عافیہ کے لیے حکومت کا انکار
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حکومت پاکستان عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لیے امریکی عدالت میں دائر کیس میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یعنی یہ وقت بھی آنا تھا کہ عافیہ کے لیے عدالتی کوششوں کے لیے بھی حکومت انکار کرے اور امریکی عدالت میں عدالتی معاونت اور فریق بننے سے پیچھے ہٹ جائے۔ یہ تو ایک طرح سے اپنی قوم کی ایک مظلوم بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھنے سے انکار ہی ہوا۔ پاکستانی عدالت اگر یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ حکومت کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی استدعا کرنے سے کیا نقصان ہے؟ تو یہ سوال تو پوری قوم کا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ حکومت کے امریکا میں عافیہ کیس کا فریق نہ بننے کے فیصلے پر شدید برہم ہے اور اس کے لیے حکومت سے وجوہات طلب کررہی ہے، اگلی بار کیا اٹارنی جنرل وجوہات کے مطابق تفصیل فراہم کریں گے یا آہنی زبان استعمال کرتے ہوئے عدالت کو بہلائیں گے۔ سوچیں کہ وہ وجوہات کی فائل میں کیا لکھ کر لائیں گے؟ یہ کہ امریکی مقدمات اور سزائیں درست ہی ہیں یا عافیہ کا مقدمہ حکومت کو سنگین مشکلات میں ڈال سکتا ہے یا امریکی حکومت نے چونکہ اچھے تعلقات کے لیے یہ شرط لگائی ہے۔ لہٰذا ماننا ضروری ہے کہ عافیہ کی رہائی ملک کو اور اُن کی حکومت کو بحران میں مبتلا کر دے گی۔ لہٰذا وہ جہاں ہیں انہیں زندگی کے باقی دن بھی وہیں گزار لینے چاہئیں۔ ہم اس کیس میں جو کرسکتے تھے وہ کرچکے ہیں۔
یقین جانیں بہت سوچ کر یہ وجوہات لکھی ہیں آپ ہی بتائیں آپ کا دل ان وجوہات کو ماننے پر آمادہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا نام قوم کے بچے بچے کے دل پر لکھا ہے۔ عافیہ کی رہائی کی تحریک حکومت میں رہنے والے ہر جماعت کے رہنمائوں نے چلانے کا اعلان کیا بلکہ عزم سمیم کا اظہار سینہ ٹھونک کر کیا اور عملاً حکومت میں آکر چار قدم پیچھے ہٹ گئے۔ اس میں نواز شریف سے لے کر عمران خان تک سب شامل ہیں اور اب (ن) لیگ کی حکومت کے اثارنی جنرل عدالت کو بتارہے ہیں کہ اب ہم مزید اس کیس کی پیروی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہم جو کرسکتے تھے اس کیس کے لیے وہ ہم کرچکے ہیں۔ عدالت انہیں بتا رہی ہے کہ حکومت کو جو اقدامات کرنے تھے وہ اس عدالت نے کیے ہیں ورنہ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو امریکی ویزا ملنے میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ عدالتی حکم کے باعث ڈاکٹر فوزیہ کو امریکا کا ویزا ملا، عدالتی حکم کی وجہ سے عافیہ صدیقی کی سزا کی معافی کی پٹیشن میں حکومت کی طرح سے طوعاً وکرھاً ہی سہی خط لکھا عدالت کی مداخلت سے ہی ڈاکٹر فوزیہ کی اپنی بہن عافیہ سے ملاقات ممکن ہوسکی۔ عدالت کے حکم پر پاکستانی وفد امریکا گیا۔ ورنہ کیس سے علٰیحدگی کا فیصلہ پہلے ہی عملاً کیا جاچکا تھا۔ یعنی کوئی غیرت ہوتی ہے حمیت ہوتی ہے لیکن وہی کہ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔ ابھی پچھلے ماہ مئی کی اسلام آباد ہائی کورٹ پیشی پر عافیہ صدیقی کے امریکا میں وکیل کلائیو اسمتھ نے بتایا تھا کہ امریکی عدالت میں عافیہ کے ساتھ نہایت ناروا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ پھر بھی یوں قوم کی بیٹی کے لیے ایسی بے حسی اور بے وفائی۔
