر سے مذاکرات کیوں کر رہا ہے۔؟ کیا مردوں سے مذاکرات ہوتے ہیں؟ یا یہ اعترافِ شکست کی ایک باپردہ صورت ہے۔؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ حماس کو مٹانے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ غالباً 2006ء میں جب حماس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو مغربی دنیا نے اس جمہوری عمل کو ماننے سے انکار کر دیا، کیونکہ جمہوریت تب تک قبول ہوتی ہے، جب نتائج مغربی دنیا کے حق میں آئیں۔ پھر غزہ پر پابندیاں، جنگیں اور محاصرے مسلط کیے گئے۔ ہر بار کہا گیا کہ حماس ختم ہوگئی، لیکن ہر بار وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم ہو کر اُبھری۔ اکتوبر 2023ء کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیل نے پورے غزہ کو کھنڈر بنا دیا۔ لاکھوں بے گھر، ہزاروں شہید، اسپتال ملبے میں دفن اور دنیا کی نظروں کے سامنے ایک نسل کو مٹایا گیا۔ تب بھی یہی کہا گیا: حماس اب باقی نہیں رہی، یعنی حماس ختم شد۔
لیکن اب صورت حال کچھ اور بتاتی ہے۔ حماس اب بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ہوں یا قطر، مصر یا دیگر ثالث، سب اسی ختم شدہ حماس کے ساتھ متبادل حل اور جنگ بندی پر بات کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزراء کبھی یہ ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں کہ وہ کسی حماس کے نمائندے سے بات کر رہے ہیں، لیکن حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔ دراصل، یہ وہ سچ ہے جسے چھپایا نہیں جا سکتا: حماس ختم نہیں ہوئی، بلکہ اسرائیل اپنے مقاصد میں ناکام ہوچکا ہے۔ یہ سوال کہ مذاکرات کس سے؟ خود اسرائیلی بیانیے کو جھٹلا دیتا ہے۔
اگر حماس کا وجود ختم ہوچکا ہے تو پھر اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر کس سے قیدیوں کے تبادلے کی بات کرتا ہے۔؟ جنگ بندی کی شرائط طے کرنے کے لیے کس سے مشورہ کیا جاتا ہے۔؟ جنگی قیدیوں کی رہائی کا اختیار آخر کس کے پاس ہے۔؟ اگر حماس ایک ختم شدہ گروہ ہے تو وہ ایسی پوزیشن میں کیسے ہے کہ پوری دنیا اس کے ساتھ ثالثی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔؟ یہ سب اس بات واضح اور روشن ثبوت ہے کہ طاقت کا توازن یکطرفہ نہیں رہا اور ختم شدہ کہہ کر اسرائیل اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اسرائیل اور اس کے حمایتی حماس کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہیں، لیکن جب بات اپنے فوجیوں کی رہائی کی ہو، تو وہی دہشتگرد اچانک مذاکراتی فریق بن جاتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کا یہی تضاد دنیا کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیئے۔ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، اُن کی زمین، اُن کے بچوں، اُن کی زندگی کو ایک دہشتگرد تنظیم کے نام پر قربان کیا جا رہا ہے، لیکن جب ذاتی مفاد آتا ہے تو انہیں بات چیت کے لائق سمجھا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ حماس ایک تنظیم سے زیادہ ایک نظریہ ہے۔ اسے بمباری سے نہیں مارا جا سکتا، نہ اسے زمین بوس کرنے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہ فلسطینی جو اپنے بچے کھو کر بھی مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹے، وہ نسل جو ملبے میں پیدا ہو کر بھی آزادی کے خواب دیکھتی ہے، اُن کے دلوں سے حماس کو کون نکال سکتا ہے۔؟
اگر چند چہروں کو مار کر یا دفاتر کو زمین بوس کرکے کوئی تحریک ختم کی جا سکتی، تو تاریخ میں نہ الجزائر آزاد ہوتا، نہ ویتنام، نہ جنوبی افریقہ۔ حماس کا وجود اب فلسطینی مزاحمت کی اجتماعی شعور میں ضم ہوچکا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اسرائیل اور اس کے پشت پناہ جانتے بھی ہیں اور ماننے سے کتراتے بھی ہیں۔ اسی لیے وہ حماس کو ختم شدہ قرار دیتے ہوئے بھی اس سے مذاکرات پر مجبور ہیں۔ یہ صرف ایک عسکری مجبوری نہیں بلکہ سیاسی اعتراف ہے۔ جو زبان حماس کی قبریں کھود رہی تھی، وہ اب حماس سے سیز فائر کی بھیک مانگ رہی ہے۔ جو طاقتیں غزہ کو قبرستان بنانے پر تُلی ہوئی تھیں، وہ اب انہی قبر والوں سے امن کی باتیں کر رہی ہیں تو پھر سوال یہ بنتا ہے، اگر حماس ختم ہوچکی ہے تو اسرائیل اور امریکہ بار بار قطر کیوں دوڑتے ہیں۔؟
اصل میں یہ جنگ صرف زمین یا راکٹوں کی نہیں، بیانیے کی بھی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ دنیا اسے مظلوم اور مجبور سمجھے اور فلسطینیوں کو صرف حماس کی آڑ میں انتہاء پسند دکھایا جائے۔ مگر جنگ کے اس منظرنامے نے خود اسرائیل کے چہرے سے وہ نقاب اتار دیا ہے، جسے وہ دہائیوں سے اوڑھے ہوئے تھا۔ جو ریاست دن رات انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی دہائیاں دیتی تھی، آج وہی ریاست بچوں کے جنازوں پر بم برسا رہی ہے اور جب دنیا چیخ اٹھتی ہے تو وہی ریاست مذاکرات کے پردے میں خود کو امن پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لہٰذا، آج جب اسرائیل اور امریکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حماس کو ختم کر دیا گیا ہے تو وہ دراصل اپنے خوف کو چھپا رہے ہوتے ہیں۔
وہ اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں کہ حماس ابھی زندہ ہے، متحرک ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسرائیل کے لیے ایک لازوال سوال بن چکی ہے اور حماس کہہ رہی ہے کہ اگر ہم ختم ہوچکے تو تم ہم سے بات کیوں کر رہے ہو۔؟ یہ سوال صرف اسرائیل کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں جھانکنے کی ہمت ہو تو وہ یہ دیکھے گی کہ جنگ میں ٹینک اور جہاز صرف جسم مارتے ہیں، نظریئے نہیں اور جب تک نظریہ زندہ ہو، مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں، خواہ دشمن اسے جتنا بھی ختم شدہ قرار دے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہے ہوتے ہیں اسرائیل اور حماس کو ختم ہیں کہ حماس اسرائیل کے ہوچکا ہے ہے تو وہ تو پھر کے لیے رہی ہے کر دیا رہے ہو کر رہے ہے اور
پڑھیں:
اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور، معاہدےکی کوششوں کیلئے بالواسطہ بات چیت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قطر میں اسرائیل اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کا تیسرا دور شروع ہوگیا ہے، جس میں فریقین معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ مذاکرات بالواسطہ طور پر جاری ہیں اور دونوں جانب سے ثالثوں کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ابتدائی دو ادوار میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی، تاہم مذاکراتی عمل میں شریک رہنماؤں کا اصرار ہے کہ معاہدہ اب بھی ممکن ہے اور کوششیں ترک نہیں کی گئیں۔ مذاکرات کے اس مرحلے کے کئی روز تک جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ادھر امریکی صدر کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹ کوف رواں ہفتے کے آخر میں دوحہ پہنچیں گے، جہاں وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری مذاکرات میں براہِ راست شریک ہوں گے تاکہ کسی ممکنہ معاہدے کی راہ ہموار کی جا سکے۔