ٹرمپ کے نزدیک ایران سے پابندیاں اٹھانے کا درست وقت کیا ہے!
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ پابندیاں صرف اس صورت میں اٹھائی جائیں گی جب شام کی طرح ایران پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے، دہشت گرد گروہ سڑکوں پر گشت کر رہے ہوں اور ایران الجولانی اور عرب ممالک کی طرح گریٹر اسرائیل بنانے کے لئے صیہونی کوششوں کا ساتھ دے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال خام نہ صرف احمقوں کی جنت میں رہنے والے نتن یاہو اور ٹرمپ کا خواب ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ دن دور نہیں جب شہدا کی قربانیوں اور مجاہدین کے جہاد سے فتح کا سورج طلوع ہوگا اور قبلہ اول کی آزادی کیساتھ صیہونی رجیم اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ خصوصی رپورٹ:
امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کے مطابق ایران پر سے پابندیاں صرف اسی صورت میں اٹھائی جائیں گی جب اس پر اسرائیل کا کنٹرول ہو اور اسے عرب ممالک سے درآمد شدہ دہشت گرد چلا رہے ہوں۔ امریکی صدر نے غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم کیساتھ ملاقات کے دوران اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ شام پر سے پابندیاں اٹھائیں گے اور اگر ایران شام جیسا بن جائے تو اس پر عائد پابندیاں بھی اٹھا لی جائیں گی۔ شام کی صورت حال پر ایک مختصر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کا اصل مطالبہ ایران سے کیا ہے اور کن شرائط کے تحت پابندیاں اٹھانے کی بات کر رپے ہیں۔
1۔ درآمد شدہ دہشت گردوں کا راج
ابو محمد الجولانی وہ ہیں جن کا پس منظر القاعدہ میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ القاعدہ ایک دہشت گرد گروپ ہے، جسے 1988 میں اسامہ بن لادن نے تشکیل دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گروہ خطے کے دیگر ممالک تک پھیلتا گیا اور عراق اور شام تک پہنچ گیا۔ الجولانی 2003 میں عراق گیا اور عراق میں القاعدہ کا ایک اعلیٰ درجہ کا رکن بن گیا۔ صہیونی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے 2013 میں اس کے بارے میں لکھا تھا کہ الجولانی اتنا پراسرار ہے کہ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اصل نام کیا ہے؟ اور عراقی سیکیورٹی حکام اسے القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں میں شمار کرتے تھے۔ وہ ابو مصعب الزرقاوی کا قریبی ساتھی بھی رہا، جولانی عراق میں امریکی جیل میں قید رہا۔ جیل سے رہائی کے بعد، اس نے اپنی عسکری سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں، کچھ عرصے کے بعد، الجولانی شام چلا گیا اور 2012 میں القاعدہ کی ایک شاخ جبھۃ النصرہ تشکیل دی، اس کے بعد اس دہشت گرد گروہ کو وسعت ملی۔
جولانی بعد میں دہشت گرد گروہ تحریر الشام کا سربراہ بن گیا اور اسی عنوان سے شامی حکومت پر قابض ہوا۔ تحریر الشام گروپ اور خود جولانی کو اب امریکہ کی حمایت حاصل ہے، حالانکہ پہلے یہ امریکہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا۔ امریکہ نے جولانی کی گرفتاری پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے جاری کردہ "ایگزیکٹیو آرڈر 13224" کے مطابق امریکہ میں دہشت گرد تصور کیے جانے والے افراد یا گروہوں کو ایک فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ 2014 میں امریکہ نے اس ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق جولانی سمیت جبہۃ النصرہ کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ جولانی نے اس کے بعد فتح الشام نامی گروپ تشکیل دیا، امریکا نے 2016 میں اس گروپ کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا، پھر تحریر الشام کی تشکیل کے ساتھ ہی اس گروپ کو بھی امریکا نے 2018 میں دہشت گرد گروپ قرار دے دیا، دوسرے الفاظ میں، امریکہ ان تمام گروہوں کو دہشت گرد سمجھتا رہا جن کا جولانی ایک حصہ تھا اور ان کی قیادت کرتا تھا۔
