Daily Ausaf:
2025-11-03@08:10:03 GMT

کوانٹم اور کوانٹم ٹیکنالوجی کا آسان تعارف

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

کوانٹم کیا ہے؟کوانٹم (Quantum) ایک لاطینی لفظ ہے، جس کا مطلب ہے: کتنی مقدار یا انتہائی چھوٹا ذرہ۔سائنس میں کوانٹم اس چھوٹی ترین اکائی کو کہتے ہیں جو توانائی یا مادے کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ انتہائی چھوٹے ذرات کی دنیا ہے جیسے الیکٹران، فوٹون، کوارک جو آنکھ سے نظر نہیں آتے اور جن پر عام سائنس کے اصول لاگو نہیں ہوتے۔یہ وہ دنیا ہے جو ایٹم سے بھی ہزاروں گنا چھوٹی ہے، جہاں ہر چیز نہایت عجیب و غریب انداز میں کام کرتی ہے۔کوانٹم کیسے کام کرتا ہے؟
کوانٹم دنیا کی چند حیرت انگیز خصوصیات درج ذیل ہیں:سپرپوزیشن (Superposition): عام زندگی میں کوئی چیز یا تو آن ہوتی ہے یا آف۔لیکن کوانٹم دنیا میں ایک ذرہ ایک وقت میں آن بھی ہوتا ہے اور آف بھی جب تک کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔جیسے ایک بلب ایک وقت میں جل بھی رہا ہو اور بند بھی ہو یہ ہے سپرپوزیشن۔
انٹینگلمنٹ (Entanglement):دو ذرات آپس میں ایسے جڑ سکتے ہیں کہ چاہے وہ ایک دوسرے سے لاکھوں میل دور ہوں، ان میں ایک پر اثر ڈالنے سے دوسرا فوراً متاثر ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے دو جڑواں دل ایک کے محسوس کرنے پر دوسرا فورا جواب دیتا ہے، چاہے وہ کائنات کے دوسرے کنارے پر ہو۔کوانٹم کمپیوٹنگ کیا ہے؟کوانٹم کمپیوٹر وہ کمپیوٹر ہے جو عام بِٹس کے بجائے کیوبٹس (qubits) استعمال کرتا ہے:عام کمپیوٹر 0 یا 1 استعمال کرتا ہے۔کوانٹم کمپیوٹر کا کیوبٹ ایک وقت میں 0 اور 1 دونوں ہو سکتا ہے۔
ایک مثال:فرض کریں آپ کے پاس ایک لاک ہے جس کے 1000ممکنہ کوڈز ہیں:عام کمپیوٹر ایک ایک کر کے کوڈ آزمائے گا۔کوانٹم کمپیوٹر ایک ساتھ سارے کوڈز آزما سکتا ہے!اسی لیے کوانٹم کمپیوٹرز انتہائی تیز رفتار اور طاقتور ہوں گے۔کوانٹم ٹیکنالوجی کہاں کام آئے گی؟یہ ٹیکنالوجی مستقبل کو بدل دے گی بالکل اسی طرح جیسے ایک وقت میں بجلی، انٹرنیٹ اور موٹر گاڑی نے دنیا بدلی تھی۔
ڈیٹا سیکیورٹی:کوانٹم کے ذریعے ناقابلِ شکست کوڈز بنائے جا سکتے ہیں۔طب و دوا میں انقلابی ترقی:نئی دواں کی تیاری میں کوانٹم کمپیوٹر پیچیدہ مالیکیولز کو تیزی سے سمجھ سکتا ہے۔ماحولیاتی مسائل کا حلیہ زمین کی تبدیلیوں کا بہتر تجزیہ کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں کا حل دے سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI):کوانٹم کمپیوٹر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو کئی گنا زیادہ طاقتور بنا دے گا۔پیغامِ بصیرت‘کوانٹم سائنس کوئی خیالی بات نہیں بلکہ یہ اللہ کی تخلیق کا ایک حیرت انگیز دروازہ ہے۔یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کا نظام صرف سادہ اصولوں پر نہیں بلکہ امکانات، پوشیدہ رابطوں اور پوشیدہ حکمتوں پر قائم ہے۔جیسے روح (روحِ انسانی) نظر نہیں آتی، مگر حقیقی ہے اسی طرح کوانٹم حقیقت بھی نظر سے پوشیدہ مگر طاقتور ہے۔عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور خود ان کی ذات میں، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہی حق ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کوانٹم کمپیوٹر ایک وقت میں ہے کوانٹم سکتا ہے

پڑھیں:

غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔

غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔

غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔

تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • پاک فوج کی کوششوں سے گوادر میں جدید ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ قائم
  • گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی : پاک فوج کی کاوشوں کا مظہر
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی سخت ترین عملداری کا فیصلہ، جدید ٹیکنالوجی سے نگرانی ہوگی