پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی تفصیلات فراہم نہ کرنے پر سیکریٹری داخلہ طلب
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
---فائل فوٹو
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پر مقدمات سے متعلق تفصیلات فراہم نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں سیکریٹری داخلہ کو طلب کرلیا۔
سینیٹر علی ظفر کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں سینیٹر افنان اللّٰہ کا غیر اخلاقی اشتہارات کی ممانعت ایکٹ 2025ء کا ایجنڈا زیرِ بحث آیا۔
سینیٹر افنان اللّٰہ نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کی قانون سازی ہوچکی ہے، جو اشتہارات سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر چل رہے ہیں، کیا ہمارے لوگ اس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں؟ ٹی وی چینلز پر اب جوئے، گیمبلنگ کا اشتہار چل رہا ہوتا ہے، کیا ہم نے اس ملک میں جوئے کو قانونی حیثیت دے دی ہے؟ شراب نوشی سے متعلق اشتہارات میں نے خود دیکھے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز کے ڈراموں میں شراب نوشی دیکھی ہے، میں نے ان سب کو مدنظر رکھ کر اس بل کو مزید اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔
سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ بین الاقوامی کرکٹ میچز پر جوئے سے متعلق اشتہارات چل رہے ہیں، مختلف جوئے کی سوشل میڈیا ایپس ڈاؤن لوڈ کرکے آپ جوا کھیل سکتے ہیں، پی ٹی اے اس حوالے سے ایکشن لے سکتا ہے۔
سینیٹر افنان اللّٰہ نے استفسار کیا کہ اگر پیمرا کا قانون موجود ہے تو یہ سارے اشتہارات کیسے چل رہے ہیں؟ قانون کی موجودگی میں جوئے کا اشتہار کیسے چلا ہے؟ کیا ٹی وی چینل پر چلنے والے اشتہار ہمارے معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں؟
اس پر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ لباس کا انتخاب موسم کی مناسبت، جغرافیائی لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل پر ووٹنگ کر لیتے ہیں۔
سینیٹر افنان کا کہنا تھا کہ میں اس ایکٹ کے ذریعے عورتوں کو بالکل ٹارگٹ نہیں کر رہا ہوں، ٹی وی چینل پر جوئے کا اشتہار چلانے سے متعلق مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے دیں۔
اس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ اس حوالے سے پہلے سے پیمرا میں ایک کمیٹی ہے جو نگرانی کرتی ہے۔
کمیٹی میں سینیٹر زرقا سہروردی کا معلومات تک رسائی کا ترمیمی بل 2023ء کا ایجنڈا زیرِ بحث آیا۔
سینیٹر زرقا سہروردی نے کہا کہ معلومات جب مانگی جاتی ہیں تو ہمیں معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، اگر معلومات مانگی جائے تو مخصوص انفارمیشن فراہم نہیں کی جاتی ہے۔
اجلاس میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کے حکام نے بتایا کہ سینٹرل سینسر بورڈ اسلام آباد کے لیے الگ ہے، صوبوں کے الگ سے بنے ہوئے ہیں۔
سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہمارے ہاں فلمیں بنتی نہیں ہیں اور سینسر بورڈ کے ممبران درجنوں میں ہیں، پاکستان میں فلمیں اس طرح سے بن ہی نہیں رہی ہیں، فلم میکر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فلم بنا تو لے لیکن سنیما ہی نہیں ہیں، اسلام آباد میں کوئی نئے سنیما ہاؤس بنانے کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔
قائمہ کمیٹی نے سینیٹر زرقا سہروردی کا بل آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا۔
بعد ازاں اجلاس میں پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پر مقدمات کا ایجنڈا زیرِ بحث آیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں دی، وزارتِ اطلاعات نے تو وزارتِ داخلہ کو درخواست کی ہے، لیکن وہاں سے بھی کوئی رسپانس نہیں مل رہا، قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سیکریٹری داخلہ کو طلب کر لیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اطلاعات و نشریات سینیٹر افنان قائمہ کمیٹی سوشل میڈیا اجلاس میں نے کہا کہ کمیٹی نے حوالے سے ایکٹ کے
پڑھیں:
پیکا قانون صحافیوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، علی ظفر
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے راہنما کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی وی کے 11 ارب روپے بند ہوئے تو پی ٹی وی بند ہونے کے قریب پہنچ جائے گا، پی ٹی وی کو خسارے کے باوجود بھرتیوں سے اخراجات 400 کروڑ سے بڑھ کر 800 کروڑ ہو گئے، قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی سے ریونیو، اخراجات اور بھرتیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ راہنما پاکستان تحریک انصاف و سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پیکا قانون صحافیوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ وفاقی دارلحکومت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی ظفر کا کہنا تھا کہ آخری اجلاس میں پیکا سے متعلق کیسز کی تفصیلات طلب کی تھیں اور تمام کیسز کی مکمل معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات نے 3 بار وزارت داخلہ کو خط لکھے، لیکن مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں، کمیٹی نے سیکرٹری داخلہ کو ایک ہفتے میں تمام تفصیلات کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت دی ہے۔ سینیٹر کا کہنا تھا کہ پیکا قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، یہ قانون صحافیوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اگر رپورٹ نہ ملی تو وزیر داخلہ کے خلاف مجبوراً کارروائی کرنا پڑے گی۔
علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی وی کو سالانہ 11 ارب روپے لائسنس فیس کی مد میں حاصل ہوتے ہیں، 35 روپے ماہانہ ٹی وی فیس ختم ہونے سے صارفین کو ریلیف کم مگر پی ٹی وی بند ہو جائے گا، ڈسکوز فیس جمع نہیں کریں گے، پی ٹی وی کے پاس لائسنس فیس اکٹھی کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ 11 ارب روپے بند ہوئے تو پی ٹی وی بند ہونے کے قریب پہنچ جائے گا، پی ٹی وی کو خسارے کے باوجود بھرتیوں سے اخراجات 400 کروڑ سے بڑھ کر 800 کروڑ ہو گئے، قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی سے ریونیو، اخراجات اور بھرتیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