میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی، پروین شاکر کی 73 ویں سالگرہ آج
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
پروین شاکر: فائل فوٹو
خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کے مداح آج ان کی 73ویں سالگرہ منارہے ہیں، اپنے پہلے مجموعے کی مناسبت سے ہی پروین شاکر خوشبو کی شاعرہ کہلاتی ہیں۔
24 نومبر 1952ء کو پروین شاکر کراچی کے ایک اسپتال میں افضل النساء اور سید ثاقب حسین زیدی کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔
پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ،بعد میں رضیہ گرلز ہائی اسکول کراچی میں داخلہ لیا، جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر سرسید گرلز کالج کراچی سے انگلش لٹریچر میں بی اے آنرز کیا۔
1972ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، پھر وہیں سے لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
محبت اور خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی آج 68ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔
اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے ’جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘ پر مقالہ لکھا، جسے وہ پیش نہ کرسکیں کیونکہ اسی دوران وہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے وابستہ ہو گئیں، جہاں سے انھوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔
تعلیمی سلسلہ ختم ہوا تو انھوں نے عبداللّٰہ گرلز کالج کراچی میں انگریزی لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ 9 برس تک وہ درس و تدریس کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ اس کے بعد سول سروسز یعنی سی ایس ایس کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئیں۔
24سال کی عمر میں کوئی شاعری کی دنیا میں داخل ہو.
کامیاب ہونے کے بعد محکمہ کسٹمز میں کلکٹر ہو گئیں۔ اس عہدے سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل سیکریٹری اور پھر سی۔ آر۔ بی۔آر اسلام آباد میں مقرر ہوئیں۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
پروین شاکر کی شاعری خو شبو کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں بسی ہوئی ہے ۔ ان کی پہلی کتاب’’ خوشبو‘‘ کو 1976 میں آدم جی ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد اعزازات و اسناد سے نوازا گیا۔
؎اپنے گھر کی طرح وہ لڑکی بھی نذر سیلاب ہوگئی شاید
تجھ کو سوچوں تو روشنی دیکھوں یاد، مہتاب ہوگئی شاید
پروین شاکر کی شاعری آج کے عہد کی شاعری ہے ۔انہوں نے شاعری میں مختلف تجربات کئے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی رہی ہیں ۔مختلف زبانیں جاننے کے باوجو د انہوں نے نہایت آسان اور سہل زبان میں شاعری کی۔
؎کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تیری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن، مور بن کے ناچتا ہے
ہاں انکی شاعری میں مختلف زبان کی تراکیب اور اور الفاظ کا استعمال ضرور ہوا ہے ۔ اپنی مختصر زندگی کے نہایت قلیل وقت میں وہ شاعری کا ایک ایسا خزانہ چھوڑ گئیں جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے کسی سرمائے سے کم نہیں۔
پروین شاکر کی شاعری خو شبو کی طرح لوگوں کے ذہنوں...
ان کے پانچ شعری مجموعے خوشبو، صد برگ، خود کلامی، انکار اور کف آئینہ ہیں ۔جب کہ کلیات ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس تخیل پردازی کا نظارہ ان کی شاعری میں نظر آتا ہے وہ انکی ہمعصر اور دوسرے شعراء میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے جس بنا پر وہ دوسروں سے منفرد نظر آتی ہیں ۔
پروین شاکر کی شاعری عشق کے مختلف اور منفرد کیفیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عشق اور محبت کی شاعرہ تھیں۔ ان کی مقبولیت ان کے پہلے شعری مجموعے "خو شبو " سے ہوئی۔ عشقیہ شاعری کی جو خوشبو انہوں نے بکھیری تھی وہ آج تک لوگوں کی دل دماغ میں بسی ہوئی ہے۔
دسمبر 1994 کو اُردو ادب کو مہکانے اور ادبی محفلوں میں شعر کی خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں موت کی وادی میں چلی گئیں مگر اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے وہ چمن اردو میں ہمیشہ مہکتی رہیں گی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پروین شاکر کی شاعری خوشبو کی شاعرہ
پڑھیں:
پیر پگارا شاہ مردان شاہ راشدی سیاست میں بادشاہ تھے،مقررین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سنجھورو (نمائندہ جسارت ) پیر پگارا شاہ مردان شاہ راشدی چھت دھنی سیاست کے میدان میں بادشاہ تھے ،مقررین کا پریس کلب سنجھورو میں پیر پگارا کی سالگرہ کے موقع پر اظہار خیال تفصیلات کے مطابق پریس کلب سنجھورو میں صحافی امام بخش منگریو کی جانب سے پیر پگارا کی سالگرہ کی تقریب منعقد ہوئی جس میں سیاسی سماجی رہنماؤں صحافیوں اور شہریوں نے شرکت کی اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر پگارا شاہ مردان شاہ راشدی المعروف چھت۔ دھنی سیاست میں اپنی مثال آپ تھے ان کے در پر ھر سیاستدان حاضری بھرتے تھے اور فیض لیتے تھے اور ان کی مرضی سے ھی حکومتیں بنتی تھی اور انہوں نے ہمیشہ پاکستان اور پاک افواج کا ساتھ دیا اور حر جماعت پاک فوج کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے۔