Express News:
2025-09-28@07:27:40 GMT

سانحہ وادی سوات؛ حکومتی بے حسی کا نوحہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

گزشتہ دنوں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک پورا خاندان دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے اور ہماری نااہل حکومتی مشینری کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

دو گھنٹے... جی ہاں، پورے دو گھنٹے تک بے بس مرد، عورتیں اور معصوم بچے مدد کی ایک جھلک کو ترستے رہے۔ کسی کشتی کا کوئی پتہ نہیں، کسی ہیلی کاپٹر کی کوئی آہٹ نہیں۔ دریا کا شور بڑھتا گیا، اور انسانی چیخیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئیں۔ ریسکیو کا دو گھنٹے طویل انتظار، دراصل ایک اعتراف تھا کہ یہاں انسان کی قیمت ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیا واقعی اتنا دشوار تھا فوری مدد پہنچانا؟ یا ہماری ترجیحات نے انسانی زندگی کو فائلوں اور بجٹ کی گرد میں دفن کردیا ہے؟

اس دلخراش واقعے نے ہمیں بتا دیا کہ اگر آپ سیر و تفریح کی نیت سے کسی پہاڑ یا دریا کے کنارے جائیں، تو حفاظت صرف اور صرف اللہ کے سپرد ہے۔ حکومت کی طرف سے نہ کوئی تیاری، نہ کوئی نظام، نہ کوئی شرمندگی۔ یہ صرف ایک خاندان نہیں ڈوبا، یہ ہماری اجتماعی غفلت اور نااہلی بھی پانی میں بہہ گئی ۔افسوس کہ کسی کو اس کا دکھ بھی نہ ہوا۔

میرا اس برس ارادہ تھا کہ فلک بوس پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور شفاف فضاؤں کے دیس، گلگت بلتستان کا رخ کیا جائے۔ دل میں کئی خواب تھے، جنہیں شمال کی ہوا میں پروان چڑھانا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فیصل آباد سے اسلام آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مہانڈڑی کے مقام پر ناران جانے والا واحد پل، مرمت کی غرض سے چار دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ناران میں محصور سیاح واپسی کی راہیں تکتے، سڑکوں پر پریشان کھڑے تھے۔ اسی پل سے گزر کر ہی گلگت کی طرف جانا ممکن تھا۔ یوں گلگت بلتستان جانے کے ارمان دل میں ہی دفن کرنا پڑے اور ہنگامی طور پر متبادل پروگرام ترتیب دینا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام صرف چار دن کا تھا، تو سیاحت کے باقاعدہ سیزن سے قبل کیوں نہ نمٹایا گیا؟ میری طرح نجانے کتنے اور مسافر ہوں گے جنہوں نے چھٹیاں لے کر، وقت اور پیسہ لگا کر منصوبے بنائے ہوں گے اور پھر یوں بدنظمی کی ٹھوکریں کھائی ہوں گی۔ فیصل آباد سے اسلام آباد تک آنے والا ایک مسافر، جس نے سرکاری نوکری سے رخصت لے رکھی تھی، سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب وہ کہاں جائے؟ واپس کیسے لوٹے؟ اور کیوں؟

ہمارے سامنے دو راستے تھے: ایک سوات کی وادی، دوسرا کشمیر کا حسن۔ میں نے سوات کا انتخاب کیا۔ میں چار پانچ سال قبل بھی وہاں جاچکا تھا۔ چونکہ اس بار میرے ساتھ اہلِ خانہ بھی تھے، تو میں نے بہتر جانا کہ کسی مانوس مقام کا سفر اختیار کیا جائے۔ اور یہ بھی سوچا کہ حالات اب پہلے سے بہتر ہوں گے۔ کیونکہ حکومت سیاحت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، تو شاید اس بار تجربہ پہلے سے خوشگوار ہو۔

موٹروے پر سفر پرسکون رہا، اور پھر ہم سوات موٹروے سے گزرے، جو واقعی ایک خوبصورت شاہراہ ہے۔ مینگورہ تک کا سفر ہموار تھا، اور وہاں سے ہم نے مالم جبہ کا رخ کیا۔ مالم جبہ کی طرف بڑھتے ہوئے حیرانی تب ہوئی جب معلوم ہوا کہ اتنے مقبول سیاحتی راستے پر اکثر مقامات پر موبائل سگنلز ہی موجود نہیں۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں موبائل سگنل، سیاحوں کو سیفٹی کا احساس دلاتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں آپ اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ 

