Express News:
2025-07-10@17:57:48 GMT

کاروباری دنیا میں مفت کچھ نہیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

کہتے ہیں کہ کاروباری دنیا میں مفت کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی اس کی قیمت ضرور ادا کرتا ہے، چاہے اس کےلیے ادائیں اور کچھ اور بھی کیوں نہ دکھانا پڑے۔ میرے نزدیک تو کاروباری دنیا کا مفت ظہرانہ ہو یا عشائیہ، کاروباری نہیں بلکہ کاروکاری ہے اور یہ وقت بتاتا ہے کہ کون کارو ہے اور کون کاری ہے۔

کاروباری دنیا میں مفت ظہرانہ یا عشائیہ کیوں نہیں ہوتا؟ اور اس بات کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ کاروباری دنیا مفادات کی دنیا ہے اور جس کا مطمع نظر صرف اور صرف منافع ہوتا ہے۔ عام طور پر ایک فریق کا نقصان ہی دوسرے فریق کا فائدہ یا منافع ہوتا ہے۔ اس کی بالکل سامنے کی مثال اسٹاک ایکسچینج ہے کیونکہ وہاں یہی ہوتا ہے کہ جس کو جوا تو کہا جاسکتا ہے مگر کاروبار قطعی نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اب بھی اس کو کاروبار سمجھا اور بولا جاتا ہے۔

آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں کہ دنیا کے تمام بڑے جوئے خانوں میں جواری حضرات کےلیے کھانے اور پینے کے لوازمات بظاہر بالکل مفت ہوتے ہیں۔ ان کی قیمت جوئے کی رقم میں نظر تو نہیں آتی مگر شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوئے خانے کے مالکان یہ نہیں چاہتے کہ ان کے یہاں کھیلنے والے کھانے کےلیے بھی باہر جائیں، کیونکہ اگر ایک دفعہ وہ باہر چلے گئے تو پھر ہوسکتا ہے کہ وہ پلٹ کر واپس اسی جوئے خانے میں نہ آئیں اور کہیں اور چلے جائیں۔

اب ہم ہمارے دوسرے سوال کی جانب آتے ہیں کہ کاروباری دنیا میں کوئی چیز ایسی کیوں نہیں ہوتی کہ جس کو مفت قرار دیا جاسکے؟ اور اس کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا ہے؟

اس بات کے آغاز کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر عام خیال یہ ہے کہ اس کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا ہے کہ جب کچھ بار (شراب خانے) والوں نے اپنے صارفین کو ایک بیئر کی بوتل کے ساتھ مفت کھانے کی ترغیب دینی شروع کی تھی۔ مفت کھانے کے لالچ میں لوگ بیئر کا آرڈر دیتے تھے۔ کھانے میں نمک کا تناسب عام سے تھوڑا زیادہ ہوتا تھا، نتیجتاً گاہک کو زیادہ پیاس لگتی تھی اور یوں صارف بیئر کی مزید بوتلوں کا آرڈر دیتا تھا کہ جس سے کھانے کی قیمت وصول ہوجاتی تھی اور یوں اس کہاوت کا آغاز ہوا۔

اب تو آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ مفت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور یہی بات ول اسمتھ فلم ’کنگ رچرڈ‘ میں اپنی دونوں بیٹیوں وینس ولیم اور سرینا ولیم کو بتاتا ہے، جب وہ ایک کلب میں گئے ہوتے ہیں اور بچیوں نے مفت سمجھ کر برگر آرڈر کیے تھے۔ اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیے یہ ایک بہت شاندار فلم ہے۔

اس مفت کھانے کی پوری کہانی میں مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ جو کھانا کھا رہا ہوتا ہے صرف اسی کو قیمت نظر نہیں آرہی ہوتی، ورنہ باقی سب کو تو اس کھانے کی قیمت بڑی بڑی لکھی نظر آرہی ہوتی ہے۔ آپ بس اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔

اس کائنات اور دنیا کا کاروبار ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر چلتا ہے اور یہی برابری کا اصول ہے۔ اگر آپ کچھ خدمات دیے بغیر صرف وصول کرنے پر یقین رکھتے ہیں تو اسے بھیک، صدقہ، خیرات یا امداد ہی کہہ سکتے اور اس کی بھی قیمت ہوتی ہے کہ جو غیرت، وقار، عزت نفس، قدر و منزلت، حشمت، حرمت، آبرو اور خودداری کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے اور من حیث القوم ہم سے زیادہ اس کا ادراک اور کس کو ہوگا؟

آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ ایک صاحب کہ جن کا نام ڈونلڈ ڈک تھا ان کے پاس یکایک بہت بہت زیادہ پیسہ آگیا اور انھوں نے اپنی امارت کا اظہار کرنے کےلیے اپنے دوستوں عربی، عجمی، یورپی، پوربی، چینی غرضیکہ اپنے تمام حامیوں کی ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ دعوت کے اختتام پر انھوں نے اپنے تمام مہمانوں کو اپنے محل نما گھر جو کہ پورا سفید ماربل کا بنا ہوا تھا اس کا دورہ کرایا۔ ایک بڑے کمرے میں ایک بہت ہی بارعب شخص کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ تمام مہمانوں نے استفسار کیا کہ یہ صاحب کون ہے؟ اس پر ڈونلڈ ڈک نے کہا کہ یہ میرے جد امجد ہے اور ان سے ہمارا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے جد امجد کی بہادری اور سخاوت کی مبالغہ آرائی بلکہ دروغ گوئی کی حد تک کی کہانیاں سنانی شروع کردی۔ اب ان سب مہمانوں نے ان کا (مفت) ظہرانہ کھایا تھا اس لیے چپ کرکے سنتے رہے مگر ایک مہمان سے برداشت نہ ہوا اور اس نے کہا کہ تھوڑے سے پیسوں کی وجہ سے میرا سودا ٹوٹ گیا تھا ورنہ آج یہ میرے جد امجد ہوتے۔

اگر اس کہانی کا کوئی تعلق آپ کو بین الاقوامی سیاست سے لگتا ہے تو یہ آپ کے اپنے ذہن کا فتور ہے اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ ہاں اس میں سمجھنے والوں کےلیے نشانیاں ہیں، اگر وہ سمجھنا چاہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کاروباری دنیا میں کھانے کی ہوتا ہے ہوتی ہے کی قیمت کا آغاز اور اس ہے اور

پڑھیں:

پاکستان، ایران اور ترکیہ مل جائیں تو دنیا کی کوئی قوت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، ایرانی سفیر

پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نےکہا ہے کہ صہیونی حکومت نے 12 روز تک ایران پر جارحیت کی ، 12روزہ جنگ میں پاکستان کی حکومت،عوام ایران کو سفارتی سطح پر سپورٹ کر رہےتھے، پاکستانی وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے شدید الفاظ میں جارحیت کی مذمت کی ، پاکستانی مندوب جو ہمیں اسٹینڈ چاہیے ہوتا تھا لیتے تھے، پاکستان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی نے ہمارے حق میں قرار داد پیش کی ، ہم اس سپورٹ پر پاکستان کے مشکور ہیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگوکرتےہوئے ایرانی سفیر کا کہناتھا کہ شاید کوئی حادثہ بھی موثر نہ ہوتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتنے نزدیک آتے، دونوں ممالک کے عوام اور حکومتیں نزدیک آئی ہیں، ہماری پارلیمنٹ نے پاکستان تشکر کا نعرہ لگا کراور صدر ایران نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا، شہدا کے جنازے میں ایرانی پرچم کے ساتھ ساتھ عوام کے ہاتھوں میں پاکستان کے جھنڈے تھے، پاکستان اور ایران ایک روح اور دوبدن ہیں، پاکستانی حکومت،عوام،دینی حلقے اور میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔
ان کا کہناتھا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ایران ،سعودیہ،ترکیہ اور پاکستان کو کن چینلنجز کا سامنا ہے، صہیونیوں کو امریکا اور یورپ سپورٹ کر رہے ہیں، وہ صہیونیوں کو اس علاقے کا چوہدری بنانا چاہتے ہیں، ایران ،پاکستان،سعودیہ،ترکیہ، مل کر اتحاد بنا سکتے ہیں، اس وقت ان تمام ممالک کے تعلقات اچھے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اس کاز کو آگے لے جانا ہو گا، پاکستان،ایران اورترکیہ مل جائیں تو دنیا کی کوئی قوت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار اور ایران کےپاس تیل کے ذخائر ہیں، ترکی صنعت اور جغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے اہم ہے،یورپ کا دروازہ ہے، سعودیہ بھی اہم ہے،اگراس اتحاد میں چین آجاتا ہے تو بہت اچھا ہے، یہ ممالک خطرات اور اپنے مفادات کو بھی دیکھیں ۔
رضا امیری مقدم کا کہناتھا کہ ان ممالک میں کوئی اختلافات نہیں ہیں،بہت اچھا اتحاد بن سکتاہے، ٹرمپ کی ماضی کی تاریخ اچھی نہیں تھی، انہوں نے ہمارے کمانڈر سلیمانی کو شہید کیا تھا، ہم علاقائی سطح پر کشیدگی نہیں چاہتے تھے، ہم نے ان کی مذاکرات کی آفر کو تسلیم کیا،5ادوار ہو گئے تھے، ان ادوار میں اچھے معاہدے پر پہنچ گئے تھے ہم نتائج کے قریب تھے، چھٹے دور سے قبل امریکا کے اشارے پر اسرائیل نے شب خون مارا، ہمارے ملٹری قیادت،سائنسدانوں ،شہریوں کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے میزائلوں نے جواب دیا تواسرائیل کی سڑکیں غزہ کا نقشہ پیش کر رہی تھیں، امریکا نے حملہ کیا تو ہم نے ان کی سب سے بڑی بیس کو ہٹ کیا، اگلی رات ٹرمپ نے امیر قطر کے ذریعہ سیزفائر کی درخواست کی ، ہم نے کہاآپ کی جارحیت ختم ہو گی ہم پھر رکیں گے ، میں اس وقت ایران میں نہیں تھا نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں رائے نہیں دے سکتا، جس طرح تباہی ہوئی ہے تو ماہرین بھی مکمل رائے نہیں دے سکیں گے، حملوں سے جوہری پروگرام کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ ہم 15سال سے اس طرح کی ایکسر سائز کر رہے تھے، ان کا خیال تھا کمانڈر کو شہید کرنے کے بعد ایران گر جائے گا، اگلے دن نئے کمانڈر تعینات ہوئے،انہوں نے شدید جواب دیا، ایٹمی ٹیکنالوجی تنصیبات تک محدود نہیں، سائنسدان اور بہت سارے ہمارے طلبہ کے ذہنوں میں ہے، اس ٹیکنالوجی کو ختم نہیں کر سکتے، ہو سکتا کہ وہ ہمارے سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایران کے سفیر کا کہناتھا کہ پاکستان کے ساتھ ہماراتعاون جاری ہے، جومسائل ہیں وہ بارڈر کے ساتھ ہیں، وہ علاقہ پہاڑی اور دشوار گزار ہے، پاکستان اور ایران کے مفادات ماضی کی نسبت اب بہت زیادہ ایک جیسے ہیں، دہشتگرد گروپس کو اسلحہ ،سہولیات دونوں ممالک کے دشمن فراہم کر رہےہیں، دونوں ممالک کی سیکیورٹی تعاون جاری ہے اور رہے گا۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • کوانٹم اور کوانٹم ٹیکنالوجی کا آسان تعارف
  • صارفیت، آدھی روٹی اور دل ونگاہ کی مسلمانی
  • پاکستان، ایران اور ترکیہ مل جائیں تو دنیا کی کوئی قوت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، ایرانی سفیر
  • ’حمیرا کی موت اس جھوٹی دنیا کا چہرہ ہے جہاں’فالوورز‘ ہوتے ہیں دوست نہیں‘
  • حماس ختم شُد۔۔۔۔ تو پھر مذاکرات کس سے؟
  • ملکہ الزبتھ کی شادی کے کیک کا نایاب ٹکڑا فروخت، خریدار نے کھانے کا منصوبہ بنا لیا
  • ایک فاشسٹ خواب کا جنازہ
  • دنیا میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان اسباب کیا ہیں؟
  • کچی پیاز کھانے کے حیران کُن فوائد