Express News:
2025-06-29@10:59:28 GMT

سانحہ وادی سوات؛ حکومتی بے حسی کا نوحہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

گزشتہ دنوں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک پورا خاندان دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے اور ہماری نااہل حکومتی مشینری کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

دو گھنٹے... جی ہاں، پورے دو گھنٹے تک بے بس مرد، عورتیں اور معصوم بچے مدد کی ایک جھلک کو ترستے رہے۔ کسی کشتی کا کوئی پتہ نہیں، کسی ہیلی کاپٹر کی کوئی آہٹ نہیں۔ دریا کا شور بڑھتا گیا، اور انسانی چیخیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئیں۔ ریسکیو کا دو گھنٹے طویل انتظار، دراصل ایک اعتراف تھا کہ یہاں انسان کی قیمت ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیا واقعی اتنا دشوار تھا فوری مدد پہنچانا؟ یا ہماری ترجیحات نے انسانی زندگی کو فائلوں اور بجٹ کی گرد میں دفن کردیا ہے؟

اس دلخراش واقعے نے ہمیں بتا دیا کہ اگر آپ سیر و تفریح کی نیت سے کسی پہاڑ یا دریا کے کنارے جائیں، تو حفاظت صرف اور صرف اللہ کے سپرد ہے۔ حکومت کی طرف سے نہ کوئی تیاری، نہ کوئی نظام، نہ کوئی شرمندگی۔ یہ صرف ایک خاندان نہیں ڈوبا، یہ ہماری اجتماعی غفلت اور نااہلی بھی پانی میں بہہ گئی ۔افسوس کہ کسی کو اس کا دکھ بھی نہ ہوا۔

میرا اس برس ارادہ تھا کہ فلک بوس پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور شفاف فضاؤں کے دیس، گلگت بلتستان کا رخ کیا جائے۔ دل میں کئی خواب تھے، جنہیں شمال کی ہوا میں پروان چڑھانا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فیصل آباد سے اسلام آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مہانڈڑی کے مقام پر ناران جانے والا واحد پل، مرمت کی غرض سے چار دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ناران میں محصور سیاح واپسی کی راہیں تکتے، سڑکوں پر پریشان کھڑے تھے۔ اسی پل سے گزر کر ہی گلگت کی طرف جانا ممکن تھا۔ یوں گلگت بلتستان جانے کے ارمان دل میں ہی دفن کرنا پڑے اور ہنگامی طور پر متبادل پروگرام ترتیب دینا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام صرف چار دن کا تھا، تو سیاحت کے باقاعدہ سیزن سے قبل کیوں نہ نمٹایا گیا؟ میری طرح نجانے کتنے اور مسافر ہوں گے جنہوں نے چھٹیاں لے کر، وقت اور پیسہ لگا کر منصوبے بنائے ہوں گے اور پھر یوں بدنظمی کی ٹھوکریں کھائی ہوں گی۔ فیصل آباد سے اسلام آباد تک آنے والا ایک مسافر، جس نے سرکاری نوکری سے رخصت لے رکھی تھی، سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب وہ کہاں جائے؟ واپس کیسے لوٹے؟ اور کیوں؟

ہمارے سامنے دو راستے تھے: ایک سوات کی وادی، دوسرا کشمیر کا حسن۔ میں نے سوات کا انتخاب کیا۔ میں چار پانچ سال قبل بھی وہاں جاچکا تھا۔ چونکہ اس بار میرے ساتھ اہلِ خانہ بھی تھے، تو میں نے بہتر جانا کہ کسی مانوس مقام کا سفر اختیار کیا جائے۔ اور یہ بھی سوچا کہ حالات اب پہلے سے بہتر ہوں گے۔ کیونکہ حکومت سیاحت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، تو شاید اس بار تجربہ پہلے سے خوشگوار ہو۔

موٹروے پر سفر پرسکون رہا، اور پھر ہم سوات موٹروے سے گزرے، جو واقعی ایک خوبصورت شاہراہ ہے۔ مینگورہ تک کا سفر ہموار تھا، اور وہاں سے ہم نے مالم جبہ کا رخ کیا۔ مالم جبہ کی طرف بڑھتے ہوئے حیرانی تب ہوئی جب معلوم ہوا کہ اتنے مقبول سیاحتی راستے پر اکثر مقامات پر موبائل سگنلز ہی موجود نہیں۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں موبائل سگنل، سیاحوں کو سیفٹی کا احساس دلاتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں آپ اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ 

