تاریخ میں پہلی بار انسانی دماغ کے خلیوں کا جامع نقشہ تیار، کونسی بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
سائنس دانوں نے ایک ایسے بین الاقوامی تحقیقی منصوبے میں سنگِ میل عبور کر لیا ہے جس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ انسانی دماغ کے مختلف اقسام کے خلیے ابتدائی جنینی مرحلے سے لے کر بلوغت تک کس طرح پیدا ہوتے اور ترقی کرتے ہیں۔
یہ تحقیق مستقبل میں آٹزم، شیزوفرینیا اور دیگر دماغی امراض کے علاج کے نئے راستے کھول سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کام کرنا ممکن بنالیا گیا
امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے برین اِنیشی ایٹو سیل اٹلس نیٹ ورک کے تحت ہونے والی اس تحقیق میں سائنس دانوں نے انسانی، چوہے اور جزوی طور پر بندر کے دماغوں پر کام کیا۔ انہوں نے دماغی خلیوں کی نشوونما، ان کے ارتقاء اور جینیاتی تبدیلیوں کا تفصیلی نقشہ تیار کیا۔
تحقیق کے مطابق، سائنس دانوں نے ان خلیوں کی نشاندہی کی جو دماغی عمل کے اہم جینز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس دوران انسانی اور حیوانی دماغ کے خلیوں میں مماثلتیں بھی سامنے آئیں، تاہم انسان کے دماغ کی کچھ منفرد خصوصیات بھی دریافت ہوئیں — جن میں پہلے سے نامعلوم خلیاتی اقسام بھی شامل ہیں۔
یہ نتائج معروف سائنسی جریدے نیچر اور اس سے وابستہ رسائل میں شائع کیے گئے ہیں۔ ایلن انسٹی ٹیوٹ کے دماغی سائنس دان اور تحقیق کی قیادت کرنے والے ہونگ کوئی زینگ نے کہا کہ ہمارے دماغ میں ہزاروں اقسام کے خلیے موجود ہیں جو مختلف خصوصیات اور افعال کے حامل ہیں، اور انہی کی باہمی کارکردگی جذبات، رویوں اور سوچ کے عمل کو جنم دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: خوشی، محبت و دیگر جذبات کے ہارمونز کونسے، یہ ہمارے دماغ پر کیسے حکومت کرتے ہیں؟
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ چوہے کے دماغ میں 5,000 سے زائد خلیاتی اقسام پائی جاتی ہیں، اور انسان میں ان کی تعداد کم از کم اتنی ہی یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
یوسی ایل اے کی نیوروسائنٹسٹ اپرنا بھدوری نے کہا کہ اب سائنس دانوں کے پاس انسانی دماغ کی ترقی کے مراحل کا ایک زیادہ تفصیلی نقشہ ہے، جو اس سے قبل ممکن نہ تھا۔
تحقیق کے مطابق یہ علم نہ صرف انسانی دماغ کی خصوصیات اور ذہانت کو سمجھنے میں مدد دے گا بلکہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی اور شیزوفرینیا کی جڑوں تک پہنچنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے: سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے خلیات سے چلنے والا کمپیوٹر تیار کرنے کی ٹھان لی
سائنس دانوں نے دماغ کے ان حصوں پر خصوصی توجہ دی جن میں نیوکورٹیکس (جہاں اعلیٰ درجے کی سوچ پیدا ہوتی ہے) اور ہائپو تھیلمس (جو جسم کا درجہ حرارت، نیند، بھوک، پیاس اور موڈ کنٹرول کرتا ہے) شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق انسانی دماغ میں خلیوں کی نشوونما کا عمل جانوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل ہوتا ہے، جو انسانی ذہنی ارتقاء کی ایک اہم خصوصیت ہے۔
اپرنا بھدوری کا کہنا تھا کہ ہمارا حتمی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ دماغ کی ترقی کے دوران کون سے عوامل اعصابی یا نفسیاتی بیماریوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ یہ تحقیق اس سمت میں ایک بڑی پیش رفت ہے، مگر اس منزل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیماری خلیے دماغ سائنس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خلیے دماغ کے دماغ کی کے دماغ
پڑھیں:
شمشال ویلی کی پہلی طبیب لعل پری
ہنزہ ویلی کے دور دراز گاوں شمشال میں برسوں تک سینکڑوں خواتین کی جانیں بچانے والی لعل پری آج خود کینسر کے مرض سے لڑ رہی ہیں۔ لعل پری ایک وقت ہنزہ کے نواحی علاقے میں واحد ڈاکٹر، نرس، دائی، ڈسپنسر اور ویکسینیٹر تھیں۔ مگر اب لعل پری خود 2002 سے برین ٹیومر کے مرض میں مبتلا ہے۔
ضلع ہنزہ کے گاؤں شمشال سے تعلق رکھنے والی لعل پری کی کہانی آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ایکس (ٹوئیٹر) صارف محمد عارف (@ArifRetd) نے اپنی پوسٹ میں اس حوالے سے لکھا،
’جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں۔ یہ محترمہ لعل پری ہے جو وادی ہنزہ کے دور دراز گاؤں شمشال کی واحد ڈاکٹر، نرس، دائی، ڈسپنسر، ویکسینیٹر اور مشیر صحت ہے۔ گاؤں میں کسی کو میڈیکل ایمرجنسی ہو تو لعل پری چوبیس گھنٹے حاضر ہوتی ہیں، پچھلے اٹھائیس سالوں میں ہر بچہ اسکے ہاتھوں پیدا ہوا، جب کسی کو گلگت کے زچہ بچہ ہسپتال لے جانا ہو تو محترمہ لعل پری ہمیشہ مریض کے ساتھ جاتی ہے اور یہ راستہ فور بائی فور جیپ پر 10 گھنٹے میں طے ہوتا ہے- اس گاؤں میں پچھلے 28 سالوں میں کوئی خاتون دوران زچگی فوت نہیں ہوئی۔ لعل کو صرف یہ خوف رہتا ہے کہ جب کسی مریض کے ساتھ شہر گئی ہوئی ہو تو پیچھے گاؤں میں کوئی ایمرجنسی نا ہو جائے، وہ کہتی ہے کہ الله نے اس گاؤں کی ساری ذمہ داری اس پر جو ڈالی ہوئی ہے‘-
ہم نے لعل پری کی اس کہانی کی تصدیق اور مزید معالومات کیلئے لعل پری کے شوہر قدرت علی سے رابطہ کیا۔
قدرت علی نے وی نیوز کو بتایا کہ میری زوجہ لعل پری نے 1988 میں ہنزی سے آغا خان ہیلتھ کیئر کے زیر اہتمام دائی کی ٹریننگ کی، پھر 1991 میں DHQ گلگت سے نرسنگ ایڈ کا کورس کیا، اور پھر 1992 میں ہی انہیں نے شمشال ڈسپینسری میں گورنمنٹ ملازمت شروع کی۔ لعل پری 1988 میں مڈوائفری کا کورس DHQ گلگت سے کیا، پھر 2000 میں پشاور ہیلتھ ٹریننگ سکول سے LHV کا کورس مکمل کیا۔
قدرت علی نے بتیا کہ لعل پری کے ساتھ اُن کی شادی 1987 میں ہوئی، شادی کے وقت لال پری کی عمر 15 سال، جبکہ قدرت علی کی عمر 18 سال تھی۔
قدرت علی نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں شروع میں فرسٹ ایڈ پوسٹ تھی، پھر ایک ڈسپینسری بنی، لال پری اسی ڈسپینسری میں ہی علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے 5 پانچ بیٹیاں اور 1 بیٹا ہے۔ جن میں 3 شادی شدہ جبکہ 3 غیر شادی شدہ ہیں۔
قدرت علی نے بتایا شمشال ویلی کی سڑک 2003 بنی، یہ دنیا کی خطرناک ترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے جو قراقرم ہائی وے پر پاسو گاؤں کے قریب سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑک بننے سے پہلے ہمیں اپنے گاؤں سے پاسو جانے کیلئے تقریباً 55 کلومیٹر کا راستہ 2 دنوں میں پیدل سفر کر کے طے کرنا پڑتا تھا، جبکہ واپسی میں یہی سفر چڑھائی اور مشکل رستوں کی وجہ سے 3 دنوں میں طے ہوتا تھا۔
قدرت علی نے کہا کہ لعل پری گاؤں میں زچہ و بچہ کیسز میں اپنی خدمات سر انجام دیتی تھیں۔اُس وقت ہمارے گاوں میں صحت کے سہولیات اور ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی کمزور اور محدود تھا، لعل پری ون مین آرمی کی طرح علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتی تھیں۔
قدرت علی نے اپنی زوجہ کے حوالے بتایا کہ لال پری کو 2002 میں برین ٹیومر ہوا ، جس کی وجہ سے انہوں نے گورنمنٹ جاب سے ریٹائرمنٹ لے لی، تب سے لیکر آج تک لال پری کا علاج جاری ہے۔ ابھی لال پری کی عمر 54 سال ہے، عمر اور بیماری کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی حالت قدرے کمزور ہے۔
56 سالہ قدرت علی نے بتایا کہ وہ خود ٹوورازم کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ وہ 1991 سے لیکر 2000 تک کلائمبر رہے، انہوں نے نانگا پربت، بروڈ پیک، جی ون اور جی ٹو کی چوٹیاں سَر کیے ہیں۔
وادی شمشال پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان ڈسٹرکٹ ہنزہ میں واقع ایک دُور افتادہ اور وسیع و عریض علاقہ ہے، جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔
شمال ویلی سطح سمندر سے تقریباً 3,100 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور یہ ضلع ہنزہ کی بلند ترین انسانی آبادی ہے۔ یہاں کے باشندے زیادہ تر وخی زبان بولتے ہیں، ضلع ہنزہ میں شرح خواندگی 95 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے۔
شمشال کو خصوصاً کوہ پیماؤں کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے، کیونکہ یہاں سے بہت سے نامور اور تجربہ کار کوہ پیماؤں کا تعلق ہے، ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بیگ، اور K2 کو 2 بار سر کرنے والے افضل علی کا تعلق بھی شمشال ویلی سے ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں