data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: بین الاقوامی سفارتی منظرنامے پر ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بحث نے شدت اختیار کر لی ہے۔

واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان سامنے آیا جس نے نئی دہلی کے سرکاری مؤقف کی بنیاد ہلا دی۔ بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی میں امریکا کا کردار نہ صرف موجود تھا بلکہ اس کی نوعیت اہم اور فیصلہ کن تھی، اس حوالے سے بھارتی حکومت کا مسلسل انکار جھوٹ    کے سوا کچھ نہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زور دیا کہ موجودہ دور میں کسی ایک بیانیے پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات بیانات اپنی حقیقت خود بیان کر دیتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کسی ملک کا سچ چھپانے کی کوشش بیکار ثابت ہوتی ہے جب زمینی حقائق اور سفارتی بیانات ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔

ٹیمی بروس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس معاملے میں کوششوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس حساس نوعیت کے تنازع پر واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا کردار ادا کیا۔

ترجمان کے مطابق ٹرمپ نے صرف بیان بازی نہیں کی بلکہ عملی سطح پر بھی خطے میں تناؤ کم کرنے کے لیے اقدامات کیے، جو قابلِ اعتراف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی اس عمل میں اہم شمولیت اختیار کی اور یہ کہنا کہ امریکا کا کوئی کردار نہیں تھا، حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارتی حکام بار بار میڈیا پر دعویٰ کر رہے تھے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان ہونے والی جنگ بندی صرف دو طرفہ بات چیت کا نتیجہ تھی اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں ہوئی۔

اس بھارتی مؤقف کو امریکا نے نہ صرف مسترد کیا بلکہ اسے جھوٹا اور گمراہ کن بھی قرار دیا۔ ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن اس مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے بھی متعدد مواقع پر اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرانے میں ان کا فعال کردار رہا ہے۔ ان کے اسی مؤقف کی بنیاد پر انہیں نوبیل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم بھارتی حکومت اس دعوے کو ہمیشہ مسترد کرتی رہی ہے، جسے اب امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے براہ راست چیلنج کر دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کار اس پیش رفت کو خطے میں طاقت کے توازن کے حوالے سے نہایت اہم قرار دے رہے ہیں۔ اگر امریکا اس معاملے میں واقعی کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے، تو اس کا اثر نہ صرف پاک بھارت تعلقات پر پڑے گا بلکہ عالمی سفارتی توازن میں بھی تبدیلی آئے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

امریکی پابندیوں کے بعد بھارتی ریفائنریز کا روسی تیل کی درآمدات میں کمی کا فیصلہ

بھارت کی بڑی آئل ریفائنریز نے روسی خام تیل کی خریداری میں نمایاں کمی کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ اقدام امریکا کی جانب سے ماسکو کی نمایاں توانائی کمپنیوں پر عائد نئی پابندیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صنعتی ذرائع کے حوالے سے اطلاع ہے کہ بھارت کی جانب سے روسی خام تیل کی خریداری میں بڑی کٹوتی کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

India is expected to massively cut Russian oil imports after the US sanctioned Russian oil giants Rosneft and Lukoil.
India purchased €2.5 billion in Russian crude oil last month. pic.twitter.com/GuqSDcu7hn

— Igor Sushko (@igorsushko) October 23, 2025

بھارت اُس وقت سے روس کا سب سے بڑا خریدار ہے جب مغربی پابندیوں نے عالمی سپلائی چین کو متاثر کیا تھا۔

اب بھارتی کمپنیاں سپلائی اور ادائیگی کے نظام میں ممکنہ خلل سے بچنے کے لیے احتیاطی اقدامات کر رہی ہیں۔

بھارت کی سب سے بڑی پرائیویٹ آئل کمپنی ریلائنس انڈسٹریز نے مبینہ طور پر روس سے تیل کی درآمدات میں کمی کرنے یا وقتی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:

کمپنی کے ترجمان نے کے مطابق، روسی تیل کی درآمدات میں رد و بدل کا عمل جاری ہے اور ریلائنس حکومتِ ہند کی پالیسیوں کے مطابق مکمل ہم آہنگی میں رہے گی۔

کم از کم 4 سرکاری آئل ریفائنریز بھی شپنگ اور تجارتی دستاویزات کا جائزہ لے رہی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی کارگو براہِ راست روسنیفٹ یا لوک آئل سے نہ آئے، کیونکہ یہ دونوں کمپنیاں اب نئی امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

ریلائنس کے روسنیفٹ کے ساتھ تقریباً 5 لاکھ بیرل یومیہ تیل کی طویل مدتی فراہمی کے معاہدے موجود ہیں۔

مزید پڑھیں:

امریکی محکمہ خزانہ نے بدھ کے روز عالمی خریداروں کو 21 نومبر تک روسنیفٹ اور لوک آئل کے ساتھ معاملات ختم کرنے کی مہلت دی ہے۔

2022 میں مغربی پابندیوں کے بعد روس کے رعایتی نرخوں پر دستیاب تیل بھارت کی توانائی پالیسی کی بنیاد بن گیا تھا اور 2025 کے ابتدائی 9  ماہ میں بھارت کی روزانہ درآمدات اوسطاً 17 لاکھ بیرل تک پہنچ چکی تھیں۔

تاہم روسی تیل پر یہ انحصار امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات میں ایک اہم تنازع بن چکا ہے، کیونکہ واشنگٹن بھارت کی روس سے جاری تیل خریداری کو نئی درآمدی ڈیوٹیوں سے جوڑ رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئل ریفائنریز آئل کمپنی امریکی پابندیوں بھارت تجارتی دستاویزات خام تیل روس ریلائنس انڈسٹریز شپنگ عالمی سپلائی چین کارگو محکمہ خزانہ واشنگٹن

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کے باوجود غزہ کے زخم ہنوز تازہ
  • غزہ جنگ بندی کے بعد(1)
  • پاکستان میں اسموگ کے زراعت پر اثرات  اور ممکنہ حل
  • پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟
  • امریکی وفد کی ایک ہفتے میں تیسری بار اسرائیل آمد، نیتن یاہو کو قابو میں رکھنے کی کوشش
  • بلٹ پروف گاڑیاں ہمیں دی جائیں، کے پی حکومت کے انکار پر سندھ کا وفاق کو خط
  • امریکی پابندیوں کے بعد بھارتی ریفائنریز کا روسی تیل کی درآمدات میں کمی کا فیصلہ
  • لاہور میں تصوف کا نیا مرکز،روحانیت، سکون اور علم کا حسین امتزاج
  • 40 ہزار سکوں سے خریدی گئی اسکوٹی، باپ نے بیٹی کے خواب کو حقیقت بنا دیا
  • عدالتی بینچ خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے، جج سپریم کورٹ