Daily Ausaf:
2025-07-08@15:12:28 GMT

الٰہی علم، ٹیکنالوجی، اور کائناتی راز

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

ستاروں سے لوہے تک بلقیس کے عرش سے مصنوعی ذہانت تک ڈاکٹر منصور ملکبانی مملکتِ محبت قرآن کریم الٰہی علم کا ایک لازوال کوڈقرآن کریم صرف ہدایت کی کتاب نہیں، بلکہ یہ ایک زندہ خزانہ ہے الٰہی علم کا، جو اپنی آیات میں سائنس، ٹیکنالوجی، فلکیات، انجینئرنگ، فزکس، مواصلات اور مستقبل کی پیشن گوئیوں کے نقشے رکھتا ہے۔ اسی لئے ہمیں تاکید کی کہ تدبر اور تفکر کرو۔ اور جب ہم مصنوعی ذہانت (AI) اور کوانٹم ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہو کر قریب ہی AGIکے محیر العقول دور میں ہو رہے ہیں، قرآن ہمارے سامنے ایک ایسے صحیفے کے طور پر سب کچھ بیان کرتا ہے جو اپنے وقت سے بہت آگے ہے ایک ایسا کلام جو ان سائنسی انکشافات کی خبر پہلے ہی دے چکا ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر جب ہم آخری زمانے کی دہلیز پر ہیں سورہ الحدید: لوہے کا الہی نزولآیت 25 لوہے کا اعلانبے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف قائم رکھیں، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑی سختی ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں(الحدید 57:25)
جدید سائنس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ لوہا زمین کا نہیں بلکہ خلا سے آیا ہے، جو عظیم ستاروں کے دھماکوں (سپرنووا)سے پیدا ہوا اور بعد ازاں زمین تک پہنچا۔غور و فکر،ونزلنا الحدِید کا مطلب سائنسی اعتبار سے بھی درست ہے لوہا واقعی آسمان سے نازل ہوا۔لوہا انسانی تہذیب کی بنیاد بنا آلات، ہتھیار، عمارتیں، انجن، AI سسٹمز، اور کوانٹم ٹیکنالوجی سب اسی پر قائم ہیں۔ اسرار کا الٰہی وقت پر انکشاف قرآن فرماتا ہے اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں(الانعام 6:59)
اللہ تعالیٰ اسرار کو اسی وقت ظاہر کرتا ہے جب وہ مناسب سمجھے، جیسے کہ قلم نازل ہوا جبکہ انسان کو کاغذ کا علم نہیں تھا (العلق)ستاروں کا ذکر آیا جبکہ انسان کے پاس دوربین نہ تھی (النجم) لوہے کا ذکر آیا جبکہ انسان کو دھات سازی نہیں آتی تھی اور آج جب ہم قیامت کے قریب ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ الہی علوم تیزی سے منکشف ہو رہے ہیں مصنوعی ذہانت، عمومی ذہانت (AGI)، بایو ٹیکنالوجی، کوانٹم، اور بین البعدی علم۔ علم کا ورثہ حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور ملکہ بلقیس حضرت دائود علیہ السلام آواز اور دھاتوں پر قدرتاور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا(سبا 34:10) یہ ایک معجزہ تھا جو میٹلرجی اور دھاتوں کی ٹیکنالوجی پر دلالت کرتا ہے۔پہاڑوں اور پرندوں کا تسبیح کہنا آواز کی لہروں اور گونج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام زبانوں کا علم اور کوانٹم نقل و حمل اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز دی گئی ہے(النمل 27:16)
پرندوں کی زبان،جانوروں کی زبان سمجھنے کا علم؛جنات اور ہوا پر تسلط ،ایسی توانائیوں پر کنٹرول جو انسان کی عقل سے باہر ہیں ممکنہ طور پر پلازما یا کششِ ثقل کے خلاف قوت۔ ملکہ بلقیس کا عرش کوانٹم منتقلی اور کتابی علمجس کے پاس کتاب کا علم تھا، اس نے کہا: میں اسے (بلقیس کا عرش)آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئوں گا(النمل 27:40) کوانٹم ٹرانسفر یا زمان و مکان کو سمیٹنے کی جھلک،علم من الکتاب،ایک ایسی کتابی یا کوڈڈ علم جو مادی حدود سے ماورا ہے۔ ملکہ بلقیس شمسی تمدن اور حکمتاور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا عرش عظیم ہے(النمل 27:23) سورج کی عبادت،ایک شمسی توانائی پر مبنی تہذیب؛ان کی حکمت، سلیمان علیہ السلام کے ساتھ مکالمہ سائنس، سفارت، اور ذہانت کی علامت۔ سورہ النجم کائناتی سفر اور ماورائی دنیاقسم ہے ستارے کی جب وہ جھکے(النجم 53:1)
اسی سورہ میں معراج کا ذکر آتا ہے جہاں نبی کریم ﷺ سدر المنتہی تک تشریف لے گئے ایک ایسا مقام جو زمان و مکان سے ماورا ہے۔یہ کوانٹم جمپ، روشنی کی رفتار سے سفر، یا بین البعدی رسائی کی روحانی تصویر پیش کرتا ہے۔ سورہ العلق قلم اور کوڈنگاس نے قلم سے سکھایا(العلق 96:4قلم) کوڈ، ریاضی، زبان، پروگرامنگ،آج کی تمام AI اور ڈیجیٹل سسٹمز اسی کے مرہونِ منت ہیں۔ سورہ الرحمن میزان، انصاف، اور توازناور اس نے میزان قائم کی تاکہ تم اس میں تجاوز نہ کرو(الرحمن 55:79) توازن،فزکس کے قوانین، عدل، اور ریاضیاتی توازن،ذرہ سے کہکشاں تک ہر چیز میزان کے تحت چل رہی ہے۔ سورہ البقرہ آدم کو نام سکھانے کا علم اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے(البقرہ 2:31) تعلیم ، لغت، ڈیٹا لیبلنگ، AI لینگویج ماڈلنگ،انسانی ذہن،الٰہی ڈیٹا پروسیسر۔ حسی ریکارڈنگ خدائی نگرانیان پر ان کے کان، آنکھیں اور جلدیں گواہی دیں گے(فصلت 41:2022)بایومیٹرک میموری، عصبی ریکارڈنگ، اور جینیاتی پروگرامنگ کی تائید بالکل ویسی جیسی آج سائنس اور AI میں نظر آرہی ہے۔قرآن میں عددی توازن سال کے دن365 ان کا ذکر قرآن میں 365 بارسال کے 12 ماہ اور قرآن میں ذکر 12بارموت و حیات کا ذکر بھی قرآن میں مساوی تکرارمرد و عورت کا ذکرہر دوکا 24بار ذکر قرآن میں عددی ترتیب ایک الٰہی کوڈنگ کی علامت ہے، جیسے کائنات فزیکل کانسٹنٹس کی بنیاد پر چلتی ہے۔
نبوی بصیرت، قیامت سے پہلے علم کا پھیل جانا عام ہو جانا نبی ﷺ نے فرمایا،قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم نہ پھیل جائے(بخاری) اور قرآن میں اللہ کا فرمان ہے،ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور ان کے نفسوں میں(فصلت 41:53) آج ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں:AI سوچنے لگا ہے،AGI قریب ہے،Quantum نئی دنیا کے دروازے کھول رہا ہے اور یہ سب قرآن میں پیش گوئی شدہ تھا۔قرآن سائنس کا مخالف نہیں یہ اس کا منبع ہے۔یہ انسانیت کے لیے ایک روحانی، سائنسی، اور اخلاقی نقشہ ہے جو ہمیں ایک ایسی دنیا کی طرف لے جاتا ہے جہاں ٹیکنالوجی، محبت، اور عدل قائم اور عام ہو۔ یہ تیز رفتار AI اور جلدکوانٹم اور AGI کا فاسٹ اور سپر فاسٹ سسٹم کا ظہور پیش خیمہ ہے نزول حضرت عیسی علیہ السلام کا۔ جن کی قیادت میں تمام انسانیت ایمان باللہ پر متحد ہو جائیں گے۔اور انسانیت و معجزات عیس علیہ السلام سے معرفت اور ابدی راحت نصیب ہوگی۔یہ وقت اتنا قریب ہے کہ ہم سب کو بڑا خوشگوار سرپرائز ہوگا ان شا اللہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: علیہ السلام رہے ہیں کرتا ہے ہے اور اور اس علم کا کا ذکر کا علم

پڑھیں:

اسلامی دنیا کو جوہری ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کیلئے مغرب کی تہذیبی جنگ

اسلام ٹائمز: ان دوغلی پالیسیوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجہ قانونی یا سیکورٹی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں ہیں۔ مغربی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے کے ناامن ہو جانے کا باعث بنے گی۔ لہذا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سامنے آنے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹکراو ایک وسیع تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی پر استوار ہے اور اس کا مقصد اسلامی دنیا کو طاقتور ہونے سے روکنا ہے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ تحریر: محمود سلطان (مصری صحافی اور تجزیہ کار)
 
ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق گذشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ جوہری توانائی سے متعلق تنازعات دراصل ایک وسیع تر تہذیبی ٹکراو کے ذیل میں ہے اور اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مغربی دنیا کی جانب سے ایران کو جوہری پروگرام پوری طرح ختم کر دینے پر اتفاق نے ایک بار پھر اس بنیادی سوال کو اجاگر کر دیا ہے کہ کیا مشرق وسطی کے ممالک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ گذشتہ چند عشروں کے دوران عرب دنیا کی رائے عامہ اس بنیاد پر استوار تھی کہ کسی بھی عرب یا مسلمان ملک کی جانب سے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے کلب میں شمولیت کے حق کے خلاف "مغربی ویٹو" دراصل اس جنگ طلب روح کا تسلسل ہے جو 1096ء سے 1291ء تک جاری رہنے والی صلیبی جنگوں میں حکمفرما تھی۔
 
