4 ماہ میں کیسز نمٹانے کے احکامات پر ناانصافی نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
سپریم کورٹ میں 9 مئی واقعات سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عدالت میں تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری اپنے وکیل فیصل چوہدری کے ہمراہ پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
سماعت کے دوران فواد چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ہمارا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ ان کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے نشاندہی کی کہ جب لارجر بینچ دستیاب تھا تو کیس لگنا چاہیے تھا۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد 9 مئی سے متعلق کیسز معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ 4 ماہ میں کیسز نمٹانے کے احکامات پر ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میں انسدادِ دہشت گردی عدالت میں صرف ایک ہی کیس سنا جائے گا، یہ مناسب نہیں کہ ایک ہی دن تمام کیسز مختلف عدالتوں میں مقرر کیے جائیں۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو ہدایت دی کہ آپ کے کیس کی سماعت کے بارے میں رجسٹرار آفس آپ کو مطلع کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9مئی چیف جسٹس سپریم کورٹ فواد چوہدری فیصل چوہدری یحییٰ آفریدی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس سپریم کورٹ فواد چوہدری فیصل چوہدری یحیی ا فریدی فواد چوہدری جسٹس یحیی سماعت کے چیف جسٹس
پڑھیں:
سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ مکالمے
اسلام آباد:سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ مکالمے ہوئے، تاہم سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ سماعت کے دوران مختلف کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل پیش کیے۔
وکیل فروغ نسیم نے مؤقف اختیار کیا کہ مقررہ تاریخ کے بعد ٹیکس نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ یہ معاملہ آج تک واضح کیوں نہیں ہو سکا؟ ہر بار یہی مسئلہ دوبارہ زیر بحث آ جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ این ایف سی ایوارڈ میں سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ٹیکسز بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ ان کے اس نکتے پر وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مقررہ وقت گزرنے کے بعد کسی نئے ٹیکس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
سماعت کے دوران دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب جسٹس جمال مندوخیل نے فروغ نسیم سے مسکراتے ہوئے کہا، آپ کو مکھن لگا دیتا ہوں، آپ بہت اچھے دلائل دے رہے ہیں۔ اس پر فروغ نسیم نے برجستہ جواب دیا، میں بھی مکھن لگا دیتا ہوں، ایسی عمدہ سماعت آج تک نہیں دیکھی۔
سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ججز پر بہت دباؤ ہوتا ہے جب کہ وکیل فروغ نسیم نے مؤقف اپنایا کہ کسی جج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی وکیل کی بے عزتی کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن نے ہمیشہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔
دوسرے وکیل حافظ احسان کھوکھر نے مؤقف اختیار کیا کہ وکیل یہ توقع رکھتا ہے کہ ججز اس کے دلائل عزت و احترام کے ساتھ سنیں۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی، جس میں وکیل فروغ نسیم اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