مالم جبہ سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر قبل ہی ہم ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ بارش نہ ہونے کے باعث موسم قدرے گرم تھا اور ہوٹل میں پنکھے کی ضرورت تھی۔ مگر پنکھے کی رفتار ایسی تھی گویا چل تو رہا ہے، مگر ہَوا دینے سے انکاری۔ استفسار پر بتایا گیا کہ مالم جبہ سمیت اس سارے علاقے میں لوڈ کا مسئلہ ہے، اور شاید رات بارہ بجے کے بعد بجلی معمول پر آئے۔ اتنی بڑی وادی، اور سیاحوں کا ہجوم، پھر بھی بجلی کا ایسا حال؟ ہے ناں حیرانی کی بات!
ہوٹل میں کوئی ریٹ لسٹ موجود نہ تھی، اور نہ ہی حکومت کی کوئی نگرانی۔ دکانداروں کو کھلی چھوٹ تھی کہ جتنا جی چاہے سیاحوں سے وصول کرلیا جائے۔

صبح ہوتے ہی ہم نے سامان گاڑی میں رکھا اور مالم جبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ نسبتاً بہتر تھا۔ چیئر لفٹ کا وقت صبح نو بجے تھا، اس لیے وقت پر پہنچے، لیکن دل تب دھک سے رہ گیا جب معلوم ہوا کہ چیئر لفٹ کی ٹکٹ 2 ہزار روپے فی فرد ہے!

بہت سے سیاح ایسے ہوتے ہیں جو بمشکل پانچ سات ہزار میں مالم جبہ کا ٹور مکمل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تو یہ قیمت ایک دھچکا ہے۔ بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل یہی ٹکٹ 1500 روپے تھی، جسے اسی سال بڑھا کر کے اب 2 ہزار پر لایا گیا ہے۔ کوئی اور مناسب تفریح نہ ہونے کے باعث یہ خرچ ہر سیاح کی مجبوری بن جاتا ہے۔ 

چیئر لفٹ سے پہاڑوں کا نظارہ، بلند فضاؤں میں معلق ہو کر قدرتی حسن کو دیکھنا، یقیناً ایک خوشگرار تجربہ ہے۔ وہاں سے نکلے اور کالام کا رخ کیا۔ کالام کا راستہ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ ہے ۔ بحرین سے آگے کئی مقامات پر سڑک انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب میں یہ سڑک بری طرح متاثر ہوئی تھی، اور آج تک اس کی مناسب مرمت نہیں ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ دو سال سے ’’سرپلس بجٹ‘‘ بنانے والی حکومت کو یہ سڑک کیوں نظر نہیں آتی؟ یہاں روز سیاح خوار ہورہے ہیں۔

سگنلز اور ریسکیو کی عدم موجودگی اور سیاحوں کی رہنمائی کےلیے ایک بورڈ تک کا نہ ہونا، یہ سب ایک بڑی کوتاہی ہے۔ جب معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے تو اس شعبے کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہی نہیں، حماقت ہے۔

کالام کا موسم قدرے خوشگوار تھا۔ ناہموار سڑک پر سفر کی تھکن اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہوٹل جاکر بس دریائے سوات کا شور سننا دل کو کافی سکون دے رہا تھا۔ ہوٹل دریا کے بالکل کنارے پر تھا، منظر بے حد خوبصورت تھا۔ مگر دل میں ایک خیال پیدا ہوا: اگر دریا جوش میں آیا تو؟

اگلی صبح ہم نے مہوڈنڈ جھیل کا رخ کیا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ حکومت اس سڑک کو بہتر بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ راستہ ابھی مکمل نہیں، مگر قابلِ سفر ضرور ہے۔ جھیل کا نظارہ قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، چوٹیوں سے لپٹتے بادل، اور ان کے درمیان ایک نیلا جادو، مہوڈنڈ جھیل۔ لیکن جب جھیل کے کنارے نگاہ گئی، تو جیسے سارا جادو غائب ہوگیا۔ پانی کے کنارے پھیلا کچرا، جیسے کسی نے قدرتی حسن پر بدنظمی کی سیاہی پھیر دی ہو۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں، حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں، ایک بورڈ تک نہیں۔

آخر سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی نہیں؟ اور اگر ہے، تو یہ سب کس دن کے لیے چھوڑ رکھا ہے؟ سڑکیں، سگنلز، صفائی، ریسکیو، یہ سب سیاحتی مقامات کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔

ڈوبنے والے اُس خاندان کا خیال بار بار دل میں آتا ہے۔ وہ معصوم چہرے، وہ بےبس آنکھیں، وہ لمحے جب انسان مدد کے لیے آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور زمین پر کوئی نہیں ہوتا۔

لیکن سوال یہ ہے .

