یونیورسٹی آف ایریزونا میں تاحیات معلم کے عہدے پر’لاریئٹ پروفیسر‘ کام کرنے والے معمر فلسفی نوم چومسکی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حالیہ برسوں میں تباہی کا پیمانہ جانچنے کیلئے بنائی گئی گھڑی ’ڈوُمس ڈے کلاک‘ تباہی کیلئے مقرر کیے گئے پوائنٹ کے قریب پہنچ چکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے خاتمے کیلئے آمادہ ہے۔
28 اپریل 2025 کی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والے نئے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں عالمی فوجی اخراجات 2718 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہزاروں ایٹمی بم موجود ہیں، جو کہ اس دنیا کو بار ہا ملیامیٹ کرنے یا تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔
دنیا کے مختلف حصوں میں چھوٹے بڑے مسائل موجود ہیں، کہیں پر بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ممکن بنایا جا رہا ہے تو کہیں بات جنگوں تک پہنچ گئی ہے۔
اور جنگوں کی بات کی جائے تو ایشیا اور ملحقہ ممالک ان جنگوں کا مرکز سالہاسال سے چلے آرہے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر مشرق وسطی کم از کم گذشتہ 3 سالوں سے جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔
یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پورا ایشیا مغرب زدہ جنگوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور یہ سلسلہ تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔
افغانستان، عراق، لبیا، شام، یمن، لبنان، ایران جہاں بھی جنگ کا کاروبار ہوتا نظر آتا ہے اس کے پیچھے یورپی یونین یا امریکا ضرور نظر آتا ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ آخر مغرب ہمیشہ جنگ کیلئے آمادہ کیوں نظر آتا ہے؟ ہمیشہ مغرب ہی مشرق پر حملہ آور کیوں ہوتا ہے اور اس سے مغرب کو کیا فائدہ ہے؟
اگر امریکا کی بات کی جائے تو امریکا اس وقت 2 قسم کی جنگوں سے دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک تجارتی جنگ اور دوسری جنگ کی تجارت پہلی جنگ میں امریکا نے دنیا کے کاروباری نظام کو اپنی خود سری اور خود پسندی کے بھینٹ چڑھایا اور دوسری جنگ یعنی جنگوں کی تجارت میں امریکہ نے ہتھیار بنا کر دنیا کو بیچنے کا دھندہ عروج پر پہنچایا اور جن علاقے یہ ہتھیار نہ خریدینے چاہیں ان پر پراکسی وار کے ذریعے جنگوں کو مسلط کیا گیا اور پھر دنیا کے قوانین کو پس پشت ڈال کر عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑا کر کئی ملکوں پر براہ راست حملے کئے اس کی تازہ مثال ایران ہے۔
ڈیفنس انڈسٹری یورپ کی ویب گاہ نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے لیَے گئے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں امریکا نے 318 بلین ڈالرسے زائد کا جنگی سازو سامان بیچا، جو 2023 کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ تھا۔
جس میں 23 بلین ڈالر کے ایف 16 ترکیہ کو ، 18 اعشاریہ 8 بلین ڈالر کے ایف 15 اسرائیل کو اور 2 اعشاریہ 5 بلین ڈالر کے ٹینک رومانیہ کو بیچےہیں۔
یہ صرف چند بڑی اعداد و شمار ہیں۔ شکاگو پالیسی رویو نامی تنظیم نے لکھا امریکہ دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار بیچنے والا ملک ہے۔
اب بات کرتے ہیں عالمی دنیا میں امریکہ کے مدمقابل چین کی، یوں تو چین نے گذشتہ سال 150 کے قریب ممالک کے ساتھ تجارت کی اور اپنے تعلقات بڑھائے۔
سی جی ٹی این پر جاری ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق چین نے بیرونی تجارت کے نئے محرکات کو زور و شور سے فروغ دیا ہے، جس سے اس شعبے میں اعلیٰ معیار کی ترقی کے ذریعے عالمی اقتصادی نمو کو تقویت ملی ہے۔
2024 میں، چین کی برآمدات کا حجم 25.
درآمدات کا حجم 18.39 کھرب یوآن (2.54 کھرب ڈالر) رہا، جس میں 2.3 فیصد کی شرح نمو ریکارڈ کی گئی، جو عالمی اوسط سے 1 فیصد زیادہ ہے۔
10 سال قبل صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے عام مباحثے میں اپنی تقریر میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ امن، ترقی، عدل، انصاف، جمہوریت اور آزادی تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار اور اقوام متحدہ کے بلند مقاصد ہیں۔
ہمیں تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار کو برقرار رکھنے اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، ایک مساوی، منظم اور کثیر القطبی دنیا کی تشکیل دینے، جامع اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اور دنیا کو امن، سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے روشن مستقبل کی طرف لے جایا جائے۔
صدر شی جن پھنگ کی زیر قیادت چین آج بھی دوطرفہ تجارت، باہمی ترقی اور کثیر الجہتی تعاون اور امن بقائے باہمی پر عمل پیرا ہے۔
ذرا دیر کو سوچئے کہ ہتھیاروں کی تجارت پر خرچ ہونے والا اگر آدھا پیسہ بھی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جاتا تو یہ دنیا یقینا امن کا گہوراہ بن جاتی۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کا سالانہ بجٹ 3.8 بلین ڈالر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی معیار کی ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرنے کیلئے ابتدائی طور پر 20 بلین ڈالر چاہیے ہوں گے۔
آپ خود انداز لگا سکتے ہیں کہ صرف 1 سال کے جنگی اخراجات سے سیکڑوں یونیورسٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چین بلین ڈالر کی تجارت جنگوں کی کے مطابق دنیا کو
پڑھیں:
پاکستان میں 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے کامیاب بولیاں منظور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: دو دہائیوں بعد پاکستان کے سمندری علاقوں میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے بڑی پیشرفت سامنے آگئی۔ پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق آف شور ایکسپلوریشن کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہو گئی ہیں۔
اعلامیے کے مطابق لائسنسز کے پہلے مرحلے میں تقریباً 80 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جبکہ ڈرلنگ کے دوران یہ سرمایہ کاری بڑھ کر 1 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن نے بتایا کہ 23 بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئیں، جو تقریباً 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمتِ عملی مؤثر ثابت ہوئی ہے، جو پاکستانی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
امریکی ادارے کی حالیہ اسٹڈی کے مطابق پاکستان کے سمندری علاقوں میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ تک گیس کے ممکنہ ذخائر موجود ہیں، اسی ممکنہ پوٹینشل کی بنیاد پر آف شور راؤنڈ 2025 کا آغاز کیا گیا تھا، جو اب کامیاب رہا ہے۔