ذرا عافیہ پر امریکی مظالم تو دیکھیں۔ ڈاکٹر عافیہ نیورو سائنس داں جس کو امریکی حکومت نے 2003ء میں اغوا کیا، غیر قانونی طور پر قید میں رکھا، مسلسل اذیت دی، بچوں کو جدا کردیا، ایک بچہ تو امریکی اذیت پسندی کی نظر ہوگیا۔ پانچ سال بعد افغانستان میں اذیت ناک سلوک کے بعد جب پاکستان کے اخبارات نے شور مچایا تو امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی 2008ء میں افغانستان سے گرفتار کرکے نیویارک پہنچادیا گیا ہے اور اب ان پر دہشت گردی کے حوالے سے مقدمہ چلایا جائے گا۔ حالانکہ وہ پچھلے پانچ سال سے امریکی قید میں تھیں۔ امریکا کے اندر انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا۔ عافیہ پر الزامات ہی ایسے لگائے گئے پھر ان الزامات کا کوئی ثبوت بھی نہیں۔ کچھ لٹریچر کی وصولی، کچھ مشکوک چیزوں کی خریداری اور ساتھ امریکی فوجی کی رائفل اٹھا کر گولی چلانا جبکہ خود عافیہ ہی گولیوں سے شدید زخمی تھیں اور دو دن بیہوش رہیں۔ ان الزامات کے بعد امریکی عدالت نے عافیہ کو بغیر ثبوت کے 86 سال کی قید کی سزا سنادی۔ آج قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو اذیت ناک قید سہتے ہوئے 22 سال گزر گئے۔ پہلے بھی ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کہتی رہی ہیں کہ حکومت نے عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات اور کوششیں نہیں کیں۔ اور اب تو امریکی عدالت میں کیس میں فریق ہی بننے سے ہی انکار کردیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکی عدالت میں عافیہ کی رہائی ڈاکٹر عافیہ ڈاکٹر فوزیہ کی حکومت حکومت کو کے لیے
پڑھیں:
حکومت سے اختلاف پر سزا، مخالفین پر کیچڑ اچھالنے پر شاباش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جولائی 2025ء) حکومت کی جانب سے قائم کردہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے، جو سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے کام کر رہی ہے، اسلام آباد کی ایک ماتحت عدالت سے رجوع کیا اور استدعا کی کہ پاکستان اور بیرون ملک موجود 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم دیا جائے کیونکہ یہ نفرت انگیز اور گمراہ کن مواد پھیلا رہے ہیں۔
عدالتی فیصلے کا کوئی قانونی جواز بھی ہے؟یہ بات سامنے آئی ہے کہ عدالت نے صرف ایجنسی کے تفتیشی افسر کا مؤقف سن کر چینلز کو بلاک کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ تمام متاثرہ چینلز کے مالکان کا کہنا ہے کہ نہ تو انہیں کبھی عدالت میں طلب کیا گیا اور نہ صفائی کا موقع دیا گیا، بلکہ انہیں یوٹیوب کی طرف سے عدالتی حکم کی اطلاع ملی۔
(جاری ہے)
معروف وکیل ربعیہ باجوہ کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ حکم نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ آئین کے بھی خلاف ہے، اور اظہارِ رائے کی آزادی پر ایک براہِ راست حملہ ہے کیونکہ اس میں ملزمان کو اپنا دفاع پیش کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’کورٹ اس طرح یک طرفہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی۔‘‘
بلاک کیے گئے 27 یوٹیوب چینلز میں پی ٹی آئی، روزنامہ قدرت، چارسدہ جرنلسٹ، مطیع اللہ جان، صدیق جان، وجاہت خان، احمد نورانی، اسد علی طور، عمران ریاض، اوریا مقبول جان، صابر شاکر اور معید پیرزادہ کے چینلز شامل ہیں۔
مطیع اللہ جان، صدیق جان اور اسد طور نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کبھی عدالت نے طلب نہیں کیا اور نہ ہی انہیں معلوم تھا کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی ان کے خلاف کسی قسم کی انکوائری کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں صرف یوٹیوب کی جانب سے اطلاع ملی کہ ان کے خلاف ایک عدالتی حکم ہے جس کی بنیاد پر ان کے چینلز بلاک کیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کورٹ ابھی تک انہیں فیصلے کی نقل بھی فراہم نہیں کر رہی جس کی بنیا پر وہ آگے کی قانونی کارروائی شروع کر سکیں۔ اس اقدام کے پیچھے کوئی پس منظر بھی ہے؟یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ کچھ عرصے سے ریاستِ پاکستان پر یہ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ ملک میں اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے، خاص طور پر آئین میں کی گئی چھبیسویں ترمیم کے بعد، جسے ملک بھر میں شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اس ترمیم کے ذریعے عدالتوں کو کمزور اور ریاستی اداروں کے تابع کر دیا گیا ہے۔
