سینیٹ کمیٹی اجلاس میں سٹے بازی، فحاشی، سینسر شپ، اور پی ٹی وی کی مالی حالت پر دھواں دھار بحث
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد (رضوان عباسی سے)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کی صدارت میں اسلام آباد میں منعقد ہوا، جہاں ملکی میڈیا، سٹے بازی، فحاشی، سنسر شپ، اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر نہایت سنجیدہ اور بعض اوقات تلخ جملوں کے تبادلے دیکھنے کو ملے۔اجلاس کے دوران سینیٹر سرمد علی نے واضح کیا کہ سٹے بازی کی موبائل ایپس پر پابندی لگانا پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے، جبکہ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قانون میں غیر اخلاقی مواد کی تعریف طے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ انہوں نے ڈراموں میں منشیات اور سماجی مسائل پر شعور اجاگر کرنے کے لیے بعض مناظر دکھانے کو ناگزیر قرار دیا۔سینیٹر پرویز رشید نے ایک انوکھا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کل تک جینز پہننا معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ معمول بن چکا ہے۔ “فحاشی اور مہذب لباس کی تعریف وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔سینیٹر افنان اللہ نے سٹے بازی ایپس کے اشتہارات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب قانون موجود تھا تو یہ اشتہارات کیوں چلتے رہے؟ جس پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ اب تک 6 ڈرامے اور 32 اشتہارات غیر اخلاقی مواد پر بند کیے جا چکے ہیں اور سٹے بازی ایپس پر پابندی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔اجلاس میں سینیٹر زرقا سہروردی تیمور نے معلومات تک رسائی قانون میں ترمیمی بل پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ کسی درخواست کو مسترد کرنے کی صورت میں وجوہات فراہم کی جائیں، جبکہ ذاتی معلومات صرف متعلقہ فرد کی رضامندی سے دی جا سکیں گی۔اجلاس کا ایک اہم موضوع پی ٹی وی کی مالی صورتحال رہا۔ سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ ڈسکوز اب ٹی وی فیس اکٹھی کرنے سے انکار کر چکے ہیں اور فیس بجلی کے بلوں میں شامل نہیں کی جائے گی۔ سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ جب ہم خود فیس وصول کرنے جاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی وی دیکھتا کون ہے؟ اور ہمیں مارنے تک کی دھمکیاں دیتے ہیں ،پی ٹی وی نے حالیہ اقدامات میں غیر حاضر 84 ملازمین کو فارغ کیا ہے جبکہ 280 ملازمین کی تعلیمی اسناد کی تصدیق نہ ہونے پر ان کی چھانٹی بھی کی جا رہی ہے۔ کمیٹی نے گزشتہ پانچ سال کے دوران بھرتی کیے گئے تمام ملازمین کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔حکام نے انکشاف کیا کہ پی ٹی وی کے قیمتی آرکائیو کو ڈجیٹائز کرنے کے دوران کچھ اہم مواد لیک ہو چکا ہے، جس پر کمیٹی نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔پیکا مقدمات کی تفصیلات پر وزارت داخلہ کا غیراطمینان بخش رویہ ،کمیٹی نے پیکا کے تحت درج مقدمات کی تفصیلات نہ ملنے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو آئندہ اجلاس میں مکمل ڈیٹا کے ہمراہ طلب کر لیا۔ چیئرمین کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر سیکرٹری داخلہ پیش نہ ہوئے تو وزیر داخلہ کو طلب کیا جائے گا
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
سانحہ سوات: بچے دریا میں نہیں ہوٹل میں پھنسنے کی اطلاع ملی، محکمہ آبپاشی حکام کی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ
سانحہ سوات پر سینیٹ قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں محکمہ آبپاشی مالاکنڈ کے حکام نے بریفنگ دے دی ۔
حکام نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ جو پہلی کال ہمیں آئی، اُس میں کہا گیا کہ بچے ہوٹل میں پھنس گئے ہیں۔
محکمہ آبپاشی مالاکنڈ کے حکام نے بتایا کہ ہمیں کال پر یہ نہیں بتایا گیا کہ بچے دریا میں پھنسے ہیں، ٹیم کو اطلاع غلط ملی، جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔
حکام نے مزید بتایا کہ ریسکیو حکام کو 10 منٹ میں اطلاع ہوگئی تھی، ہم نے 15 سال میں 15 لاکھ افراد کو ریسکیو کیا۔
انہوں نے بریفنگ میں یہ بھی بتایا کہ ہمارے پاس تمام آلات موجود ہیں، 15 منٹ کا دورانیہ تھا، جس میں یہ سب ہوا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ 27 جون کو صبح 7 بجے مالاکنڈ سے سوات پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق تھا، خوازہ خیلہ کے مقام پر 2 منٹ کے اندر موسلادھار بارش سے یہ سانحہ ہوا۔
کمشنر سوات نے بتایا کہ واقعہ 9 بج کے 49 منٹ پر ہوا، مجھے 10 بج کر 41 منٹ پر پتا چلا، سیالکوٹ اور مردان کی فیملیز صبح 9 بجکر 37 منٹ پر دریائے سوات پر آئی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کلاؤڈبرسٹ تھا، جس مقام پر فیملیز موجود تھیں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا، وقت بہت کم تھا مگر پھر بھی جتنا ممکن ہو سکا بچاؤ کیا گیا۔
کمشنر سوات نے یہ بھی کہا کہ سوات اور کالام میں ہوٹلز کو احکامات جاری کیے ہیں کہ باؤنڈری تار لگائیں گے۔