WE News:
2025-09-28@06:24:21 GMT

کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

انڈیا کے معروف تاریخ دان اور دانشور رام چندر گوہا نے ایک مضمون میں سنگاپور میں کتابیں جمع کرنے کے شوقین ایک صاحب کے بارے میں بتایا ہے جو اپنے پاس موجود ہر کتاب کی دو کاپیاں رکھتے ہیں۔ ایک کو وہ جراثیم سے پوتر کرکے پولیتھین میں لپیٹ کر گردو غبار اور انسانی ہاتھوں کی دسترس سے دور تہہ خانے میں محفوظ کرتے ہیں۔ جبکہ کتاب کی دوسری کاپی بک شیلف میں رکھ دیتے ہیں جو ذاتی استعمال اور ان کے قابلِ بھروسہ دوستوں کی رسائی میں ہوتی ہے۔

رام چندر گوہا لکھتے ہیں کہ ان کے پاس نہ بینک بیلنس ہے نہ گھر میں اتنی جگہ کہ کتابوں کے شوق کی ایسی پیروی کر سکتے سو ان کے پاس ایک کے سوا سب کتابوں کی ایک کاپی ہے۔

وہ خاص الخاص کتاب ممتاز مارکسسٹ، تاریخ دان، سیاست دان اور دانشور سی ایل آر جیمز کی وقیع تصنیف ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ ہے جسے کرکٹ پر بہترین کتاب سمجھا جاتا ہے۔ گوہا کے پاس اس کتاب کے تین مختلف ایڈیشن ہیں۔

ایک کاپی پہلے ایڈیشن کی ہے جس کا گرد پوش دستبرد زمانہ سے بچا ہوا ہے۔ یہ بچوں کی پہنچ سے دور سب سے اوپر کے شیلف میں رکھی ہے۔ اسے وہ خود بھی مشکل سے ہاتھ لگاتے ہیں۔ دوسری کاپی کتاب کے پہلے پیپر بیک ایڈیشن کی ہے جس کی انہوں نے پرانی دلی کے ایک ماہر جلد ساز سے چمڑے کی جلد بندھوا رکھی ہے۔

یہ ان کے اپنے مطالعے کے لیے وقف ہے۔ اسے انہوں نے 1976 میں دلی میں ورلڈ بک فئیر سے خریدا تھا۔ اس کے بعد سے وہ ہر سال اسے ایک مرتبہ ضرور پڑھتے ہیں۔ اس کتاب کی تیسری کاپی نیو یارک سے شائع کردہ پیپر بیک ایڈیشن کی ہے جو صلائے عام کے لیے ہے۔

گوہا نے جس زمانے میں یہ مضمون لکھا تو اس وقت یہ ایک شاعر کے پاس تھی اور اس کے پڑھنے کے اگلے امیدوار حیدر آباد کے ایک سکالر اور کرکٹ کے رائٹر تھے۔

گوہا کا یہ مضمون ان کی کتاب ‘آخری لبرل اور دوسرے مضامین میں’، ‘بلیک از باونٹی فل: سی ایل آر جیمز ‘کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ کتاب 2004 میں دلی سے شائع ہوئی تھی۔

مذکورہ مضمون پر مزید بات سے پہلے گوہا کی مرتب کردہ شاندار کتاب ‘دا پکاڈر بک آف کرکٹ’ کا ذکر ضروری ہے جو گلزار کے لفظوں میں بند الماری کے شیشوں سے جھانک رہی ہے۔ جب بھی اس سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو اسے کھول کر گوہا کا کرکٹ کی کتابوں سے متعلق دلچسپ مضمون پڑھنے لگتا ہوں۔

اس سے ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ سے ان کا رشتہ مزید واضح ہوتا ہے۔ یہ کتاب انہوں نے کتب میلے سے چار روپے میں خریدی تھی ۔ اس سے پہلے وہ اسے کالج کی لائبریری سے ایشو کروا کر پڑھ چکے تھے۔ ان کا پہلا بچہ پیدا ہوا اور وہ اسپتال سے خالی گھر میں پہنچے تو اس بے پناہ شادمانی میں تسکین خاطر کے لیے انہوں نے ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ میں سے اپنا پسندیدہ باب پڑھ کر دم لیا۔

