نئی بھارتی ای ویسٹ ری سائیکلنگ پالیسی، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی عدالت میں دوہائی
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
بھارت کے نئے الیکٹرانک ویسٹ (ای ویسٹ) منیجمنٹ قوانین کے خلاف متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھارتی حکومت کے خلاف عدالت میں مقدمات دائر کر دیے ہیں۔ ان کمپنیوں میں جنوبی کوریا کی LG، سام سنگ اور امریکی کمپنی کیریئر بھی شامل ہیں۔
ان کمپنیوں نے الزام لگایا ہے کہ نئی ای ویسٹ ری سائیکلنگ پالیسی کے تحت ری سائیکلرز کو ادا کی جانے والی فیسوں میں اضافے نے ان کے اخراجات میں 3 گنا اضافہ کر دیا ہے۔
مقدمے میں مزید کیا کہا گیا ہے؟نئے قواعد کے تحت، کمپنیوں کو صارفین کی الیکٹرانکس کی ری سائیکلنگ کے لیے کم از کم 22 بھارتی روپے ($0.
یہ بھی پڑھیے ای ویسٹ اپنی ری سائیکلنگ کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف
امریکی کمپنی کیریئر نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ یہ نئے قواعد غیر منصفانہ ہیں۔ کمپنی نے کہا کہ ری سائیکلرز کو پچھلے نرخوں پر کام کرنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا، اور حکومت کو کمپنیوں اور ری سائیکلرز کے درمیان نجی معاہدات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ کیریئر نے اپنے دعویٰ میں کہا کہ ری سائیکلرز کو دی جانے والی فائدے کی قیمت کمپنیوں پر ڈالنا غیر منصفانہ اور خودسر ہے۔
دیگر کمپنیوں کی تشویشدیگر معروف برانڈز جیسے جاپان کی ڈائکن اور بھارت کی والٹس (جو ٹاٹا گروپ کی ملکیت ہے) بھی ان نئے قواعد سے متعلق تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔
اس سے قبل ہٹاچی (جاپان) اور ہیولز (بھارت) جیسی کمپنیوں نے نومبر 2023 سے مارچ 2024 کے دوران بھارتی حکومت کے خلاف ان قیمتوں کے قواعد کو چیلنج کرنے کے لیے مقدمات دائر کیے تھے۔
بھارتی حکومت کا موقف کیا ہے؟بھارتی ماحولیاتی وزارت نے دہلی ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران کہا کہ کمپنیوں نے ابھی تک حکومت کے فیصلے میں کسی قسم کی ناانصافی ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ وزارت نے مزید کہا کہ کمپنیاں 2021 سے اس مسئلے پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت میں شامل رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے دنیا میں ہر سال 50 کروڑ چھوٹی برقی اشیاء استعمال کے بعد کیوں ضائع کر دی جاتی ہیں؟
دہلی ہائیکورٹ نے ان مقدمات کی سماعت کو 1 اگست تک ملتوی کر دیا ہے۔
بھارت میں ای ویسٹ کی بڑھتی ہوئی مقدارنئے قوانین کا مقصد بھارت میں ای ویسٹ کے بڑھتے ہوئے حجم کو قابو پانا ہے۔ ہندوستان میں ای ویسٹ کی مقدار 2017-18 میں 708,445 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 2023-24 میں 1.7 ملین میٹرک ٹن ہو گئی ہے، جس میں ہر سال 169,283 میٹرک ٹن کا اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نئے ای ویسٹ قوانین ماحولیاتی تحفظ کے لیے ضروری ہیں، تاہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان اضافی اخراجات سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس مقدمے کا فیصلہ بھارت کی ای ویسٹ مینجمنٹ پالیسی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھارت میں کارروائیوں کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ای ویسٹ ری سائیکلنگ بھارتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ای ویسٹ ری سائیکلنگ بھارت ملٹی نیشنل کمپنیوں بھارتی حکومت ری سائیکلنگ ری سائیکلرز کمپنیوں نے کے لیے
پڑھیں:
بھارتی تاریخ کا سب سے وزنی ترین مواصلاتی سیٹلائٹ خلا کیلئے روانہ
بھارت (ویب ڈیسک) اب تک کے سب سے وزنی مواصلاتی سیٹلائٹ کو خلا میں روانہ کر دیا ہے، جو ملک کے خلائی پروگرام میں ایک اور اہم سنگِ میل ہے۔خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سی ایم ایس-03 نامی سیٹلائٹ نے ریاست آندھرا پردیش کے جنوبی علاقے سری ہری کوٹا سے مقامی وقت کے مطابق شام 5 بج کر 26 منٹ پر اڑان بھری۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اس حوالے سے کہا کہ ہمارا خلائی شعبہ ہمیں فخر دلاتا رہے گا، ہمارا ہدف سال 2040 تک ایک بھارتی خلا باز کو چاند پر بھیجنا ہے۔بھارتی خلائی تحقیقاتی تنظیم (اسرو) کے مطابق یہ ملک کا سب سے وزنی مواصلاتی سیٹلائٹ ہے جس کا وزن تقریبا 4 ہزار 410 کلوگرام ہے۔بھارتی بحریہ کے مطابق یہ سیٹلائٹ جہازوں، طیاروں اور آبدوزوں کے درمیان محفوظ مواصلاتی رابطے کو یقینی بنائے گا۔سی ایم ایس-03 کو 43.5 میٹر بلند ایل وی ایم 3-ایم 5 راکٹ کے ذریعے مدار میں بھیجا گیا، جو اس راکٹ کا جدید ورژن اور اسی کے زریعے اگست 2023 میں بھارت کے بغیر خلا باز کے خلائی مشن کو چاند پر اتارا تھا۔
اب تک صرف روس، امریکا اور چین ہی چاند کی سطح پر کنٹرولڈ لینڈنگ حاصل کرچکے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں بھارت نے اپنے خلائی عزائم کو نمایاں طور پر وسعت دی اور اس کا خلائی پروگرام تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔رواں برس بھارتی فضائیہ کے ٹیسٹ پائلٹ شبھانشو شکلا خلا کا سفر کرنے والے دوسرے بھارتی اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) تک پہنچنے والے پہلے بھارتی بنے، اس اقدام کو بھارت کے 2027 تک اپنے انسانی خلائی مشن کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سیٹلائٹ