لانڈھی، ٹیکسٹائل فیکٹری میں لگنے والی آگ بے قابو، کئی گھنٹوں بعد بھی قابو نہ پایا جاسکا
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
لانڈھی داؤد چورنگی کے قریب ٹیکسٹائل مل کے ویئر ہاؤس میں لگنے والی آگ قابو ہوگئی جس پر کئی گھنٹوں کے باوجود بھی قابو نہ پایا جاسکا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لانڈھی داؤد چورنگی کے قریب ٹیکسٹائل مل کے گودام میں آگ بھڑکی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کی۔ آتشزدگی کے نتیجے میں بھاری مالیت کا دھاگہ، کپڑا اور دیگر سامان جل کر خاکستر ہوگیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 اور کے ایم سی فائر بریگیڈ کا عملہ موقع پر پہنچا اور آگ پر قابو پانے کی کوششیں شروع کیں۔
چیف فائر آفیسر ہمایوں خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ آگ کی اطلاع شام کو ملی جس پر ابتدائی طور پر 2 گاڑیاں روانہ کی گئی تاہم آگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے میں مزید فائر بریگیڈ کی گاڑیوں اور اسنار کل کو طلب کرلیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ آگ ٹیکسٹائل مل کے ویئر ہاؤس میں لگی تھی اور اس میں موجود دھاگے کے کونز ، کپڑا اور دیگر سامان جل کر خاکستر ہوگیا، آگ بجھانے کے عمل میں مجموعی طور پر 8 فائر ٹینڈرز ، 2 باؤزر اور اسنارکل نے حصہ لیا جبکہ واٹر کارپوریشن کی جانب سے ٹینکروں کی مدد سے پانی بھی فراہم کیا جاتا رہا ۔
مذکورہ ویئر ہاؤس تقریباً 2 ایکڑ کے رقبے پر قائم ہے جہاں فائر فائیٹرز نے 5 مختلف مقامات پر دیواریں اور دروازے توڑ کر آگ بجھانے کا عمل شروع کیا۔
انھوں نے کہا کہ آگ پر کب تک قابو پایا جا سکے گا کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم آگ کو مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ، آگ کے شعلے ویئر ہاؤس کے موجود ہیں اور ان پر قابو پانے کی کوششیں کی جاری ہیں۔
چیف فائر آفیسر نے بتایا کہ آگ لگنے کے واقعے میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ رات گئے آخری اطلاعات تک فائر بریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو پانے کی کوشسوں مصروف تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ویئر ہاؤس
پڑھیں:
امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔
شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟
یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔
شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔
شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز
شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔
شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔
فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔
کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔
امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان
امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔
شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟
ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔
حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟
ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔
تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