پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کا کیا فیوچر ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
چین کی معروف کمپنی BYD کی جانب سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا پلانٹ لگانے کی خبروں نے ملک کی آٹو انڈسٹری میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان الیکٹرک وہیکل سیکٹر میں اہم سنگ میل، مقامی طور پر اسمبل الیکٹرک کاریں لانچ
اگرچہ یہ قدم بظاہر پاکستان کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل کامیابی تب ہی ممکن ہوگی جب یہ سرمایہ کاری مکمل مینوفیکچرنگ، جامع لوکلائزیشن، اور عام آدمی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے۔ بصورت دیگر یہ بھی ماضی کی طرح ایک ایسا ماڈل بن سکتا ہے جہاں ٹیکنالوجی کا فائدہ نہ عوام کو ہوتا ہے، نہ ہی ملکی معیشت کو۔
پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کا کیا فیوچر ہے؟ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے یہ قدم کتنا فائدہ مند ہوگا؟ اور کیا پاکستان الیکٹرک موبیلیٹی کے لیے تیار ہے؟
پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں کوئی بڑی الیکٹرک وہیکل کمپنی سرمایہ کاری کرتی ہے تو اس سے ملک کی آٹو انڈسٹری کو بلاشبہ فائدہ ہوگا۔ تاہم اس تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مقامی سطح پر کتنی لوکلائزیشن کی جائے گی، اور وقت کے ساتھ اس میں کس حد تک اضافہ ممکن ہوگا۔
اگر یہ کمپنیاں صرف پرزے درآمد کر کے یہاں گاڑیاں اسمبل کریں، جیسا کہ پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے معاملے میں ہوتا رہا ہے، تو اس کا کوئی پائیدار فائدہ نہیں ہوگا۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا، جہاں ٹویوٹا، ہنڈا اور سوزوکی جیسی کمپنیوں نے صارفین کو محدود سہولیات اور زیادہ قیمتوں کے ساتھ مایوس کیا۔ اگر یہی ماڈل الیکٹرک گاڑیوں کے لیے اپنایا گیا، یعنی صرف CBU، CKD یا SKD یونٹس کو درآمد کر کے مقامی طور پر جوڑا گیا، تو ملک کو نہ تو ٹیکنالوجی منتقل ہوگی اور نہ ہی روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت کا اہم فیصلہ، کیا الیکٹرک بائیکس سستے ہوجائیں گے؟
ایچ ایم شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ اصل فائدہ تب ہی ممکن ہے جب کمپنیاں مکمل مینوفیکچرنگ اور جامع لوکلائزیشن کی طرف آئیں، تاکہ ’میڈ ان پاکستان‘ الیکٹرک وہیکلز تیار ہوں۔ اس سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ ملک کی پیٹرول اور ڈیزل پر عالمی انحصار بھی کم ہوگا، جو موجودہ وقت میں درآمدی بل کا بڑا حصہ ہے۔
آٹو ایکسپرٹ شوکت قریشی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت اُس وقت ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب کمپنیاں چھوٹی، کم قیمت اور عام آدمی کی پہنچ میں آنے والی گاڑیاں متعارف کروائیں، ساتھ ہی بیٹری چارجنگ کی سہولیات کو آسان، سستی اور ہر جگہ دستیاب بنایا جائے۔
دوسری جانب حکومت کو بھی فوری طور پر اپنی ای وی (الیکٹرک وہیکل) پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ پاکستان میں ای وی شعبے کی ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی پالیسیاں ای وی کی ترقی کے مخالف رہی ہیں۔ ان پالیسیوں کے پیچھے ایندھن سے منسلک کاروباری مفادات اور اثر و رسوخ رکھنے والے طاقتور گروپس کا دباؤ شامل ہے، جو الیکٹرک ٹیکنالوجی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
آٹو انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایکسپرٹ فاروق پٹیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں کچھ مقامی کمپنیوں نے بھی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں کئی ادارے اب ’میڈ اِن پاکستان‘ الیکٹرک رکشہ اور بائیکس تیار کر رہے ہیں، جو مکمل طور پر مقامی پرزوں سے بن رہے ہیں۔
یہ رکشے اور بائیکس کم قیمت، ماحول دوست اور شہری ٹرانسپورٹ کے لیے ایک عملی حل ثابت ہو رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں ای وی کی مقامی تیاری ممکن اور مؤثر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹو انڈسٹری الیکٹرک وہیکلز ایچ ایم شہزاد اکبر پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آٹو انڈسٹری الیکٹرک وہیکلز ایچ ایم شہزاد اکبر الیکٹرک گاڑیوں الیکٹرک وہیکلز پاکستان میں آٹو انڈسٹری کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ملک میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے پاکستان کو حاصل ہونے والی حالیہ بین الاقوامی کامیابیوں کا کوئی فائدہ نہیں مل سکا۔ سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا۔ فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ملک میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے پاکستان کو حاصل ہونے والی حالیہ بین الاقوامی کامیابیوں کا کوئی فائدہ نہیں مل سکا۔ سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں کم ازکم بات چیت کا راستہ کھلے، شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتوں میں یہی نقطہ نظر انکے سامنے رکھا اور وہ بھی اس بات کے حامی ہیں کہ سیاسی ماحول بہتر ہونا چاہئے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ہماری اگلے ہفتے مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزرا اور مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات ہوگی۔ ہم انکے سامنے بھی یہی مدعا رکھیں گے کہ پاکستان میں سیاسی ماحول کو بہتر رکھنے کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ اس کیلئے اقدامات ہوں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ سیاسی قیدیوں کو ریلیف دے کر ماحول میں بہتری لائی جاسکتی ہے، شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں بغیر وجہ کے نہیں ہورہیں۔
انہوں نے کہا کہ اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر چیمہ، میاں محمود الرشید سمیت جتنے بھی سیاسی کارکن اور خواتین جیلوں میں قید ہیں ضمانت ملنا انکا حق ہے۔ جب یہ سب معاملات ہوں گے تو اس سے سیاسی فضا بہتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی کو ممکن بنانا ہمارا بنیادی کام ہے۔ فی الحال میں (فواد چوہدری)، عمران اسماعیل اور محمود مولوی مل رہے ہیں اور ہماری اگلی ملاقاتوں میں پی ٹی آئی کی سینئر لیڈر شپ بھی نظر آئے گی اور آپ دیکھیں گے کہ سیاسی ماحول بہتری کی طرف جائے گا۔