گوہا نے 1980 میں کلکتہ میں سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ پر کام شروع کیا تو وہ مارکسسٹ بن چکے تھے۔ کتابیں ذاتی ملکیت میں داخل تھیں اور اس واسطے چوری کے زمرے میں آتی تھیں۔ اس سے ہٹ کر کرکٹ اور دیگر کھیل عوام کو طبقاتی جدوجہد سے دور کرتے تھے۔

گوہا نے کرکٹ کی کتابیں ٹیلی گراف کلکتہ سے وابستہ نوجوان کرکٹ رائٹر کو 750 روپے میں دان کر دیں البتہ اس دیوانگی میں اتنی ہوش مندی ضرور دکھائی کہ جیمز کی کتاب اپنے لیے رکھ لی تھی۔

گوہا نے اپنی کتاب ‘دا کامن ویلتھ آف کرکٹ’ میں بتایا ہے کہ کرکٹ کی کتابوں سے نجات کے بعد خالی شیلف سوشیالوجی اور تاریخ کی کتابوں سے بھر گئے۔ میکس ویبر اور ای پی تھامپسن نے جیک فنگلٹن اور اے اے تھامسن کی جگہ لے لی۔ سال دو سال میں مارکسزم سے دامن چھڑا لیا اور کرکٹ کی محبت دوبارہ عود کر آئی۔

حیرانی کی بات ہے کہ مارکسزم سے قربت نے کرکٹ سے کیونکر دور کر دیا اور یہ بات نہ جانے ان کے ذہن میں کیوں نہیں آئی کہ جس کتاب پر وہ مر مٹے ہیں، اس کے مصنف سی ایل آر جیمز مرتے دم تک مارکسسٹ رہے لیکن انہوں نے کرکٹ سے محبت برقرار رکھی اور دونوں سے تعلق کو اجتماع ضدین نہیں سمجھا۔

بیونڈ اے باؤنڈری میں جیمز نے لکھا ہے کہ 1938 میں امریکا جانے کے بعد پندرہ سال تک کرکٹ میچ دیکھنے سے محروم رہے لیکن ٹیسٹ اور کاؤنٹی میچوں کے نتائج سے نیو یارک ٹائمز کے ذریعے باخبر رہتے تھے۔
‘ لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا’

اب تک ہم نے اس عظیم تصنیف سے گوہا کے ذاتی تعلق کی بات کی ہے اب اس کتاب کی اشاعت کی کہانی سناتے ہیں۔ 62-1961 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے پہلے باقاعدہ سیاہ فام کپتان فرینک وورل کی کپتانی میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تو اسے میدان کے اندر اور باہر بے مثال پذیرائی حاصل ہوئی اور یہ سیریز کرکٹ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ کی سنسنی خیزی کی وجہ سے تاریخ ساز بن گئی۔

ویسٹ انڈیز سیریز ہار گیا لیکن اس نے میزبان ٹیم کے شہریوں کا دل مٹھی میں کر لیا۔ اسے الوداع کہنے کے لیے میلبورن کی گلیوں میں ڈھائی لاکھ افراد امڈ آئے تھے۔ سی ایل آر جیمز کے لیے یہ خوشی کا لمحہ تھا کیوں کہ وورل کو کپتان بنوانے کی کوششوں میں وہ پیش پیش رہے تھے لیکن اسی موقعے پر ناشر کی طرف سے ان کی کتاب چھاپنے سے معذرت کی اطلاع سے ان کی خوشی کا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔

یہ بجلی ان پر ناشر کے مشیر اور معروف کرکٹ رائٹر جان آرلٹ کے خط نے گرائی تھی ۔گوہا کا کہنا ہے یہ ناشر کی طرف سے روایتی استردادی خط تھا جس میں زہر مٹھاس میں لیپ کر دیا جاتا ہے۔ آرلٹ نے لکھا: ’یہ بلاشبہ بڑی اچھی کتاب ہے لیکن ان دنوں اسٹار کھلاڑیوں کی یادوں یا پھر کبھی کبھار کارڈس کی کتابوں کے دیگر کتابوں کی فروخت مشکلات کا شکار ہے۔‘

آرلٹ نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر یہ ویسٹ انڈیز میں شائع ہو تو وہاں اسے قابلِ قدر حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔ جان آرلٹ کو کیا خبر تھی کہ یہ تصنیف کرکٹ پر بہترین کتاب کا درجہ حاصل کر لے گی اور اس کے سامنے جغادری مصنفین کی تصانیف کا رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔

کتاب کے مسترد ہونے کا جیمز کو رنج تھا۔ ان کی کتاب کا مسودہ آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور کرکٹ کے نامور لکھاری جیک فنگلٹن کے پاس تھا جنہوں نے جیمز کو تجویز کیا کہ اب وہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی سیریز کے بارے میں کچھ لکھ کر اسے کتاب کے آخری باب کے طور پر پیش کریں کیوں کہ فرینک وورل کی یہ کامیابی صرف ایک کامیاب کپتان اور ٹیم کے فرد کے طور پر ہی نہیں ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی ہے۔

یہ بات جیمز کے دل کو لگی اور انہوں نے اسے مان لیا۔ جیمز کے بیان کو جو وسعت درکار تھی اس کے لیے کھیل کے میدان سے باہر جانا ضروری تھا۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ یہ کتاب درماندہ سماج کی تاریخ بھی ہے۔

مصنف کے خیال میں یہ ماضی کے واقعات کا بیان ہے نہ ہی یہ خود نوشت ہے بلکہ کتاب یہ سوال قائم کرتی ہے۔
“What do they know of cricket who only cricket know?”
(جو صرف کرکٹ کے بارے میں جانتے ہیں، وہ کرکٹ کے بارے کیا جانتے ہوں گے)

اس سوال کا مفصل جواب اس کتاب سے فراہم ہو جاتا ہے۔ 1963 میں لندن سے یہ کتاب شائع ہوئی تو اس کا بھرپور خیر مقدم ہوا۔ اسے سراہنے والوں میں جان آرلٹ بھی شامل تھے۔ اشاعت سے لے کر اب تک اس کتاب کا تذکرہ اور اس کی تحسین کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔

گوہا کے مضمون سے اس کتاب سے متعلق دو منفرد باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو کرکٹ پر یہ پہلی کتاب تھی جس پر امریکا کے معروف اخبارات میں تبصرے ہوئے اور دوسرے مستقبل کے دو نوبیل انعام یافتہ ادیبوں وی ایس نائپال اور ڈیرک والکاٹ نے اسے سراہا تھا۔

والکاٹ نے نیو یارک ٹائمز میں اس کتاب پر تبصرے میں اس میں تاریخی اور ثقافتی تجزیے کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے لکھا کہ اس کتاب کی روشنی اتنی ہی شفاف ہے جتنے گرمیوں کے دنوں میں کھیل کے وقت ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں میں یہ کتاب ہر لکھاری کو لازمی پڑھنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا یہ نو آبادیاتی دور کی تاریخ ہے جس میں اس کی چیرہ دستیوں، محرومیوں اور تکبر کا بیان ہے۔ ڈیرک والکاٹ کا تبصرہ کتاب کے پہلے امریکی ایڈیشن کی اشاعت پر تھا جبکہ نائپال نے 1963 میں کتاب کی اشاعتِ اول کے بعد ‘انکاؤنٹر ‘ میں اس پر تبصرہ کیا تھا۔

نائپال اور سی ایل آر جیمز کے درمیان خط کتابت بھی ہوتی تھی۔ وہ ایک دوسرے کی تحریروں کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے تھے۔ جن دنوں ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ نائپال کے زیر مطالعہ تھی اور اس پر وہ تبصرے کا ارادہ رکھتے تھے تو اس وقت بھی ان کے درمیان مراسلت رہی۔ ایک خط میں جیمز نے نائپال کی ژرف بینی کی تعریف کی کیونکہ انہوں نے کتاب کو بڑی دقت نظر سے دیکھا تھا۔

جیمز اور نائپال میں گاڑھی چھنتی تھی، دونوں کے درمیان تبادلہ خیالات ہوتا، اکٹھے وقت گزارتے، ٹیسٹ میچ دیکھتے، ایک دوسرے کی لکھت پر بے لاگ رائے دیتے، لیکن رفتہ رفتہ ان میں فکری اور ذاتی سطح پر دوریاں بڑھ گئیں۔

جیمز کے خلاف نائپال کا کینہ ظاہر ہو کر رہا جس کے لیے انہوں نے فکشن کا سہارا لیا۔ رام چندر گوہا کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ نائپال نے جیمز کے انتقال کے پانچ سال بعد اپنے ناول ‘اے وے ان دی ورلڈ’ میں فکشنی کردار کے طور پر ان کی غیر ہمدردانہ تصویر پیش کی ہے۔

بائیں بازو کا ایسا مفکر جو اسٹالن کا مداح اور مشرقی جرمنی کا حامی ہے اور مغرب کی محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھ کر بھولے بھالے نوجوانوں کو بھڑکاتا ہے۔ جب فرخ دھونڈی نے ان سے پوچھا کہ جیمز تو اسٹالن اور اس کی مشرقی یورپ میں قائم کردہ حکومتوں کا سخت مخالف تھا تو نائپال نے کہا کہ اس نے تو بس کسی حد تک ہی جیمز کے کردار کو پیش کیا ہے۔

رام چندر گوہا نے لکھا کہ ناول نگار آزاد ہیں کہ حقیقی زندگی سے کردار اٹھائیں اور اس کو جیسا چاہیں روپ دے ڈالیں۔ ان کے لیے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ نائپال نے اس کردار کو اپنے ناول میں پیش کرنے کے لیے جیمز کے مرنے کا انتظار کیا۔

گوہا کی دانست میں یہ خباثت کے ساتھ ساتھ خاص طرح کی بزدلی بھی ہے کہ اس آدمی کا کیری کیچر بنایا جائے جو جواب دینے کے لیے موجود ہی نہ ہو۔ گوہا کو شاید علم نہیں ہے کہ نائپال کی کمینگی صرف مردوں سے مخصوص نہیں تھی وہ زندوں کا مردہ بھی خراب کر سکتے تھے۔

جیتے جاگتے محسن کی بھد اڑانے میں بھی انہیں عار نہ تھی۔ اس کی ایک مثال نامور پاکستانی مصنف احمد رشید ہیں۔

رام چندر گوہا نے فکشن میں نائپال کے سفلے پن کے بارے میں لکھا ہے تو ایک ممتاز پاکستانی دانشور اقبال احمد نے نائپال کے نان فکشن ‘بیونڈ بلیف’ میں ان کے چھوٹے پن کا بتایا ہے۔ اقبال احمد نے نائپال کو نسل پرست مستشرق قرار دیا جو دوستوں کو کاٹ کھاتا ہو۔

اقبال احمد نے ڈیوڈ بریسمین کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ نائپال نے ‘بیونڈ بلیف’ میں شہباز کے روپ میں احمد رشید کو دکھایا ہے۔ ان کے بقول: ’احمد رشید حماقت کی حد تک فیاض شخص ہے۔ اس نے نائپال کے کام میں مدد دینے کے لیے اپنے بہت سے کام چھوڑ دیے۔ نائپال نے اس کا کیری کیچر بنا کر اس کا حساب برابر کر دیا ہے۔ اس نے اس کا نام بدل دیا ہے لیکن صرف اس طرح کہ ہر پڑھا لکھا پاکستانی احمد رشید کو پہچان لے گا اور ایک مردم خور سے دوستی کرنے پر اس سے ہمدردی کرے گا۔‘

(بحوالہ ‘سامراج کے مقابل’، اقبال احمد کے تین انٹرویو، ڈیوڈ بریسمین، ترجمہ: حمید جہلمی)

اقبال احمد کا کہنا تھا نائپال کو ہر لیفٹیسٹ سے نفرت ہے اس لیے احمد رشید کو اس نے نشانہ بنایا۔ اس بات سے سی ایل آر جیمز کی ذات سے اس کے عناد کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے جو لیفٹ کے عالمی شہرت یافتہ دانشور تھے۔

گوہا نے جیمز کو ایسا جہاں گرد انقلابی قرار دیا ہے جن کی تگ و تاز کا دائرہ تین براعظموں تک پھیلا ہوا تھا اور اس اعتبار سے ان کا موازنہ ہوچی منہ اور ایم این رائے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ جیمز کی معروف کتاب دی بلیک جیکوبین (1938) کو گوہا نے ‘کلاسیک آف سوشل ہسٹری ‘ قرار دیا ہے۔

ہرمن میلول پر ان کی تنقیدی کتاب کی بھی وہ تعریف کرتے ہیں۔ اس لیے جیمز کی علمی و عملی زندگی کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ پر ایسی شاہکار کتاب سی ایل آر جیمز جیسا چومکھی ذہن رکھنے والا درد مند سکالر ہی لکھ سکتا تھا جو گوہا کے لفظوں میں محبت اور احتیاط سے تخلیق کی گئی ہے اور علم کی مختلف شاخوں کا ذائقہ اس میں موجود ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

سی ایل آر جیمز کرکٹ کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سی ایل آر جیمز کرکٹ بیونڈ اے باؤنڈری سی ایل آر جیمز بہترین کتاب کے بارے میں ویسٹ انڈیز اقبال احمد نائپال کے کی کتابوں نے نائپال شائع ہوئی ایڈیشن کی انہوں نے نے لکھا شائع ہو ہے لیکن جیمز کی کرکٹ کے اس کتاب کرکٹ پر یہ کتاب کی کتاب جیمز کے کتاب کی کتاب کے کرکٹ کی دیا ہے اور اس کے پاس میں یہ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پاکستانی گالفر کی بہترین کھیل کا مظاہرہ، سری لنکن امیچور ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

134ویں سری لنکن امیچور گالف چیمپئن شپ میں پاکستان کے نوجوان گالفر سعد حبیب نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کر لی ہے۔

سیمی فائنل میں سعد حبیب نے میزبان ملک کے کھلاڑی ریشان الگاما کو شکست دی۔ سولہویں ہول تک پہنچتے پہنچتے وہ چار اسٹروک کی برتری حاصل کر چکے تھے اور اسی برتری نے انہیں کامیابی دلا دی۔

اس میچ میں سعد حبیب نے نہ صرف اعتماد کے ساتھ کھیل پیش کیا بلکہ اپنی صلاحیتوں سے بھی سب کو متاثر کیا۔ ساتویں ہول پر ان کا شاندار ایگل دیکھنے لائق تھا، جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے چار برڈیز اسکور کر کے اپنی برتری کو مزید مستحکم بنایا۔ ان کی بہترین حکمت عملی اور درستگی نے انہیں سیمی فائنل میں ناقابل شکست بنا دیا۔

اب فائنل میں سعد حبیب کا مقابلہ سری لنکا کے ہی گالفر چناکا پریرا سے ہوگا۔ یہ میچ 36 ہولز پر مشتمل ہوگا جو کھلاڑیوں کی تکنیک، برداشت اور مستقل مزاجی کا بڑا امتحان ثابت ہوگا۔

پاکستانی شائقین کھیل کے اس اہم لمحے پر اپنے نوجوان گالفر کی کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔ اگر سعد حبیب فائنل میں بھی اسی اعتماد اور مہارت کے ساتھ کھیل پیش کرتے ہیں تو یہ جیت پاکستان کے لیے ایک یادگار اعزاز ثابت ہوسکتی ہے۔

ویب ڈیسک شیخ یاسین

متعلقہ مضامین

  • دعویٰ نہیں کر سکتا  پاکستان میں بہترین جمہوریت ہے، خواجہ آصف 
  • پاکستانی گالفر کی بہترین کھیل کا مظاہرہ، سری لنکن امیچور ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ گئے
  • پاکستان کی بات اس وقت دنیا سن رہی ہے، یہ بہترین وقت ہے. مشاہد حسین سید
  • پاکستان کی بات اس وقت دنیا سن رہی ہے، پاکستان کیلئے یہ بہترین وقت ہے: مشاہد حسین سید
  • دعوی نہیں کر سکتا پاکستان میں بہترین جمہوریت ہے . خواجہ آصف
  • سیٹ 1C زندگی اور موت کے درمیانی لمحے کی علامت ہے، طیارہ حادثے میں بچ جانے والے ظفر مسعود کی کہانی
  • سابق ایف بی آئی چیف پر فرد جرم عائد کردی گئی
  • بیرون ملک پاکستانیوں کو عزت و بہترین سہولیات فراہم کرنا اولین ذمہ داری ہے، اسحاق ڈار
  • نیا جیمز بانڈ 007 کون ہوگا ؟ میکرز کو نئے چہرے کی تلاش