اسلام ٹائمز: ایران اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی نوعیت کا سوال ایک ایسا سوال ہے جسے بین الاقوامی تعلقات کے قوانین و ضوابط کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہیئے۔ آخر پاکستان کے بھی اس ملک سے تعلقات ہیں جسے ایران آج کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت اور اس مملکت کے سربراہ کو شیطان بزرگ کہتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کی پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بین الاقوامی تعلقات میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ دونوں ممالک کی عوام کے باہمی رشتے کی گہرائی خلیج فارس اور بحیرہء عرب کی گہرائی سے زیادہ ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
بین الاقوامی تعلقات سے مراد بین الاقوامی قوانین کے تحت قوموں، ملکوں اور انفرادی سطح پر باہمی تعلقات ہیں۔ اس حوالے سے دنیا کی اقوام ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ قوموں کے مابین مختلف قسم کے تنازعات کی بھی ایک تاریخ ہے۔ یہ تنازعات بعض اوقات جنگوں کی صورت میں بھی نمودار ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عام طور پر قوموں اور ملکوں کے باہمی تعلقات مختلف دائروں میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ و جدل کی ایک تاریخ ہے۔ انڈیا نے پاکستان کے جنم لینے کے بعد ہی اس نوزائدہ مملکت کی شہ رگ، کشمیر کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
اس کے بعد ہندوستان نے پاکستان کی عین جوانی میں اس کے بدن کے ایک حصے کو اس کے تن سے جدا کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بین الاقوامی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ہمارے ہندوستان سے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ انڈیا سے ہمارے تعلقات میں اتار چڑھاؤ باقی رہتا ہے۔ کبھی ہم اس سے دوستی کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی اس سے دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ لیکن اس مدوجزر کے باوجود ہمارے آپسی تعلقات مکمل ختم نہیں ہوتے۔ ہمارے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی ہیں جو حالات کے مطابق کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔
سر مطلب یہ کہ کسی ملک کے کسی ملک سے ایک خاص پیمانے تک باہمی تعلقات سے مراد یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ ان ملکوں کے مابین جو اصولی اور نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں ان پر لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں کاٹ کھانے والے اختلافات اپنا وجود باقی رکھتے ہیں لیکن امن عالم قائم رکھنے کے لیے انہیں رسی سے باندھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ ایران بھی ہمارا ایک ایسا برادر، ہمسایہ اور اسلامی ملک ہے جو بین الاقوامی برادری کا ایک حصہ ہے۔ اس کے بھی دنیا میں دوست دشمن موجود ہیں۔ کئی ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ اس کے اصولی اختلاف اپنے مقام پر موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بھارت بھی ہے۔
ایران جہاں ایک جانب بھارت سے ایک حد تک اپنے تجارتی تعلقات استوار کیے ہوئے ہے، وہاں دوسری جانب وہ کشمیریوں کے حوالے سے اپنا ایک اصولی موقف رکھتا ہے، ان کے حقوق کی کھل کر بات کرتا ہے اور ان پر ہونے والے مظالم کی مذمت کرتا ہے۔ ایران کے نہ صرف بھارت سے تعلقات ہیں بلکہ بھارت سے بڑھ کر اس کے ایسے ممالک سے بھی اچھے تعلقات ہیں جن کے ساتھ وہ بھارت سے زیادہ اپنے تحفظات رکھتا ہے۔ مثلاً ایران کا ایک اور ہمسایہ ملک ترکی بھی ہے۔ بین الاقوامی مفادات کے تناظر میں ترکی نے بعض حوالوں سے ایران کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مثلاً ترکی ہی وہ ملک ہے جس نے شام میں ایران کی ایک حامی حکومت کے خاتمے اور اس کی جگہ جولانی حکومت کو برسراقتدار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس کے علاوہ وہ ترکی ہی ہے جس نے اس سے قبل بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے دنیا بھر کے تکفیریوں کو مجتمع کر کے اور انہیں تربیت دے کر انہیں اپنی سرحد سے شام میں داخل کیا۔ ترکی کے اسرائیل سے بھی سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے بھی ایران کے اس ملک سے ایسے سفارتی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں جو کئی میدانوں میں ہندوستان سے بھی زیادہ گہرے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے حوالے سے ترکی کئی فورموں پر ایران کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔
اسی طرح ایران کے ہمسایے میں ایک اور مسلم ملک آذربائیجان ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور دفاعی نوعیت کے تعلقات ہیں اور ایران کے مقابلے میں اسرائیل کی طرف اس کا جھکاؤ زیادہ ہے نیز اس پر ایران کے دفاع کو کمزور کرنے کے حوالے سے کئی طرح کے الزامات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ایران کئی سطحوں پر انڈیا کے مقابلے میں آذربائیجان سے زیادہ قریب ہے۔ لہذا ان تمام حقائق کو دیکھ کر ایران پر اس اعتراض کی یہ گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس کے انڈیا سے تعلقات کیوں ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ حالیہ پاکستان ہندوستان محدود جنگ میں ایران اور ہندوستان کے مابین تعلقات میں کافی سرد مہری آ چکی ہے اور ایران اور پاکستان ایک دوسرے سے زیادہ قریب آئے ہیں۔
ایران اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی نوعیت کا سوال ایک ایسا سوال ہے جسے بین الاقوامی تعلقات کے قوانین و ضوابط کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہیئے۔ آخر پاکستان کے بھی اس ملک سے تعلقات ہیں جسے ایران آج کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت اور اس مملکت کے سربراہ کو شیطان بزرگ کہتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کی پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بین الاقوامی تعلقات میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ دونوں ممالک کی عوام کے باہمی رشتے کی گہرائی خلیج فارس اور بحیرہء عرب کی گہرائی سے زیادہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی تعلقات باہمی تعلقات تعلقات میں تعلقات ہیں پاکستان کے کے باوجود ایران اور رکھتے ہیں اور ایران سے تعلقات کی گہرائی ایران کے بھارت سے کے مابین کے باہمی حوالے سے سے زیادہ کے ساتھ لیکن اس اور اس ملک سے
پڑھیں:
مودی حکومت غربت و عدم مساوات چھپانے کی کوشش کررہی ہے، کانگریس
جے رام رمیش نے کہا کہ حکومت اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ دنیا کے سب سے زیادہ مساوات پر مبنی معاشروں میں سے ایک ہے، یہ دعویٰ زمینی سچائی سے بالکل برعکس ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس نے 6 جولائی کو عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور پارٹی کے سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے مودی حکومت پر عالمی بینک کی "ہندوستان کے لئے غربت اور عدم مساوات" رپورٹ پر جم کر حملہ بولا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ حکومت اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ دنیا کے سب سے زیادہ مساوات پر مبنی معاشروں میں سے ایک ہے، یہ دعویٰ نہ صرف چونکانے والا ہے، بلکہ زمینی سچائی سے بالکل برعکس ہے۔
کانگریس لیڈر نے اپنے بیان کا ایک پیراگراف شیئر کیا کہ عالمی بینک نے اپریل 2025ء میں ہندوستان کے لئے اپنی "پاورٹی اینڈ ایکویٹی بریف" جاری کی تھی لیکن اس کے 3 ماہ بعد مودی حکومت کی تعریف کرنے والوں نے عالمی بینک کے اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ مساوات پر عمل پیرا ہونے والے معاشروں میں سے ایک ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ 27 اپریل کو جاری ایک بیان میں ہم نے اس رپورٹ میں عالمی بینک کے ذریعہ اٹھائے گئے کچھ اہم خدشات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ خدشات اب بھی متعلقہ ہیں اور رپورٹ پر کسی بھی سنجیدہ بحث کے لئے ان پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ جے رام رامیش نے کہا کہ ہندوستان میں تنخواہوں کی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2023ء 2024ء میں اوپر کے 10 فیصد لوگوں کی اوسط کمائی نیچے کے 10 فیصد لوگوں کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ حکومتی اعداد و شمار میں خامیاں غربت اور عدم مساوات کی حقیقی صورتحال کو چھپا سکتی ہے، جو غربت کے نئے معیارات کے استعمال کرنے پر مزید بدتر ہو سکتی ہے، ہندوستان میں ابھی غربت کی شرح 28.1 فیصد ہے۔