مالم جبہ سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر قبل ہی ہم ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ بارش نہ ہونے کے باعث موسم قدرے گرم تھا اور ہوٹل میں پنکھے کی ضرورت تھی۔ مگر پنکھے کی رفتار ایسی تھی گویا چل تو رہا ہے، مگر ہَوا دینے سے انکاری۔ استفسار پر بتایا گیا کہ مالم جبہ سمیت اس سارے علاقے میں لوڈ کا مسئلہ ہے، اور شاید رات بارہ بجے کے بعد بجلی معمول پر آئے۔ اتنی بڑی وادی، اور سیاحوں کا ہجوم، پھر بھی بجلی کا ایسا حال؟ ہے ناں حیرانی کی بات!
ہوٹل میں کوئی ریٹ لسٹ موجود نہ تھی، اور نہ ہی حکومت کی کوئی نگرانی۔ دکانداروں کو کھلی چھوٹ تھی کہ جتنا جی چاہے سیاحوں سے وصول کرلیا جائے۔

صبح ہوتے ہی ہم نے سامان گاڑی میں رکھا اور مالم جبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ نسبتاً بہتر تھا۔ چیئر لفٹ کا وقت صبح نو بجے تھا، اس لیے وقت پر پہنچے، لیکن دل تب دھک سے رہ گیا جب معلوم ہوا کہ چیئر لفٹ کی ٹکٹ 2 ہزار روپے فی فرد ہے!

بہت سے سیاح ایسے ہوتے ہیں جو بمشکل پانچ سات ہزار میں مالم جبہ کا ٹور مکمل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تو یہ قیمت ایک دھچکا ہے۔ بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل یہی ٹکٹ 1500 روپے تھی، جسے اسی سال بڑھا کر کے اب 2 ہزار پر لایا گیا ہے۔ کوئی اور مناسب تفریح نہ ہونے کے باعث یہ خرچ ہر سیاح کی مجبوری بن جاتا ہے۔ 

چیئر لفٹ سے پہاڑوں کا نظارہ، بلند فضاؤں میں معلق ہو کر قدرتی حسن کو دیکھنا، یقیناً ایک خوشگرار تجربہ ہے۔ وہاں سے نکلے اور کالام کا رخ کیا۔ کالام کا راستہ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ ہے ۔ بحرین سے آگے کئی مقامات پر سڑک انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب میں یہ سڑک بری طرح متاثر ہوئی تھی، اور آج تک اس کی مناسب مرمت نہیں ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ دو سال سے ’’سرپلس بجٹ‘‘ بنانے والی حکومت کو یہ سڑک کیوں نظر نہیں آتی؟ یہاں روز سیاح خوار ہورہے ہیں۔

سگنلز اور ریسکیو کی عدم موجودگی اور سیاحوں کی رہنمائی کےلیے ایک بورڈ تک کا نہ ہونا، یہ سب ایک بڑی کوتاہی ہے۔ جب معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے تو اس شعبے کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہی نہیں، حماقت ہے۔

کالام کا موسم قدرے خوشگوار تھا۔ ناہموار سڑک پر سفر کی تھکن اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہوٹل جاکر بس دریائے سوات کا شور سننا دل کو کافی سکون دے رہا تھا۔ ہوٹل دریا کے بالکل کنارے پر تھا، منظر بے حد خوبصورت تھا۔ مگر دل میں ایک خیال پیدا ہوا: اگر دریا جوش میں آیا تو؟

اگلی صبح ہم نے مہوڈنڈ جھیل کا رخ کیا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ حکومت اس سڑک کو بہتر بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ راستہ ابھی مکمل نہیں، مگر قابلِ سفر ضرور ہے۔ جھیل کا نظارہ قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، چوٹیوں سے لپٹتے بادل، اور ان کے درمیان ایک نیلا جادو، مہوڈنڈ جھیل۔ لیکن جب جھیل کے کنارے نگاہ گئی، تو جیسے سارا جادو غائب ہوگیا۔ پانی کے کنارے پھیلا کچرا، جیسے کسی نے قدرتی حسن پر بدنظمی کی سیاہی پھیر دی ہو۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں، حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں، ایک بورڈ تک نہیں۔

آخر سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی نہیں؟ اور اگر ہے، تو یہ سب کس دن کے لیے چھوڑ رکھا ہے؟ سڑکیں، سگنلز، صفائی، ریسکیو، یہ سب سیاحتی مقامات کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔

ڈوبنے والے اُس خاندان کا خیال بار بار دل میں آتا ہے۔ وہ معصوم چہرے، وہ بےبس آنکھیں، وہ لمحے جب انسان مدد کے لیے آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور زمین پر کوئی نہیں ہوتا۔

لیکن سوال یہ ہے .