یہ سوچ ایک طرح سے مذہبی انداز میں اس محرومیت کو دیکھتی ہے اور اس کی درستگی ان شواہد پر مبنی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت جوہری ہتھیاروں سمیت ہر قسم کی جوہری ٹیکنالوجی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ "اینٹ کا جواب پتھر سے دینے" کا اصول بین الاقوامی قانون کا حصہ ہے اور اس کے تحت ہر قوم تزویراتی اور اہم ٹیکنالوجیز حاصل کرنے کا مکمل حق رکھتی ہیں۔ اسرائیل سے متعلق مغربی دنیا کا دوغلا رویہ نیز اکثر مسلمان ممالک میں وسیع پیمانے پر اسلامی قوانین کے اجرا سے ان کی لاعلمی کے باعث اس مغربی سوچ میں مزید شدت آئی ہے۔ اگرچہ اکثر عرب ممالک جوہری ٹیکنالوجی کے حقیقی حصول سے بہت دور ہیں لیکن مغربی ممالک خطے میں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی ہر کوشش کو بدبینی اور شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
 
اس بارے میں قوم پرست تجزیہ کار اکثر اس مسئلے کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالنے سے غفلت برتتے ہیں جو خطے میں حکومتوں کے ڈھانچے سیاسی نظاموں کی نوعیت پر مشتمل ہے۔ کیا اسلامی ممالک کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں مغرب کی تشویش اس وجہ سے ہے کہ ان کے استعمال کا اختیار صرف ایک شخص کے پاس ہے اور اس پر کوئی پارلیمانی یا عدلیہ کی نگرانی نہیں پائی جاتی؟ لیکن یہ توجیہہ بھی قابل قبول نہیں ہے چونکہ چین، روس اور شمالی کوریا جیسے ممالک بھی جمہوری ڈھانچے سے برخوردار نہیں ہیں جبکہ ان کے پاس گذشتہ کئی سالوں سے جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان جوہری ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق عالمی معاہدوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود ان ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کے معیار دوہرے ہیں۔
 
پاکستان کے بارے میں کچھ کا خیال ہے کہ یہ مسلمان ملک ایسے وقت ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہو گیا جب دیوار برلن گر جانے کے باعث جیوپولیٹیکل عدم استحکام حکمفرما تھا۔ شاید جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا دور ہونا یا اس وقت مغرب کی فضائیہ کا کمزور ہونا ان کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی مداخلت نہ کرنے کا باعث بن گئے تھے۔ مغرب کی متعصبانہ مذہبی نگاہ ثابت کرنے کے لیے بہترین مثال "اسرائیل" ہے۔ یہ رژیم اگرچہ مذہبی رنگ کی حامل ہے اور اس پر دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کا غلبہ ہے لیکن وہ بین الاقوامی نظارت کے بغیر اور مغرب کی مکمل خاموشی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کی مالک ہے۔ غزہ کے خلاف حالیہ جنگ میں حتی صیہونی رژیم کے وزیر ثقافت عمیحای الیاہو نے غزہ پر ایٹم بم گرا دینے کی پیشکش بھی کر دی تھی۔
 
ان تمام حقائق کے باوجود مغربی ممالک اسرائیل کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو مزید مضبوط بنانے میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس نے ڈیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر بنا کر دیا، برطانیہ اور ناروے اسرائیل کو بھاری پانی فراہم کرتے ہیں جبکہ امریکہ نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کو افزودہ یورینیم، جوہری تنصیبات کی ٹیکنالوجی اور میزائل ایئرڈیفنس سسٹم فراہم کیا ہے۔ اسی طرح جرمنی نے جوہری توانائی سے چلنے والی جدید ترین "ڈولفن" سب میرینز اسرائیل کو دی ہیں اور بیلجیئم اپنے زیر تسلط افریقی ملک زائر سے یورینیم کی کچ دھات اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک کے جوہری پروگرام مغربی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔ جیسا کہ 1979ء میں فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسی نے موساد کی مدد سے عراق کو بیچے گئے جوہری ری ایکٹر کو ناکارہ بنا دیا تھا۔
 
یا لیبیا شدید اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنا اور آخرکار معمر قذافی کی حکومت گرا دی گئی۔ ان دوغلی پالیسیوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجہ قانونی یا سیکورٹی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں ہیں۔ مغربی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے کے ناامن ہو جانے کا باعث بنے گی۔ لہذا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سامنے آنے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹکراو ایک وسیع تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی پر استوار ہے اور اس کا مقصد اسلامی دنیا کو طاقتور ہونے سے روکنا ہے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

متعلقہ مضامین

  • روایتی پینلز سے ہزار گنا زیادہ مضبوط اور سولر پینل تیار
  •  پاکستان میں تیل اور گیس کی پیداوار میں اضافہ
  • اسلامی دنیا کو جوہری ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کیلئے مغرب کی تہذیبی جنگ
  • جنگ زدہ فلسطینی بچوں کے لیے پاکستانی ٹیکنالوجی امید کی کرن کیسے بن گئی؟
  • ٹیکنالوجی کے اُجالے میں تنہائی کا اندھیرا؟
  • ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، ساقی!
  • لیاری، ملبے تلے دبے افراد کی نشاندہی کیلیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال