Jasarat News:
2025-11-03@16:16:18 GMT

امریکا پاکستان اور بھارت تعلقات کی تشکیل جدید

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بھارت اور امریکا کے تعلقات میں ایک جہاں ایک بحرانی سی کیفیت دکھائی دی رہی ہے وہیں دونوں ملکوں کے درمیان اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ہمہ جہتی مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ امریکا تعلقات کی ایک نئی کہانی رقم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ دونوں ملکوں کو ان کے دو روایتی دوستوں چین اور روس سے تھوڑا دور کرتے ہوئے اپنے قریب لانے کی کوشش زوروں پر ہے۔ بھارت تمام تر دباؤ کے باوجود روس کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو امریکی پسند کی سطح پر لانے سے انکاری ہے اسی طرح پاکستان کو اپنے روایتی دوست چین سے فاصلہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ہر طرح کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ایسے میں بظاہر امریکا کا جھکاؤ بھارت کے بجائے پاکستان کی طرف ہوتا محسوس ہورہا ہے جو محض فریب ِ نظر نہ سہی مگر ایک عارضی سی بات ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ زیادہ بہتر سمجھوتا نہیں بھی ہوتا تو بھی امریکا چین کے مقابل اور متبادل کی آس پر بھارت کو خصوصی سلوک اور رعایت کا مستحق سمجھتا رہے گا۔ پاکستان کی اہمیت فقط جنگوں کی وجہ سے ہے۔ افغانستان کی جنگ، ایران کی جنگ، چین کی جنگ بس جنگوں کے جتنے خاکے امریکیوں کے ذہنوں اور کاغذوں میں ہیں پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہی ہے۔ ماضی میں پاکستان نے بھرپور کوشش کی امریکا اسے ان علاقائی ملکوں کے بجائے پاکستان کی عینک سے دیکھے اور اس کے ساتھ تجارتی معاہدات کرے مگر امریکا نے پاکستان کی اس خواہش کو اہمیت نہیں دی۔ امریکی منصوبہ سازوں کو اندازہ تھا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو سہولتوں، مراعات، سیر وتفریح، بچوں کی رہائش، کاروبار اور تعلیم کی ضرورت کے لیے امریکا کی مستقل ضرورت رہے گی اور چین کے ساتھ ایسی کشش اور تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد اسلام آباد میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے اپنے ایک مضمون میں اسی اعتماد کا اظہار کیا تھا یہ وہ زمانہ جب امریکا اور پاکستان کے درمیان دنیا کے کئی ملکوں میں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ متذکرہ بالا مجبوریوں کے باعث پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے پاس امریکا کے ساتھ تعلق رکھنے کے سوا کوئی آپشن ہی موجود نہیں۔ انہی دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ نجی محفلوں میں چین کی مخالفت اور امریکا کی حمایت کرتے نظر آتے تھے۔ پاکستان کو چونکہ امریکا تزویراتی زاویے سے دیکھتا ہے اس لیے وہ پہلے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے اور بعدازاں پاک فضائیہ کے سربراہ سے مذاکرات کر چکا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات ہمہ جہتی ہیں تو وہ ان سے کئی سطحوں پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک وفد دفاعی امور پر بات چیت کو آگے بڑھا رہا ہے تو دوسرا تجارتی معاملات اور ٹیرف کی جنگ کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کی سرپرستی میں قائم شنگھائی کانفرنس سے اعلامیہ پر دست خط نہ کرکے دل برداشتہ ہو کر نکلنے والے بھارت کو مغرب سے اس وقت دست مسیحائی میسر آیا جب امریکا کی سرپرستی میں قائم تنظیم کواڈ کے مشترکہ اعلامیے میں وہ تمام خواہشات اور محاورے سمو دیے گئے جو شنگھائی کانفرنس میں اپنائے اور ٹھونسے نہ جا سکے تھے۔ شنگھائی کے دل برداشتہ بھارت کو کواڈ میں پہل گام اور سرحد پار دہشت گردی کا بھرپور ذکر کرے خوش کر دیا گیا۔ کواڈ وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ پہل گام کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ کواڈ کے اس اجلاس میں امریکا کے سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر آسڑیلیا کی وزیر خارجہ پینی وانگ اور جاپانی وزیر خارجہ تا کیشی کیوابا نے شرکت کی تھی۔ جس کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پہلے ہی مضبوط ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت ایک مقام پر جا کر امریکا کے مطالبات کے آگے سرینڈر بھی کر سکتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے بھی یہ اشارے دیے ہیں کہ امریکا بھارت کے ساتھ کئی زیر التوا دفاعی سودے مکمل کر سکتا ہے جس میں مشترکہ دفاعی صنعت اور دفاعی پیداوار اور دونوں افواج کے درمیان قریبی تعاون بھی شامل ہے۔ یہ بھارت اور امریکا کے درمیان تزویراتی مقاصد کے یکجا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ٹیرف اور جوابی ٹیرف کی جنگ بھی اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔
بھارت کے محکمہ کامرس کے خصوصی سیکرٹری راجیش اگروال ایک وفد کے ہمراہ تجارتی اختلافات کو حل کرنے کے لیے امریکا گئے تھے مگر ان کا قیام ایک ہفتے پر محیط ہوگیا۔ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت روس پر تیل کی خریداری کا انحصار کم کرکے یوکرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرے۔ بھارت روس سے اپنی ضروریات کا چالیس فی صد تیل خریدتا ہے۔ امریکا پوری کوشش کے باوجود اس میں کمی نہیں کر اسکا۔ یہ بات طے ہے کہ اگر بھارت امریکا کا یہ مطالبہ مانتا ہے تو اسے دوسرے ملکوں سے مہنگے داموں تیل خریدنا پڑے گا اور جس کا اثر بھارت کی معیشت پر پڑے گا۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث عوام میں ناراضی پید اہوجائے گی۔ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی امریکا کے مذاکرات ٹیرف اور دفاع دونوں سطحوں پر جاری ہیں۔ بظاہر امریکا دونوں ملکوں سے تجارت پر بات کررہا ہے مگر حقیقت میں اصل وجہ نزع دفاعی اور تزویراتی ہے جس میں تجارت محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ بھارت کو روس سے تو پاکستان کو چین سے دور کرنا اصل مقصد ہے اور اس کے اثرات تجارتی شعبے پر منعکس ہو تے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ملک ان مشکل حالات سے کس طرح نبر د آزما ہوتے ہیں؟۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بھارت کے ساتھ پاکستان کی کے درمیان امریکا کے امریکا کی بھارت کو کی جنگ تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-05-18
ٹنڈوالہیار(نمائندہ جسارت)امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ حکومتِ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے، خطے میں نئی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیریہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے، ٹرمپ کی چاپلوسی ناکام ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک سے برادرانہ تعلقات ناگزیر ہیں ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور جمعیت علماء پاکستان کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیرنے امریکہ اور بھارت کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سفارتی ناکامی اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ وہ ایک ماہ کے دورہ پنجاب سے واپسی پر حیدرآبامیں جے یو پی کے ذمہ داران سے گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ امریکہ، بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں خطہ ایک نئی جنگی دوڑ میں داخل ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیرنے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ان قوتوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو اسلام دشمن ایجنڈا لے کر عالمِ اسلام میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ حکومت کی خوشامد اور چاپلوسی کی پالیسی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ امریکہ ہمیشہ بھارت کے مفادات کا محافظ اور پاکستان کے دفاعی کردار سے خائف رہا ہے۔لہذا ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ہمیں امریکہ یا مغرب پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ، برادرانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان کو چاہیے کہ چین، ایران، ترکی، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم کرے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ ملک کے اندر افتراق و انتشار، سیاسی انتقام اور نظریاتی تقسیم کو ختم کرے، کیونکہ داخلی کمزوری بیرونی دشمنوں کے لیے سب سے بڑا موقع ہوتی ہے۔ قومی اتحاد، داخلی امن، اور آئینی ہم آہنگی ہی پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کا واحد راستہ ہے۔لہذاملک کے دفاع اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے حکومت کو سنجیدہ، حقیقت پسندانہ اور قومی مفاد پر مبنی کردار ادا کرنا ہوگا۔ وقتی سیاسی فائدے اور بیرونی خوشامد کی پالیسی سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزارتِ خارجہ فوری طور پر عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرے، اور عالمی برادری کو باور کرائے کہ امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ جنوبی ایشیا میں امن کے بجائے جنگ کے شعلے بھڑکانے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جمعیت علماء پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل ملک کے نظریاتی و دفاعی استحکام، ملی وحدت، اور اسلامی شناخت کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • چین پاکستان کا سدا بہار دوست، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع
  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ کا پاک امریکا معاشی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • افغانستان کے ساتھ مؤثر مکینزم تشکیل دینے پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیر مملکت طلال چوہدری
  • امریکا فلپائن مابین مشترکہ فوجی ٹاسک فورس تشکیل دے دی: پینٹاگون