.. جن حکومتوں سے پچھلے تین برس میں کالام کی دریا برد ہوجانے والی سڑک مرمت نہ ہوسکی، جن سے پورے ایک سال میں مہانڈری کا پل تعمیر نہ ہوسکا، ان سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ محض دو گھنٹوں میں ایک خاندان کو ڈوبنے سے بچا لیں گے؟

ایسے حالات میں بس یہی کہا جا سکتا ہے: إنا لله وإنا إليه راجعون
ہم اللہ کے لیے ہیں، اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا رخ کیا مالم جبہ کی طرف کے لیے

پڑھیں:

ہمارا ہدف ایشیا کپ کا ٹائٹل جیتنا ہے، سلمان علی آغا

قومی ٹی20 کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا نے کہا ہے کہ ہمارا ہدف ایشیا کپ کا ٹائٹل جیتنا ہے، تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ماضی میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات زیادہ کشیدہ رہے لیکن اس طرح کی مثال کرکٹ میں کبھی سامنے نہیں آئی۔

قومی ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا نے ایشیا کپ کے فائنل سے قبل دبئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہدف صرف اور صرف ٹائٹل جیتنا ہے، میدان میں اسی مقصد کے ساتھ اتریں گے، باہر لوگ کیا کہتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:محمد رضوان ٹی20 ٹیم کی کپتانی سے فارغ، نئے کپتان سلمان علی آغا ہوں گے، عاقب جاوید

سلمان علی آغا نے کہا کہ فائنل کے لیے پلینگ الیون کا فیصلہ پچ اور کنڈیشنز دیکھ کر ہوگا، چاہے فاسٹ باؤلرز کو کھلائیں یا اسپنرز کو، فیصلہ صورتحال کے مطابق ہی کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں آزادی حاصل ہے لیکن کسی کی توہین یا ملک کے وقار کے خلاف کوئی عمل برداشت نہیں ہوگا۔

ہینڈ شیک سے متعلق سوال پر کپتان نے واضح کیا کہ وہ 2007 سے پروفیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں اور آج تک کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ ٹیمیں ہاتھ نہ ملائیں۔ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات زیادہ کشیدہ رہے لیکن اس طرح کی مثال کرکٹ میں کبھی سامنے نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ گراؤنڈ کے باہر کیا ہورہا ہے وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں، چاہے میڈیا ہو یا کوئی اور، ہم صرف وہی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے بس میں ہے۔ باہر کوئی کچھ بھی بولے، ہمیں فرق نہیں پڑتا، ہمارا مقصد صرف ایشیا کپ جیتنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ فائنل: پاکستان کا بدلے کا عزم، بھارت کی ہیٹ ٹرک کی تیاری

بطور بیٹر سب کی ذمہ داری ہے کہ اچھی کرکٹ کھیلیں۔ سلمان علی آغا نے کہا کہ ہوسکتا ہے ہم نے اپنا بہترین کھیل فائنل کے لیے بچا رکھا ہو، کل سب دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپنی گیم پلان کے مطابق 40 اوورز تک کھیل گئے تو پاکستان کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتا ہے، انشاللہ کل پاکستان کو جیتتے ہوئے دیکھیں گے۔

ٹاس سے متعلق سوال پر کہا کہ اب تک کسی میچ میں ٹاس فیصلہ کن ثابت نہیں ہوا، کل بھی صورتحال یہی ہوگی۔ روایتی فوٹوشوٹ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنا پروٹوکول فالو کریں گے، اگر مخالف ٹیم آئے تو خوشی سے، نہ آئے تو بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

صائم ایوب کے بارے میں سلمان علی آغا نے کہا کہ وہ اگلے 10 سال پاکستان کی نمائندگی کرسکتے ہیں، اس طرح کے کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنا ضروری ہے۔ ان کی فیلڈنگ اور باؤلنگ سب نے دیکھی، بیٹنگ میں اب تک نہیں چمک سکے لیکن امید ہے فائنل میں کردار ضرور ادا کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news ایشیا کپ بھارت پاکستان سلمان علی آغا فائنل

متعلقہ مضامین

  • آئی پی پیز کے لیے حکومتی اور چینی کمپنیوں کا مسئلہ حل کیا جائے: لیاقت بلوچ
  • ڈیوجینز، سکندر اور سورج (دوسرا اور آخری حصہ)
  • ہمارا ہدف ایشیا کپ کا ٹائٹل جیتنا ہے، سلمان علی آغا
  • محمدﷺ کےنام پرگولی بھی کھاسکتے ہیں،رہنماسماج وادی پارٹی
  • ہم محمدﷺ کےنام پرگولی بھی کھاسکتے ہیں،رہنماسماج وادی پارٹی
  • سانحہ 9 مئی، جی ایچ کیو حملہ کیس میں آج عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونگے
  • ہم نے عمران خان کو کوئی ڈیل آفر نہیں کی، عقیل ملک
  • امریکا پاکستان سے کوئی مطالبہ نہیں کر رہا ہے، خواجہ آصف
  • گندم درآمد کا حکومتی اعلان قابل تشویش ہے، چوہدری ذوالفقار اولکھ
  • پی ٹی آئی کا 27ستمبر کا جلسہ کامیاب نہیں ہونا، اس کو کامیاب کرنے کیلئے وادی تیراہ واقعہ پر سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے،حسن ایوب کا تجزیہ