بلاک کیے گئے چینلز میں بہت سے ایسے صحافیوں کے ہیں جو عدالت میں چلنے والے کیسز اور عدالتی کردارپر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔حال ہی میں کئی صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے بینک اکاؤنٹس بغیر کسی پیشگی اطلاع یا وجہ بتائے منجمد کر دیے گئے۔ ان میں سے کئی صحافیوں نے عدالتوں سے رجوع کیا اور عدالت کی جانب سے اکاؤنٹس بحال کرنے کے احکامات دیے گئے، لیکن بینک اب تک ان احکامات پر عملدرآمد نہیں کر رہے۔
صحافی اسد طورکا بنک اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عدالت کے حکم پر ان کا ذاتی اکاؤنٹ تو کھول دیا گیا ہے، لیکن ان کے خاندان کے دیگر اکاؤنٹس اور دیگر صحافیوں کے اکاؤنٹ اب بھی عدالتی حکم کے باوجود منجمد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حالیہ حکم نامہ صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش میں تسلسل کی ایک اور مثال ہے۔
حکومت کو کون لوگ پسند ہیں؟پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ریاست ان افراد کو نشانہ بنانا چاہتی ہے جو اس کے بیانیے کے ساتھ نہ چلیں۔ جو لوگ ریاستی موقف کی پیروی کرتے ہیں، وہ نہ صرف گمراہ کن معلومات پھیلاتے ہیں بلکہ حکمران جماعت کے مخالفین، بشمول خواتین، کے خلاف توہین آمیز زبان بھی استعمال کرتے ہیں، اور حکام ان کے ساتھ خصوصی سلوک کرتے ہیں۔
حال ہی میں وزیر داخلہ کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ایک ایسے شخص سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کرتے دکھائی دیے، جس کا نام یہاں لکھا جانا مناسب نہیں سمجھتا، کیونکہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مسلسل حکومتی مخالفین، خصوصاً خواتین، کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی جاتی ہے۔
صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ حکومت اُن آوازوں کو خاموش کرنا چاہتی ہے جو قانونی اور آئینی امور پر سچ رپورٹ کرتی ہیں، مگر اس کے وزرا ایسے افراد سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جو کھلے عام کردار کشی کرتے ہیں اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو قانون کے تحت قابل سزا ہے۔
انہوں نے کہا، ''حکمران اپنے اقدامات کا جواز کیسے پیش کریں گے جبکہ وہ ان عناصر کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں جو کسی سماجی اقدار کے نمائندہ نہیں بلکہ ان کی نفی ہیں۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں جو آج کل ریاست کو سب سے زیادہ پسند ہیں؟‘‘صحافی برادری کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے اس طرح کی مجموعی پابندی نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی پر سیدھا حملہ بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاست کے ایسے اقدامات ہم آہنگی کے بجائے معاشرے میں مزید تقسیم کو فروغ دیتے ہیں، حالانکہ بظاہر ریاست خود اتفاق اور یکجہتی کی دعویدار ہے۔معروف اینکر اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ یوٹیوب چینلز پر حالیہ مجموعی پابندی بالکل غیر منطقی ہے اور اس قسم کے اقدامات مثبت سوچ اور معاشرتی ہم آہنگی کے بجائے معاشرتی تقسیم کو جنم دیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ''جن افراد کے چینلز بند کیے گئے ہیں، میں ان میں سے اکثر کو ذاتی طور پر جانتی ہوں، وہ صرف حقائق رپورٹ کرتے ہیں اور نئی معلومات سامنے لاتے ہیں۔ اگر ریاست کو کسی مواد پر اعتراض ہے تو اُسے ثبوت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے، اس طرح کسی چینلز بند کرنا تو کسی طور درست نہیں۔‘‘