پنجاب نصابی اتھارٹی کی سنگین غلطی: کیمسٹری کی کتاب میں دہلی کے لال قلعہ کی تصویر شائع
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
پنجاب ایجوکیشن کریکولم، ٹریننگ اینڈ اسیسمنٹ اتھارٹی (پیکٹا) کی جانب سے فرسٹ ایئر کی کیمسٹری کی نصابی کتاب میں ایک حیران کن غلطی سامنے آ گئی۔ ماحولیات کے باب میں سموگ کے اثرات بیان کرتے ہوئے شاہی قلعہ لاہور کی جگہ دہلی کے مشہور لال قلعہ کی تصویر شائع کر دی گئی۔
یہ تصویر کیمسٹری کی اس کتاب میں شامل ہے جسے سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ تصویر کے نیچے دہلی کے لال قلعہ کو شاہی قلعہ لاہور ہی لکھا گیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کے بارے میں مضمون میں مقامی سیاق و سباق کے بجائے بھارتی تاریخی ورثے کی تصویر شائع کرنے پر تعلیمی حلقوں اور ماہرین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پیکٹا حکام کی جانب سے تاحال اس غلطی پر کوئی باضابطہ وضاحت یا معذرت سامنے نہیں آئی۔
صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے کتاب میں غلط تصویر چھاپنے پر انکوائری کا حکم دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انکوائری کے بعد حقائق سامنے آنے پر کارروائی کریں گے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کتاب میں
پڑھیں:
محنت اور کمٹمنٹ
ایک تازہ مستند عالمی سروے کے مطابق: پاکستان میں75فیصد لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ہیں ۔ ایسے معاشرے اور سماج میں اگر کسی ضخیم ، بھاری بھر کم اور مہنگی کتاب کاایک سال سے بھی کم عرصے میں دوسرا ایڈیشن شائع ہو جائے تو اِسے باکمال اور قابلِ فخر معرکہ ہی کہا جانا چاہیے ۔ میرے ہاتھوں میں یہ کتاب یہی کہانی سنا رہی ہے ۔ مجھے چند ہفتے قبل یہ کتاب بذریعہ ڈاک ملی ۔ مصنف و مرتّب ومولّف نے از راہِ مہربانی خود ہی مجھے اپنی کتاب کا یہ انمول تحفہ ارسال فرمایا ہے ۔
اُن کا شکریہ۔ اِس ضخیم کتاب کا نام و عنوان ہے : مسئلہ قادیانیت۔ جمیل اطہر قاضی صاحب اِس کے مرتّب کنندہ ہیں ۔ زیر نظر یہ کتاب ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت ڈھائی ہزار روپے ۔ کتا ب کے پبلشر کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اِس کتاب کا پہلا ایڈیشن اکتوبر2024 میں شائع کیا گیا تھا اور جنوری2025 میں اِس کا دوسرا ایڈیشن چھاپا گیا ہے ۔ اِس دعوے کے پس منظر میں اگر راقم اِسے باکمال کتابی و علمی معرکہ کہتا ہے تو کیا یہ بے جا ہے؟
جناب جمیل اطہر قاضی، ہمارے ملک کے ممتاز اور بزرگ صحافی ہیں ۔ صحافتی سیاست اور منتخب صحافتی باڈیز کے’’قاضی‘‘ بھی رہے ہیں ۔ آج بھی ایک سے زائد اخبارات و جرائد کے مالک و مدیر ہیں ۔ وہ خود کو ’’سرہندی‘‘ بھی کہلاتے ہیں کہ تشکیلِ پاکستان سے چھ سال قبل سرہند ( آج بھارت کا حصہ) میں پیدا ہُوئے ۔
بارہ تیرہ سال کی عمر میں جیل یاترا کرنا پڑی ۔ صحافت بھی کرتے رہے اور عشق و محبت کا یہ فریضہ بھی جی جان سے ادا کرتے رہے ۔ کئی معروف قومی و علاقائی اخبارات کی نامہ نگاری و نمائندگی کرتے کرتے خود کئی اخبارات و جرائد کے مالک بن گئے۔ اِس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ جمیل اطہر قاضی سرہندی صاحب ہمارے ملک کے نہائت تجربہ کار ، سرد و گرم چشیدہ اور84سالہ بزرگ ترین صحافی ہیں ۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’’33سال کی عمر میں فریضہ حج ادا کرنے کا موقع ملا تو روضہ رسول ﷺپر حاضری کے دوران دعا کے لیے یہ الفاظ زبان سے ادا ہُوئے کہ باری تعالیٰ، مرنے سے پہلے کوئی ایسا کام کرنے کی توفیق عطا فرمانا جو روزِ قیامت حضور نبی کریم ﷺکی شفاعت کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائے ۔‘‘پھر کہتے ہیں یہ کتاب میری اِسی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ ہے ۔‘‘ ہماری دعا ہے کہ یہ ’’اشارہ‘‘ کتاب کے مرتّب کنندہ کے لیے کامل قبولیت کا باعث بن جائے ۔زیر نظر کتاب200سے زائد مضامین کا مجموعہ ہے ۔
اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتاب مرتّب کرنے کے لیے کتنے عرصے تک کتنی محنت کرنا پڑی ہوگی ۔ گویا یہ کتاب مرتبت کی ایمانی و مذہبی کمٹمنٹ کا مظہر بھی ہے ۔ موصوف اِس کتاب کے محض مرتّب کنندہ ہی نہیں ہیں ۔ اُنھوں نے خود بھی اِس میں قابلِ ذکر و قابلِ تحسین حصہ ڈالا ہے ۔ زیر نظر کتاب میں اُن کے اپنے لکھے گئے تقریباً ایک درجن وقیع مضامین شامل ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کتاب، مذکورہ موضوع پر، ایک مستند انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت اختیار کر گئی ہے تو یہ کہنا شائد مبالغہ نہ ہوگا ۔
زیر نظر کتاب کے مطالعہ کے دوران راقم کو یہ بات شدت سے کھٹکتی رہی کہ تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت کی طویل اور پُر آزما جدوجہد میں جن بریلوی علمائے کرام نے شاندار اور مرکزی کردار ادا کیا ، اُن کا ذکر نسبتاً کم کم ہے ۔ اِس ضمن میں اگر معروف صحافی اور پبلشر، جناب منیر احمد منیر، کی شائع کردہ کتاب (’’میں‘‘) کے کچھ صفحات بھی شاملِ کتاب کر دیے جاتے تو کافی ہوتا ۔ زیر نظر کتاب میں لاہور کی مسجد وزیر خان ،دارالعلوم نعیمیہ اور دارالعلوم حزب الاحناف کی رنگین تصاویر شائع کر دی گئی ہیں ۔ ایسی تاریخی اور معرکہ خیز کتاب میں کئی ایسے مضامین بھی شامل ہیں کہ جن کے لکھاریوں سے وابستہ یادوں سے دل و دماغ میں کئی حسین داستانیں اُبھر آئی ہیں ۔
مثال کے طور پر محترم مورّخ، محقق اور کئی کتابوں کے مصنف اہلِ حدیث عالم دین ، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرحوم و مغفور ۔ بھٹی صاحب کا لکھا مضمون ’’ مولانا عبدالرحیم اشرف۔‘‘ شامل کتاب ہے۔ یہ مضمون پڑھتے ہُوئے ہمیں بھٹی صاحب شدت سے یاد آتے رہے ۔ کئی برس تک اُن سے ہماری محبت و مودّت کا رشتہ قائم رہا ۔ میری گزارشات پر اسحاق بھٹی صاحب نے ہمارے اُن دونوں جرائد میں شاندار ، ذہن کشا اور تاریخی مضامین تحریر فرمائے جن جرائد میں ہم بطور صحافی ملازمت کررہے تھے ۔
اہلِ حدیث علمائے کرام میں بھٹی صاحب ایسا وسیع القلب اور وسیع الذہن عالمِ دین ہم نے کم کم دیکھا ہے ۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ کریم اُنہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں بلند مقام سے سرفراز فرمائے ۔ ہمارے دو سینئر صحافی دوستوں ( سعود ساحر مرحوم اور ادیب جاودانی مرحوم) کے مضامین بھی زیر نظر کتاب کی رونق اور وقعت میں اضافے کا سبب بنے ہیں ۔ سعود ساحر کے قلم سے 4صفحات پر مشتمل لکھا گیا ایک مضمون شاملِ کتاب ہے ۔ یہ مضمون بے حد اہم ہے ۔ کتاب کا اگر اشاریہ بھی ترتیب دے دیا جاتا تو بڑا مفید ہوتا ۔ اور اگر مضامین بارے یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ پہلے پہل یہ کہاں، کب اور کس جریدے یا اخبار میں شائع ہُوئے تو کتاب کی وقعت مزید بڑھ جاتی۔ مگر اِس محنت طلب کام سے گریز کیا گیا ہے ۔