تحریر الشام کے شام پر قبضے کے بعد، اس کے ساتھ امریکہ کے روابط میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ اس وقت کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ باربرا لیف نے جولانی سے ملاقات میں کہا کہ ان کے شامی شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل کے باوجود، جولانی ایک عملیت پسند ہے اور خواتین کے مسائل اور مساوی حقوق کے بارے میں ان کے بیانات انتہائی عملی اور معتدل ہیں۔ یہ ایک دلیل ہے کہ پابندیاں ہٹانے کے لیے ٹرمپ کے ماڈل کا پہلا قدم کیا ہے؟ یہی کہ عرب ممالک سے درآمد کیے گئے دہشت گرد جس ملک کی سڑکوں پر قابض ہوں، اس سے امریکی پابندیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔
2۔ اسرائیل کا ملک پر قبضہ
جولانی اور تحریر الشام کے شام میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جو پہلا واقعہ پیش آیا وہ اسرائیلی فوج کا شام پر قبضہ تھا۔ صیہونی حکومت کے شام پر پہلے قبضے کی کہانی سنہ 1967 کی ہے۔اس سال اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان جنگ کے بعد جسے "چھ روزہ جنگ" کے نام سے جانا جاتا ہے، صیہونی حکومت نے شام سے متصل ایک علاقے پر قبضہ کر لیا جسے "گولان کی پہاڑیاں" کہا جاتا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں اور دمشق کے درمیان فاصلہ تقریباً 60 کلومیٹر ہے۔ ان چوٹیوں سے شام کے دارالحکومت کا بآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد سے، اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اس سے بھی بڑھ کرحملوں کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔ 1981 میں اسرائیل نے خود کو گولان کا مالک قرار دیا اور 2019 میں امریکی صدر نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کر لیا۔
تاہم 2011 سے 2018 تک کشیدگی دوران بشار الاسد حکومت اور فوج کی شدید کمزوری کے باوجود صیہونی شام پر قبضے میں پیش قدمی کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم اسد حکومت کے خاتمے کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلی ٹینکوں نے شام پر قبضہ شروع کر دیا اور صوبہ قنیطرہ میں صیہونی توپ خانے کے حملے دیکھے گئے۔ اسرائیل کا مزید قبضے کا بہانہ بفر زون کا قیام تھا۔ اسی بہانے گولان پر بھی قبضہ کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے جبل الشیخ کے علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے دمشق کے مضافات کو بھی نشانہ بنایا، اس آپریشن میں فضائی حملے بھی شامل تھے۔
جبل الشیخ اسرائیلی ریڈاروں کے لیے ایک مشکل مقام تھا اور جنگی طیاروں خصوصاً مزاحمتی محور کے ڈرونز کو شام سے مقبوضہ علاقوں تک جانے میں سہولت فراہم کرتا تھا۔ جولانی، جو اب شام پر کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے، اس نے ملک پر اسرائیلی قبضے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کوئی اقدام نہ کرنے کے علاوہ جولانی نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں نہیں جائیں گے۔ انھوں نے برطانوی جریدے ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شام کو اسرائیل پر حملے کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دینگے۔
دمشق کے گورنر (جولانی کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک) نے امریکی نیوز نیٹ ورک این پی آر کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسرائیل کی طرف سے شام کی زمینوں پر قبضے اور کئی ٹن وزنی بموں سے 400 فضائی حملوں کے بعد کہا کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ شام میں نئی حکومت آنے پر اسرائیل پریشان ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کو خوف محسوس ہو اور اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل کیساتھ کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا ہے، ہم امن کے خواہاں ہیں اور ہم کسی بھی ایسی چیز میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ ہو۔ پابندیاں ہٹانے کے لیے ٹرمپ کے ماڈل کا دوسرا مرحلہ اسرائیل کا کسی ملک کی زمینوں پر بلا تعارض قبضہ ہے۔
3.
ایران کے ساتھ جنگ تک شام پر سے پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں
جولانی کی اسرائیل اور امریکہ کے لئے 100% حمایت کے باوجود شام پر سے پابندیاں ابھی تک مکمل طور پر نہیں ہٹائی گئیں۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں کے امریکی سینیٹرز نے شام پر پابندیوں میں 2029 تک توسیع کے بعد کہا کہ ہم نے اسد کے جانے کے لیے برسوں کام کیا ہے، اور ہم سب ان کی حکومت کے جانے پر خوش ہیں۔ لیکن شام پر سے پابندیاں اٹھانا جلد بازی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے شام کو دسمبر 1979 سے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طور پر نامزد کر رکھا تھا اور تب سے اس پر پابندیاں عائد ہیں۔ 2004 میں امریکی صدر کی جانب سے ایگزیکٹیو آرڈر 13338 کے اجرا کے ساتھ شام کے خلاف نئی پابندیوں کا پروگرام لاگو کیا گیا تھا اور پابندیوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ پابندیاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور میزائل پروگرام کی موجودگی کے بہانے لگائی گئی تھیں۔
تاہم اسد حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام کے قبضے کے باوجود امریکی کانگریس نے شام کے خلاف پابندیوں میں 5 سال کی توسیع کر دی۔ ان ہی دنوں ایران پر حملہ کرنے کے منصوبے کے آغاز اور مذاکرات میں دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے شام کی فضائی حدود کے استعمال کے بعد ٹرمپ نے اب اپنے منظر نامے کو آگے بڑھانے کے لیے شام پر سے پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ جانتے ہیں کہ شام پر اسرائیل کے قبضے، جولانی گروپ کے دہشت گردوں کی موجودگی اور قبضے کے باوجود اگر تمام پابندیاں ہمیشہ کے لیے بھی ہٹا دی جائیں تو بھی اس ملک میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آنی۔
اسی بنیاد پر ایران کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ پابندیاں صرف اس صورت میں اٹھائی جائیں گی جب شام کی طرح ایران پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے، دہشت گرد گروہ سڑکوں پر گشت کر رہے ہوں اور ایران الجولانی اور عرب ممالک کی طرح گریٹر اسرائیل بنانے کے لئے صیہونی کوششوں کا ساتھ دے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال خام نہ صرف احمقوں کی جنت میں رہنے والے نتن یاہو اور ٹرمپ کا خواب ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ دن دور نہیں جب شہدا کی قربانیوں اور مجاہدین کے جہاد سے فتح کا سورج طلوع ہوگا اور قبلہ اول کی آزادی کیساتھ صیہونی رجیم اپنے اختتام کو پہنچے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شام پر سے پابندیاں دہشت گرد گروہ تحریر الشام کیا گیا تھا کے بارے میں امریکی صدر پر اسرائیل اسرائیل کا اسرائیل کی عرب ممالک کے باوجود حکومت کے جائیں گی ایران پر گولان کی قبضے کے تھا اور کے ساتھ گیا اور ٹرمپ کے کی طرح کے شام کے بعد کیا ہے شام کی ہو اور شام کے اور اس کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیل کا دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ: ایرانی فوج ہائی الرٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: اسرائیل کی جانب سے ایران پر دوبارہ حملہ کرنے کے منصوبہ کے پیش نظر ایرانی فوج کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔
ایرانی ٹی وی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ دوبارہ حملے کے معاملے پر اسرائیل کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں، نیتن یاہو کی ٹرمپ سے ملاقات دھوکا ہے اور سب پہلے سے طے شدہ ہے۔
میڈیا کے مطابق ایران نے ممکنہ خطرات کے حوالے سے بھرپور تیاریاں کرلیں ہیں جبکہ ایرانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حملہ کیا تو جوابی کارروائی پہلے سے زیادہ سخت ہوگی۔
ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے مشیر جنرل یحییٰ رحیم صفوی کا کہنا ہے کہ ایران نے ہر صورتحال اور ممکنات کے لیے تیاری کر لی ہے اور خفیہ جگہوں پر ہزاروں میزائل اور ڈرونز دفاع کے لیے موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں قدس فورس، نیوی اور آرمی کو مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا تھا۔