Express News:
2025-08-13@21:48:33 GMT

سانحہ وادی سوات؛ حکومتی بے حسی کا نوحہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

گزشتہ دنوں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک پورا خاندان دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے اور ہماری نااہل حکومتی مشینری کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

دو گھنٹے... جی ہاں، پورے دو گھنٹے تک بے بس مرد، عورتیں اور معصوم بچے مدد کی ایک جھلک کو ترستے رہے۔ کسی کشتی کا کوئی پتہ نہیں، کسی ہیلی کاپٹر کی کوئی آہٹ نہیں۔ دریا کا شور بڑھتا گیا، اور انسانی چیخیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئیں۔ ریسکیو کا دو گھنٹے طویل انتظار، دراصل ایک اعتراف تھا کہ یہاں انسان کی قیمت ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیا واقعی اتنا دشوار تھا فوری مدد پہنچانا؟ یا ہماری ترجیحات نے انسانی زندگی کو فائلوں اور بجٹ کی گرد میں دفن کردیا ہے؟

اس دلخراش واقعے نے ہمیں بتا دیا کہ اگر آپ سیر و تفریح کی نیت سے کسی پہاڑ یا دریا کے کنارے جائیں، تو حفاظت صرف اور صرف اللہ کے سپرد ہے۔ حکومت کی طرف سے نہ کوئی تیاری، نہ کوئی نظام، نہ کوئی شرمندگی۔ یہ صرف ایک خاندان نہیں ڈوبا، یہ ہماری اجتماعی غفلت اور نااہلی بھی پانی میں بہہ گئی ۔افسوس کہ کسی کو اس کا دکھ بھی نہ ہوا۔

میرا اس برس ارادہ تھا کہ فلک بوس پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور شفاف فضاؤں کے دیس، گلگت بلتستان کا رخ کیا جائے۔ دل میں کئی خواب تھے، جنہیں شمال کی ہوا میں پروان چڑھانا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فیصل آباد سے اسلام آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مہانڈڑی کے مقام پر ناران جانے والا واحد پل، مرمت کی غرض سے چار دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ناران میں محصور سیاح واپسی کی راہیں تکتے، سڑکوں پر پریشان کھڑے تھے۔ اسی پل سے گزر کر ہی گلگت کی طرف جانا ممکن تھا۔ یوں گلگت بلتستان جانے کے ارمان دل میں ہی دفن کرنا پڑے اور ہنگامی طور پر متبادل پروگرام ترتیب دینا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام صرف چار دن کا تھا، تو سیاحت کے باقاعدہ سیزن سے قبل کیوں نہ نمٹایا گیا؟ میری طرح نجانے کتنے اور مسافر ہوں گے جنہوں نے چھٹیاں لے کر، وقت اور پیسہ لگا کر منصوبے بنائے ہوں گے اور پھر یوں بدنظمی کی ٹھوکریں کھائی ہوں گی۔ فیصل آباد سے اسلام آباد تک آنے والا ایک مسافر، جس نے سرکاری نوکری سے رخصت لے رکھی تھی، سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب وہ کہاں جائے؟ واپس کیسے لوٹے؟ اور کیوں؟

ہمارے سامنے دو راستے تھے: ایک سوات کی وادی، دوسرا کشمیر کا حسن۔ میں نے سوات کا انتخاب کیا۔ میں چار پانچ سال قبل بھی وہاں جاچکا تھا۔ چونکہ اس بار میرے ساتھ اہلِ خانہ بھی تھے، تو میں نے بہتر جانا کہ کسی مانوس مقام کا سفر اختیار کیا جائے۔ اور یہ بھی سوچا کہ حالات اب پہلے سے بہتر ہوں گے۔ کیونکہ حکومت سیاحت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، تو شاید اس بار تجربہ پہلے سے خوشگوار ہو۔

موٹروے پر سفر پرسکون رہا، اور پھر ہم سوات موٹروے سے گزرے، جو واقعی ایک خوبصورت شاہراہ ہے۔ مینگورہ تک کا سفر ہموار تھا، اور وہاں سے ہم نے مالم جبہ کا رخ کیا۔ مالم جبہ کی طرف بڑھتے ہوئے حیرانی تب ہوئی جب معلوم ہوا کہ اتنے مقبول سیاحتی راستے پر اکثر مقامات پر موبائل سگنلز ہی موجود نہیں۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں موبائل سگنل، سیاحوں کو سیفٹی کا احساس دلاتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں آپ اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ 

مالم جبہ سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر قبل ہی ہم ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ بارش نہ ہونے کے باعث موسم قدرے گرم تھا اور ہوٹل میں پنکھے کی ضرورت تھی۔ مگر پنکھے کی رفتار ایسی تھی گویا چل تو رہا ہے، مگر ہَوا دینے سے انکاری۔ استفسار پر بتایا گیا کہ مالم جبہ سمیت اس سارے علاقے میں لوڈ کا مسئلہ ہے، اور شاید رات بارہ بجے کے بعد بجلی معمول پر آئے۔ اتنی بڑی وادی، اور سیاحوں کا ہجوم، پھر بھی بجلی کا ایسا حال؟ ہے ناں حیرانی کی بات!
ہوٹل میں کوئی ریٹ لسٹ موجود نہ تھی، اور نہ ہی حکومت کی کوئی نگرانی۔ دکانداروں کو کھلی چھوٹ تھی کہ جتنا جی چاہے سیاحوں سے وصول کرلیا جائے۔

صبح ہوتے ہی ہم نے سامان گاڑی میں رکھا اور مالم جبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ نسبتاً بہتر تھا۔ چیئر لفٹ کا وقت صبح نو بجے تھا، اس لیے وقت پر پہنچے، لیکن دل تب دھک سے رہ گیا جب معلوم ہوا کہ چیئر لفٹ کی ٹکٹ 2 ہزار روپے فی فرد ہے!

بہت سے سیاح ایسے ہوتے ہیں جو بمشکل پانچ سات ہزار میں مالم جبہ کا ٹور مکمل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تو یہ قیمت ایک دھچکا ہے۔ بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل یہی ٹکٹ 1500 روپے تھی، جسے اسی سال بڑھا کر کے اب 2 ہزار پر لایا گیا ہے۔ کوئی اور مناسب تفریح نہ ہونے کے باعث یہ خرچ ہر سیاح کی مجبوری بن جاتا ہے۔ 

چیئر لفٹ سے پہاڑوں کا نظارہ، بلند فضاؤں میں معلق ہو کر قدرتی حسن کو دیکھنا، یقیناً ایک خوشگرار تجربہ ہے۔ وہاں سے نکلے اور کالام کا رخ کیا۔ کالام کا راستہ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ ہے ۔ بحرین سے آگے کئی مقامات پر سڑک انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب میں یہ سڑک بری طرح متاثر ہوئی تھی، اور آج تک اس کی مناسب مرمت نہیں ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ دو سال سے ’’سرپلس بجٹ‘‘ بنانے والی حکومت کو یہ سڑک کیوں نظر نہیں آتی؟ یہاں روز سیاح خوار ہورہے ہیں۔

سگنلز اور ریسکیو کی عدم موجودگی اور سیاحوں کی رہنمائی کےلیے ایک بورڈ تک کا نہ ہونا، یہ سب ایک بڑی کوتاہی ہے۔ جب معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے تو اس شعبے کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہی نہیں، حماقت ہے۔

کالام کا موسم قدرے خوشگوار تھا۔ ناہموار سڑک پر سفر کی تھکن اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہوٹل جاکر بس دریائے سوات کا شور سننا دل کو کافی سکون دے رہا تھا۔ ہوٹل دریا کے بالکل کنارے پر تھا، منظر بے حد خوبصورت تھا۔ مگر دل میں ایک خیال پیدا ہوا: اگر دریا جوش میں آیا تو؟

اگلی صبح ہم نے مہوڈنڈ جھیل کا رخ کیا۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ حکومت اس سڑک کو بہتر بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ راستہ ابھی مکمل نہیں، مگر قابلِ سفر ضرور ہے۔ جھیل کا نظارہ قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، چوٹیوں سے لپٹتے بادل، اور ان کے درمیان ایک نیلا جادو، مہوڈنڈ جھیل۔ لیکن جب جھیل کے کنارے نگاہ گئی، تو جیسے سارا جادو غائب ہوگیا۔ پانی کے کنارے پھیلا کچرا، جیسے کسی نے قدرتی حسن پر بدنظمی کی سیاہی پھیر دی ہو۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں، حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں، ایک بورڈ تک نہیں۔

آخر سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی نہیں؟ اور اگر ہے، تو یہ سب کس دن کے لیے چھوڑ رکھا ہے؟ سڑکیں، سگنلز، صفائی، ریسکیو، یہ سب سیاحتی مقامات کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔

ڈوبنے والے اُس خاندان کا خیال بار بار دل میں آتا ہے۔ وہ معصوم چہرے، وہ بےبس آنکھیں، وہ لمحے جب انسان مدد کے لیے آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور زمین پر کوئی نہیں ہوتا۔

لیکن سوال یہ ہے .

.. جن حکومتوں سے پچھلے تین برس میں کالام کی دریا برد ہوجانے والی سڑک مرمت نہ ہوسکی، جن سے پورے ایک سال میں مہانڈری کا پل تعمیر نہ ہوسکا، ان سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ محض دو گھنٹوں میں ایک خاندان کو ڈوبنے سے بچا لیں گے؟

ایسے حالات میں بس یہی کہا جا سکتا ہے: إنا لله وإنا إليه راجعون
ہم اللہ کے لیے ہیں، اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا رخ کیا مالم جبہ کی طرف کے لیے

پڑھیں:

اپنے اپنے مفادات کی سیاست

شاہ محمود قریشی نے جیل سے بانی پی ٹی آئی کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ خالی قرار دی گئی نشستوں کو الیکشن میں خالی نہ چھوڑیں بلکہ ان پر پی ٹی آئی کے خواہش مندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیں کیوں کہ جبر اور انتقام کے باوجود ہمیں سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے کیوں کہ الیکشن لڑنا ہی ہمارے سیاسی مفاد میں ہے۔

پی ٹی آئی رہنما اس سے قبل بھی بانی چیئرمین کو متعدد پیغامات بھیج چکے ہیں مگر لگتا ہے کہ سینئر رہنما کی نہیں سنی جا رہی۔ انھیں جیل سے کوئی جواب ملتا ہے اور نہ ہی ان کے شکوؤں پر توجہ دی جاتی ہے اور شاہ محمود قریشی سے کہیں جونیئر رہنما اور موجودہ عہدیداران بھی ان سے ملاقات کرنے آنا نہیں چاہتے اور سب جو سیاست میں نئے اور وکلا ہیں وہ بھی اپنے سینئر رہنماؤں کی کسی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی دو سال سے قید پارٹی کے سینئرزسے جیل میں جا کر ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کے موجودہ عہدیداروں کی اب پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں کہ وہ سینئر رہنماؤں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ وہ سب پی ٹی آئی سے تعلق کے باعث دو سال سے جیل بھگت رہے ہیں اور کوئی نیا رہنما ان کی رہائی کا بھی مطالبہ نہیں کرتا اور باقی جو صرف بانی چیئرمین کی رہائی کا ہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔

ان نئے رہنماؤں کو پارٹی میں کوئی نہیں جانتا اور یہ سب اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے اور میڈیا میں نظر آنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور بانی نے بھی مفت وکالت کے لیے انھیں اہم عہدے دے رکھے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کے لیے کوئی خدمات نہیں ہیں اور متعدد بانی کی وجہ سے اسمبلیوں میں بھی پہنچ چکے ہیں جن کا اپنا کوئی حلقہ انتخاب تک نہیں ہے مگر بانی کی مفت وکالت ہی ان کی پہچان ہے۔

جن نئے رہنماؤں نے کبھی کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا آج وہ پارٹی کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آج کی سیاست کا عوام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ آج ہر شخص صرف سیاسی مفاد کے لیے سیاسی پارٹی جوائن کرتا اور مختلف طریقے استعمال کرکے یا پارٹی کو فنڈز دے کر پارٹی قیادت کے سامنے اپنا مقام بناتا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دار ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اور قیادت بھی ایسے شخص کوپارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ایک ہیں اور کسی ایک کا بھی مثالی کردار نہیں ہے کیونکہ ملک میں سیاسی پارٹیاں ہی ایسا کرتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے ہر پارٹی سربراہ مفاد پرستوں کو ہی اہمیت دیتا ہے کیوں کہ پارٹی چلانا ہوتی ہے ‘ بڑے پیمانے پر عطیات دینے والے موجود ہیں۔

پی ٹی آئی ملک کی واحد پارٹی ہے جو 2013 میں صوبائی اور 2018 میں وفاقی اقتدار میں آئی اور اسے بڑا صوبہ فرمائش پر اکثریت نہ ہونے کے باوجود دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی میں اکثر لوگ کبھی اقتدار میں نہیں رہے اور نئے رہنما اور دوسری پارٹیوں کے لوگ اقتدار کے لیے ہی شامل ہوئے تھے جب کہ (ن) لیگ اور پی پی تین تین باریاں لے کر اپنوں کو نواز چکی تھیں۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے پہلی بار اقتدار میں آ کر خوب نوازا۔ بیرون ملک سے بھی اپنوں کو بلا کر حکومتی عہدوں سے نوازنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

پی ڈی ایم کے ذریعے اپنی آئینی برطرفی کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھرپور طور استعمال کیا اور 2024میں پی ڈی ایم کی نفرت میں عوام نے کامیابی بھی دلائی مگر سانحہ 9 مئی اور بانی کے مختلف اور متنازع بیانات اور ہٹ دھرمی کی سیاست انھیں اقتدار سے دور لے جا چکی ہے اور حالیہ سزاؤں اور احتجاجی تحریک میں مسلسل ناکامیوں کے باعث ہی غالباً ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے اور ضمنی الیکشن میں انھیں اپنی پارٹی کی ناکامی نظر آ رہی ہے۔ مفاد پرستوں کے لیے اب پی ٹی آئی میں کشش نظر نہیں آ رہی اور سیاسی مفاد پرستی کے لیے حکومتی پارٹیوں میں ہی جانے کو ترجیح دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کر دیا، آؤٹ لک ‘مستحکم’ قرار
  •   وادی ہنزہ کے گلمت گاؤں میں گلیشیئر پھٹنے سے تباہی، 50 افراد معجزانہ طور پر بچ گئے
  • وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سیاسی و سماجی کارکن سید عامر سہیل کا خصوصی انٹرویو
  • حکومتی کارکردگی پی ٹی آئی حکومت سے بہتر قرار، سروے
  • اپنے اپنے مفادات کی سیاست
  • انسداددہشتگردی عدالت لاہور نے سانحہ 9مئی کے 2مقدمات کا محفوظ فیصلہ سنا دیا
  • کاروباری اداروں کا حکومتی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
  • اترکاشی سانحہ: مودی حکومت کی نااہلی اور فوجی نقصانات چھپانے کی کوششیں بے نقاب
  • نیلم کلچرل فیسٹیول میں رنگا رنگ تقریبات، معرکہ حق کی جیت اور آزادی کا جشن
  • اترکاشی سانحہ: مودی راج کی نااہلی اور فوجی نقصانات چھپانے کی ناکام کوشش