.. جن حکومتوں سے پچھلے تین برس میں کالام کی دریا برد ہوجانے والی سڑک مرمت نہ ہوسکی، جن سے پورے ایک سال میں مہانڈری کا پل تعمیر نہ ہوسکا، ان سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ محض دو گھنٹوں میں ایک خاندان کو ڈوبنے سے بچا لیں گے؟

ایسے حالات میں بس یہی کہا جا سکتا ہے: إنا لله وإنا إليه راجعون
ہم اللہ کے لیے ہیں، اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا رخ کیا مالم جبہ کی طرف کے لیے

پڑھیں:

سوات میں سیاحوں کی نہیں پی ٹی آئی کے نظام حکومت کی موت ہوئی، عطااللہ تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سوات میں سیاحوں کی نہیں پی ٹی آئی کے نظام حکومت کی موت ہوئی، یہ لوگ 12 سال میں ریسکیو کا ایک ادارہ نہ بنا سکے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سانحہ سوات پر صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنر کو معطل کیا ہے، حالانکہ معطل تو وزیراعلیٰ کو ہونا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں سانحہ سوات پر اجلاس، سیلاب کے دوران لائف جیکٹس اور رسیوں کی ترسیل کے لیے ڈرونز خریدنے کا فیصلہ

عطااللہ تارڑ نے کہاکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اڈیالہ میں بیس کیمپ بنا رکھا ہے، اور وہ اپنے صوبے میں جانے کے بجائے ورک فراہم اڈیالہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ سوات مین بچے چیخ و پکار کرتے رہے لیکن کوئی ان کی مدد کو نہ آیا، سیاحوں کے ڈوبنے کے اس واقعے پر پوری قوم دُکھی ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہاکہ عوام نے وزیراعلیٰ کو خدمت کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن ان کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہ لوگ اسلام آباد پر چڑھائی کرکے اہلکاروں کو شہید کرتے ہیں، علی امین کا کام ایسے لوگوں کو ڈنڈے فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے دور میں صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے، سوال یہ ہے کہ سوات میں سیاحوں کو ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر کیوں فراہم نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں فضل الرحمان جلد کے پی حکومت کا جنازہ پڑھائیں گے، جے یو آئی کا سانحہ سوات پر وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ

واضح رہے کہ گزشتہ روز سوات میں 15 سیاح دریا میں ڈوب گئے تھے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا، جس کے باعث صوبائی حکومت پر تنقید کی جارہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ڈپٹی کمشنر معطل سانحہ سوات علی امین گنڈاپور نظام حکومت کی موت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • سانحہ دریائے سوات کی وجہ حکومت خواب غفلت میں ہے‘ عظمیٰ بخاری
  • سانحہ دریائے سوات پر شوبز شخصیات بھی افسردہ، حکومتی نااہلی پر تنقید
  • ریسکیو نے ہماری کوئی مدد نہیں کی: سوات سانحہ میں زندہ بچنےوالےشہری کی گواہی
  • سانحہ سوات کا ذمہ دار کون؟ سیاح مدد کو پکارتے رہے بچایا کیوں نہیں جا سکا؟
  • سانحہ سوات پر ڈپٹی کمشنر کے بجائے وزیراعلیٰ کے پی کو معطل کیا جائے، عطا تارڑ
  • سانحہ سوات میں سیاحوں کی نہیں بلکے پی ٹی آئی کے نظام کی موت ہوئی ہے؛ عطا تارڑ
  • سانحہ سوات پر ڈی سی کے بجائے وزیر اعلی گنڈا پور کو معطل کیا جائے: عطا تارڑ
  • سوات میں سیاحوں کی نہیں پی ٹی آئی کے نظام حکومت کی موت ہوئی، عطااللہ تارڑ
  • سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم