جسٹس اعجاز اسحاق اور احسن بھون کے درمیان عدالت میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
ہائیکورٹ میں ایک اہم کیس کی سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورت حال دیکھنے میں آئی جب جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور معروف وکیل و پاکستان بار کونسل کے نمائندہ احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
کیس کے دوران احسن بھون نے کہا کہ ’’کیس میں تو التوا لینا تھا، میں اس لیے آیا ہوں کہ جج صاحب کو دیکھ آؤں کہ کیا چل رہا ہے‘‘۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’آپ نے کہا کہ آخری چند دنوں کے لیے جو ہیں اُن کو دیکھ آئیں‘‘۔
احسن بھون نے وضاحت دی کہ ’’میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘، تاہم جسٹس اعجاز نے ہنستے ہوئے کہا ’’بھون صاحب، آپ مجھے آخری بار عدالت میں دیکھنے آئے ہیں، آپ کا شکریہ‘‘۔
واضح رہے کہ حال ہی میں جوڈیشل کمیشن نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کی منظوری دی تھی اور وہ آج اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے جسٹس سرفراز ڈوگر کی ٹرانسفر اور سنیارٹی کے خلاف درخواست دائر کی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے اس ٹرانسفر کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے اسے درست تسلیم کیا۔
صدرِ مملکت کی جانب سے بھی جسٹس سرفراز ڈوگر کی ٹرانسفر کو مستقل قرار دیتے ہوئے انہیں سینئر ترین جج تسلیم کیا گیا تھا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
جز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس : آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 جولائی ۔2025 )لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کے سپریم کورٹ آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کر دی ہیں سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی ائینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کو ائینی و قانونی قرار دیا تھا.(جاری ہے)
درخواستوں میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور طے شدہ عدالتی اصولوں کے خلاف ہے، ججز کی سنیارٹی طے کرنے کا مسلمہ طریقہ کار موجود ہے، صدر مملکت کو سینیارٹی طے کرنے کی ہدایت کرنے کی آئین میں گنجائش نہیں درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئینی بینچ کی جانب سے 19 جون 2025 کے حکم نامے کو کالعدم قرار دیا جائے اور اپیلوں پر فیصلے تک پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات معطل کیے جائیں. واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے گزشتہ ماہ 19 جون کو 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردی تھیں عدالت نے 3، 2 کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے. سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہورنے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ صدر پاکستان کو آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے جج کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ اختیار آرٹیکل 175 کے تحت ججوں کی تقرری سے بالکل الگ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کرتے، منتقلی کو تقرری سمجھنا آئین کی روح کے منافی ہے. عدالت نے قرار دیا تھا کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام عہدے صرف جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی پر کیے جانے چاہئیں، تو یہ مفروضہ آئین کے معماروں کے ارادے کے خلاف ہو گا، منتقلی ایک الگ آئینی شق کے تحت کی جاتی ہے، جو جوڈیشل کمیشن سے آزاد ہے عدالت نے صدر پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ واضح کریں کہ آیا ججز کی منتقلی مستقل ہے یا عارضی، اور ان کی سینیارٹی کا تعین ججز کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد کیا جائے. بعدازاں صدر مملکت نے 29 جون 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج ڈکلیئر کر دیا تھا جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور دیگر 2 ججز کا تبادلہ بھی مستقل قرار دے دیا تھا بعدازاں یکم جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، جسٹس جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، جسٹس عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ، جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی.