وطن عزیز کو ہر سال یا تو پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے یا پھر ہر سال مون سون کے موسم میں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیشہ سے انسانی حیات کا تعلق پانی سے جڑا ہوا ہے اور اسی لیے دریاؤں، چشموں اور دیگر ذرائع آب کے قریب انسانی بستیاں آباد ہوتی رہی ہیں۔ تربیلا ڈیم 1976 میں بنا اور اس کے بعد کوئی بڑا ڈیم ملک میں نہ بن سکا اور یہیں سے ہماری بدقسمتی کی ابتدا ہوئی۔

خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں دنیا کا سب سے وسیع اور جدید نہری نظام موجود ہے۔ اور کبھی ہم زراعت کے نظام میں خود کفیل تھے، ماضی میں ہماری زراعت نے کافی ترقی کی۔ لیکن آج بدقسمتی سے دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ بنجرزمین کو زیر کاشت نہیں لایا جاسکتا، کیونکہ ہم نے اپنی نااہلی کی وجہ سے کوئی قابل ذکر پانی ذخیرہ کرنے کا پروجیکٹ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔

پاکستان اپنے آبی وسائل کا صرف 7 فیصد پانی ہی ذخیرہ کر پاتا ہے جو کہ پاکستان میں صرف 30 دن کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے برابر ہے۔ دوسرا پہلو سیلابی صورتحال کا ہے جس کا سامنا ہمارے دیہاتوں اور بڑے شہروں خصوصاً کراچی کو ہمشہ رہتا ہے۔ ملک عزیز میں زیادہ تر آبی گزرگاہوں میں ہونے والی تجاوزات ہی ان سیلابی ریلوں کی زد میں آتی ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد حکومت نے آئندہ سیلاب سے بچاؤ کےلیے دریاؤں کے کنارے پر تعمیرات پر پابندی سمیت متعدد حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا تھا مگر یہ اعلانات کاغذوں تک ہی محدود رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دریائے سوات اور دریائے راوی سمیت مختلف مقامات پر غیرقانونی تعمیرات پانی کے ریلوں میں بہہ گئیں، جس سے شدید جانی و مالی نقصان ہوا۔

پنجاب سمیت ملک کے تمام صوبوں میں بھی اس وقت یہی صورتحال ہے، جہاں دریاؤں کی گزرگاہوں پر غیرقانونی تعمیرات کی بھرمار ہے۔ ہر سال مون سون کے آغاز پر اس حوالے سے شور مچتا ہے، اجلاس ہوتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں لیکن جیسے ہی برسات کا موسم ختم ہوتا ہے، یہ سب وعدے اور منصوبے سرد خانے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت آبی گزرگاہوں میں موجود تجاوزات کے خلاف کارروائی میں واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اس حوالے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے۔ عوام کو بھی یہ شعور دینا ہوگا کہ دریا کے کنارے یا آبی راستوں میں تعمیرات خود کو خطرے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات پاکستان میں ایک بڑا ماحولیاتی اور انتظامی چیلنج بنتا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف آبی وسائل کو متاثر کررہا ہے بلکہ سیلاب جیسی قدرتی آفات کے خطرات میں بھی اضافہ کررہا ہے۔ دریائی علاقوں پر غیرقانونی قبضے اور تعمیرات نے نہ صرف ماحولیاتی توازن کو بگاڑا ہے بلکہ انسانی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ریاست کی مثال اس ماں کی طرح ہے جو شفقت بھی کرتی ہے اور اپنے بچوں کی تربیت کےلیے ڈانٹ ڈپٹ اور تھوڑی بہت سزا کا بھی اہتمام کرتی ہے تاکہ معاشرے میں ان کے گھر کو اچھی نظر سے دیکھا جائے اس وقت ہمارے ہاں دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات کی تین اقسام و اشکال موجود ہیں۔

1۔ رہائشی تجاوزات: قدرتی آبی گزرگاہوں اور دریائی راستوں پر غیرقانونی آبادیاں، سستے رہائشی یونٹس کی تعمیر، کچی آبادیوں کا پھیلاؤ

2۔ تجارتی و صنعتی تجاوزات: دریاؤں کے کناروں پر فیکٹریوں کا قیام، صنعتی فضلے کا براہ راست دریاؤں میں اخراج، غیرقانونی تجارتی مراکز کی تعمیر

3۔ زرعی تجاوزات: دریائی راستوں پر کاشتکاری، نہروں اور آبی گزرگاہوں پر غیرقانونی قبضے۔

وطن عزیز آج ان تجاوزات کے اثرات و نتائج دیکھ رہا ہے۔ قدرتی آفات اور سیلاب کی تباہ کاریاں انسان کی قدرت سے چھیڑ خانی کا نتیجہ ہیں۔ انسانی ہوس، لالچ اور قانون کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگوں نے دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے اتنی تجاوزات کھڑی کردی ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کا قدرتی بہاؤ بہت چھوٹا رہ گیا ہے۔ اب جب معمول سے تھوڑی زیادہ بارش ہوتی ہے، تو یہ آبی گزرگاہیں تو اپنا راستہ خود بنا لیتی ہیں اور پھر ساری تجاوزات کی تباہ کاریاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور چلاتے ہیں۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ آج ہم انسانی پیدا کردہ تجاوزات اور ترقی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ ہر سال آنے والی سیلابی صورتحال اور ماحولیاتی نظام کی تباہی نے ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا یہ سب قدرتی آفت ہے یا پھر ہماری اپنی پیدا کردہ تباہی؟

پاکستان میں دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات کی صورت حال خاصی سنگین ہے۔ بڑے شہروں کے ند ی نالوں اور دریائی علاقوں پر غیرقانونی قبضے عام ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے۔ سیاسی مداخلت، انتظامی کمزوری، اور عوامی لاپرواہی اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔ کراچی میں ایک وقت وہ تھا جب یہاں موسمی دریا (لیاری اور ملیر) اور چھوٹے بڑے ندی نالے اس شہر میں بارشوں کے دوران پوری آب و تاب کے ساتھ بہتے تھے اور اُن کے بہاؤ کو لوگ اپنی زندگی سمجھتے تھے۔ لیکن آج ہم نے ان موسمی دریاؤں اور ند ی نالوں میں سیوریج کا پانی ڈال دیا ہے ہماری حکومتوں کی یہ ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی حقیقتاً فطرت سے دشمنی مول لینے کے مترادف ہے۔

دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سنگین معاشرتی اور اقتصادی چیلنج ہے جس کے حل کےلیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے یعنی:
1.

حکومتی سطح پر مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
2. اداروں کے درمیان بہتر تعاون ضروری ہے۔
3. عوامی شعور اور شرکت لازمی ہے۔
4. طویل المدتی منصوبہ بندی اور مسلسل نگرانی ضروری ہے۔

حکومتی اداروں، سول سوسائٹی اور عوام کے باہمی تعاون سے ہی اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے اور آنے والی نسلوں کےلیے محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں آج حالات یہ ہیں کہ شاید ہی کوئی سڑک، دریا یا کوئی ندی نالے ہماری تجاوازات سے محفوظ ہوں، حتیٰ کہ ہم نے سمندر کو بھی نہیں بخشا۔ آج ان انسانی کاوشوں اور حکومتی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ماحول کے آلودہ ہونے کا منطقی نتیجہ آبی حیات اور آبی نظاموں کو نقصان، آبی ذخائر اور مہلک بیماریوں کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال تین ملین لوگ صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں روز افزوں ہوتی ماحولیاتی آلودگی نے حقیقت میں پاکستانیوں کےلیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔

یونائیٹڈ نیشن کے ذیلی ادارے UN- HABITAT PAKISTAN کی 2023 میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 195 ممالک کی فہرست میں پاکستان ماحولیاتی آلودگی میں بدترین ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو تقریباً 3.3 کھرب روپئے کا نقصان اٹھانا پڑا اور 80 لاکھ افراد کو سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے موحول کو آلودگی سے بچانا ہے تو ہمیں جنگی بنیادوں پر قانونی اور انتظامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ شہری اور دریائی علاقوں کے تحفظ کےلیے موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا۔ تجاوزات کا فوری خاتمہ کروانا ہوگا۔ قدرتی ماحول کی بقا کےلیے شاہراؤں، ریل کی پٹریوں، دریاؤں، ندی نالوں اور سمندر کے اطراف ہر قسم کی تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ صاف ستھرے ماحول کی بقا سے ہماری بقا مشروط ہے۔

اس کے علاوہ عوامی سطح پر آبی وسائل کے تحفظ کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تعلیم کو شامل کرنا اور میڈیا کے ذریعے عوامی شعور پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حکومتی ادارے ماحولیاتی نگرانی کےلیے ڈرون، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے تجاوزات، جنگلات، دریاؤں، ندی نالوں، اور حیاتیاتی تنوع کی بہتر نگرانی کرسکتے ہیں۔

عوام اور ہماری حکومتیں مل کر ماحول دوست پالیسیوں اور اجتماعی کوششوں سے ہی اپنے ماحول کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں۔ اور اگر ہم نے کوئی کوتاہی یا غفلت برتی تو اس کے نتائج ہماری آنے والی نسلوں کےلیے انتہائی مہلک ہوں گے۔ بارشیں ہوں یا ندی نالوں کا بہاؤ یہ سب فطرت کا سنگیت اور زندگی ہیں۔ لیکن آج لوگ بارشوں سے ڈرتے اور دریاؤں، ندی نالوں کے بہاؤ سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ڈر اور خوف لینڈ مافیا اور اندھی ترقی کے تصور کی وجہ سے عوام میں سرائیت کرگیا ہے۔ دریا اور ندی نالوں کا سیلابی بہاؤ ہمیں بار بار سبق دے رہا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنی حدود میں واپس چلیں جائیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات ا بی گزرگاہوں پاکستان میں کی وجہ سے قدرتی ا نے والی ا لودگی ہر سال اور اس

پڑھیں:

ماحولیاتی تباہی کا بوجھ ہم اٹھا رہے ہیں، قصور بڑے ممالک کا ہے، شہباز شریف

نیویارک:

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اور برازیل کے صدر کی جانب سے نیویارک میں منعقدہ اسپیشل کلائمیٹ ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کاربن گیسسز کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، ماحولیاتی تباہی کا بوجھ ہم اٹھا رہے ہیں جبکہ قصور بڑے ممالک کا ہے۔ 

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایسے وقت میں یہاں مخاطب ہیں جب پاکستان کو مون سون کی شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور تباہ کن سیلاب کی صورتحال درپیش ہے ،اس موسمیاتی آفت کی وجہ سے 50 لاکھ سے زائد افراد اور 4100 دیہات متاثر ہوئے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

2022ء میں بھی پاکستان کو سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس خود اس صورتحال کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہےلیکن ہم اپنے حصے سے کہیں زیادہ نقصانات اٹھا رہے ہیں ۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عالمی برادری آئندہ نسلوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔ 

انہوں نے ماحولیاتی تحفظ کیلئے پاکستان کے اقدامات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنے اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہا ہے ، بڑے پیمانے پر شجر کاری اور جنگلات لگائے جارہے ہیں ، مینگروز کے تحفظ کو یقینی بنایا جارہا ہے ،متبادل اور ماحول دوست پن بجلی ، شمسی اور نیوکلیئر توانائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کہ پاکستان کا ماحولیاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کا عزم پختہ اور غیر متزلزل ہے، پاکستان نے 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بغیر کسی شرط کے 15 فیصد کمی کا وعدہ کیا تھا۔ مجموعی 50 فیصد کمی کے ہدف کے تحت پاکستان پہلے ہی اپنے غیر مشروط 15 فیصد کمی کے وعدے کو پورا کر چکا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے انرجی مکس میں قابلِ تجدید توانائی کا حصہ اس وقت 32 فیصد سے زائد ہے۔ شمسی توانائی کی پیداوار 2021ء کے بعد سات گنا بڑھ چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نیشنل ایڈاپٹیشن پلان پر عمل درآمد ناکافی عالمی ماحولیاتی مالی معاونت کے باعث شدید طور پر متاثر ہو رہا ہے۔

وزیراعظم نے اعلان کیا کہ2035ء تک ملک کے انرجی مکس میں قابلِ تجدید اور پن بجلی کا حصہ بڑھا کر 62 فیصد تک کیا جائے گا،2030 تک جوہری توانائی کی صلاحیت میں 1200 میگاواٹ اضافہ کیا جائے گا،2030 ءتک 30 فیصد ٹرانسپورٹ کو صاف توانائی پر منتقل کیا جائے گا،ملک بھر میں 3 ہزار چارجر اسٹیشن قائم کیے جائیں گے،کلائمیٹ سمارٹ زراعت کو فروغ دیا جائے گا،پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا اور ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ آگے بڑھایا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے کلائمیٹ ایکشن کی ضرورت ہے،عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کمی کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے سماجی اور اقتصادی چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی ضرورت ہیں، عالمی ماحولیاتی کانفرنسز میں ہونے والے وعدوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا،متبادل توانائی ذرائع کو فروغ دیتے ہوئے گرین انرجی کی پالیسی اپنانا ہوگی،ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب سے مختلف خطوں میں لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماحول دوست ٹیکنالوجی اپناتے ہوئے کاربن گیسوں کا اخراج کم کیا جا سکتا ہے،متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کو عملی شکل دینا ہوگی،ماحولیاتی انصاف موجودہ دور کا اہم تقاضا ہے،کاربن گیسوں کے اخراج کی ذمہ داری بڑے ممالک کو لینا ہوگی۔

برازیل کے صدرلوئیزانیکیو لولا ڈیسلوا نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ملک صورتحال کے ذمہ دار ہیں، متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے اقدامات ناکافی ہیں،ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے وعدوں سے انحراف بھی ماحولیاتی مسائل کی ایک اہم وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ برازیل کاربن ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے،آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں، عملی اقدامات کے ساتھ ماحولیاتی انصاف یقینی بنانا ہوگا۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے چیلنجز ایک حقیقت ہیں،ترقی یافتہ ممالک کو کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے جامع اقدامات کرنے چاہئیں ، ماحول تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات کرنا ہوں گے، متبادل توانائی اور گرین انرجی کو فروغ دینا ہوگا،چین 2035ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 7 فیصد سے 10 فیصد تک کمی لائے گا۔

انہوں نے کہا کہ چین عالمی سطح پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے،چین نے ماحول دوست متبادل توانائی کو فروغ دیا ہے،پیرس معاہدے کے مطابق تمام فریقین کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ یورپی کمیشن کی صدر نے کہا کہ یورپی یونین نے گرین توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے،ماحول دوست ٹیکنالوجی کو ترجیح دی جا رہی ہے،یورپی یونین موسمیاتی تبدیلوں کے شعبے میں سب سے زیادہ فنڈز فرام کر رہی ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے کرہ ارض پر زندگی کو خطرات درپیش ہیں۔کلائمیٹ سمٹ میں موسمیاتی تبدیلوں کے بڑھتے ہوئے چیلنجز اور اجتماعی اقدامات سے متعلق تجاویز پر غور کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تباہی کا بوجھ ہم اٹھا رہے ہیں، قصور بڑے ممالک کا ہے، شہبازشریف
  • ماحولیاتی تباہی کا بوجھ ہم اٹھا رہے ہیں، قصور بڑے ممالک کا ہے، شہباز شریف
  • افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے؛ خواجہ آصف
  • سرکاری ملازمین کیلئے بڑی خوشخبری ،خیبرپختونخوا حکومت کا بلاسود قرضہ دینے کا فیصلہ
  • سوشل میڈیاکامنفی استعمال معاشرتی بگاڑ کاسبب ہے‘مقررین
  • عمران خان، بشری بی بی کو ازدواجی تعلقات کےلیے سہولت دینے کی درخواست پر جواب طلب
  • کمار سانو کی سابقہ اہلیہ نے گلوکار پر سنگین الزامات عائد کردیئے
  • لوئردیر،ضلعی انتظامیہ کے تحت تجاوزات کیخلاف آپریشن کیا جارہا ہے
  • ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ قرار