WE News:
2025-11-12@14:46:03 GMT

کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

انڈیا کے معروف تاریخ دان اور دانشور رام چندر گوہا نے ایک مضمون میں سنگاپور میں کتابیں جمع کرنے کے شوقین ایک صاحب کے بارے میں بتایا ہے جو اپنے پاس موجود ہر کتاب کی دو کاپیاں رکھتے ہیں۔ ایک کو وہ جراثیم سے پوتر کرکے پولیتھین میں لپیٹ کر گردو غبار اور انسانی ہاتھوں کی دسترس سے دور تہہ خانے میں محفوظ کرتے ہیں۔ جبکہ کتاب کی دوسری کاپی بک شیلف میں رکھ دیتے ہیں جو ذاتی استعمال اور ان کے قابلِ بھروسہ دوستوں کی رسائی میں ہوتی ہے۔

رام چندر گوہا لکھتے ہیں کہ ان کے پاس نہ بینک بیلنس ہے نہ گھر میں اتنی جگہ کہ کتابوں کے شوق کی ایسی پیروی کر سکتے سو ان کے پاس ایک کے سوا سب کتابوں کی ایک کاپی ہے۔

وہ خاص الخاص کتاب ممتاز مارکسسٹ، تاریخ دان، سیاست دان اور دانشور سی ایل آر جیمز کی وقیع تصنیف ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ ہے جسے کرکٹ پر بہترین کتاب سمجھا جاتا ہے۔ گوہا کے پاس اس کتاب کے تین مختلف ایڈیشن ہیں۔

ایک کاپی پہلے ایڈیشن کی ہے جس کا گرد پوش دستبرد زمانہ سے بچا ہوا ہے۔ یہ بچوں کی پہنچ سے دور سب سے اوپر کے شیلف میں رکھی ہے۔ اسے وہ خود بھی مشکل سے ہاتھ لگاتے ہیں۔ دوسری کاپی کتاب کے پہلے پیپر بیک ایڈیشن کی ہے جس کی انہوں نے پرانی دلی کے ایک ماہر جلد ساز سے چمڑے کی جلد بندھوا رکھی ہے۔

یہ ان کے اپنے مطالعے کے لیے وقف ہے۔ اسے انہوں نے 1976 میں دلی میں ورلڈ بک فئیر سے خریدا تھا۔ اس کے بعد سے وہ ہر سال اسے ایک مرتبہ ضرور پڑھتے ہیں۔ اس کتاب کی تیسری کاپی نیو یارک سے شائع کردہ پیپر بیک ایڈیشن کی ہے جو صلائے عام کے لیے ہے۔

گوہا نے جس زمانے میں یہ مضمون لکھا تو اس وقت یہ ایک شاعر کے پاس تھی اور اس کے پڑھنے کے اگلے امیدوار حیدر آباد کے ایک سکالر اور کرکٹ کے رائٹر تھے۔

گوہا کا یہ مضمون ان کی کتاب ‘آخری لبرل اور دوسرے مضامین میں’، ‘بلیک از باونٹی فل: سی ایل آر جیمز ‘کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ کتاب 2004 میں دلی سے شائع ہوئی تھی۔

مذکورہ مضمون پر مزید بات سے پہلے گوہا کی مرتب کردہ شاندار کتاب ‘دا پکاڈر بک آف کرکٹ’ کا ذکر ضروری ہے جو گلزار کے لفظوں میں بند الماری کے شیشوں سے جھانک رہی ہے۔ جب بھی اس سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو اسے کھول کر گوہا کا کرکٹ کی کتابوں سے متعلق دلچسپ مضمون پڑھنے لگتا ہوں۔

اس سے ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ سے ان کا رشتہ مزید واضح ہوتا ہے۔ یہ کتاب انہوں نے کتب میلے سے چار روپے میں خریدی تھی ۔ اس سے پہلے وہ اسے کالج کی لائبریری سے ایشو کروا کر پڑھ چکے تھے۔ ان کا پہلا بچہ پیدا ہوا اور وہ اسپتال سے خالی گھر میں پہنچے تو اس بے پناہ شادمانی میں تسکین خاطر کے لیے انہوں نے ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ میں سے اپنا پسندیدہ باب پڑھ کر دم لیا۔

گوہا نے 1980 میں کلکتہ میں سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ پر کام شروع کیا تو وہ مارکسسٹ بن چکے تھے۔ کتابیں ذاتی ملکیت میں داخل تھیں اور اس واسطے چوری کے زمرے میں آتی تھیں۔ اس سے ہٹ کر کرکٹ اور دیگر کھیل عوام کو طبقاتی جدوجہد سے دور کرتے تھے۔

گوہا نے کرکٹ کی کتابیں ٹیلی گراف کلکتہ سے وابستہ نوجوان کرکٹ رائٹر کو 750 روپے میں دان کر دیں البتہ اس دیوانگی میں اتنی ہوش مندی ضرور دکھائی کہ جیمز کی کتاب اپنے لیے رکھ لی تھی۔

گوہا نے اپنی کتاب ‘دا کامن ویلتھ آف کرکٹ’ میں بتایا ہے کہ کرکٹ کی کتابوں سے نجات کے بعد خالی شیلف سوشیالوجی اور تاریخ کی کتابوں سے بھر گئے۔ میکس ویبر اور ای پی تھامپسن نے جیک فنگلٹن اور اے اے تھامسن کی جگہ لے لی۔ سال دو سال میں مارکسزم سے دامن چھڑا لیا اور کرکٹ کی محبت دوبارہ عود کر آئی۔

حیرانی کی بات ہے کہ مارکسزم سے قربت نے کرکٹ سے کیونکر دور کر دیا اور یہ بات نہ جانے ان کے ذہن میں کیوں نہیں آئی کہ جس کتاب پر وہ مر مٹے ہیں، اس کے مصنف سی ایل آر جیمز مرتے دم تک مارکسسٹ رہے لیکن انہوں نے کرکٹ سے محبت برقرار رکھی اور دونوں سے تعلق کو اجتماع ضدین نہیں سمجھا۔

بیونڈ اے باؤنڈری میں جیمز نے لکھا ہے کہ 1938 میں امریکا جانے کے بعد پندرہ سال تک کرکٹ میچ دیکھنے سے محروم رہے لیکن ٹیسٹ اور کاؤنٹی میچوں کے نتائج سے نیو یارک ٹائمز کے ذریعے باخبر رہتے تھے۔
‘ لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا’

اب تک ہم نے اس عظیم تصنیف سے گوہا کے ذاتی تعلق کی بات کی ہے اب اس کتاب کی اشاعت کی کہانی سناتے ہیں۔ 62-1961 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے پہلے باقاعدہ سیاہ فام کپتان فرینک وورل کی کپتانی میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تو اسے میدان کے اندر اور باہر بے مثال پذیرائی حاصل ہوئی اور یہ سیریز کرکٹ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ کی سنسنی خیزی کی وجہ سے تاریخ ساز بن گئی۔

ویسٹ انڈیز سیریز ہار گیا لیکن اس نے میزبان ٹیم کے شہریوں کا دل مٹھی میں کر لیا۔ اسے الوداع کہنے کے لیے میلبورن کی گلیوں میں ڈھائی لاکھ افراد امڈ آئے تھے۔ سی ایل آر جیمز کے لیے یہ خوشی کا لمحہ تھا کیوں کہ وورل کو کپتان بنوانے کی کوششوں میں وہ پیش پیش رہے تھے لیکن اسی موقعے پر ناشر کی طرف سے ان کی کتاب چھاپنے سے معذرت کی اطلاع سے ان کی خوشی کا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔

یہ بجلی ان پر ناشر کے مشیر اور معروف کرکٹ رائٹر جان آرلٹ کے خط نے گرائی تھی ۔گوہا کا کہنا ہے یہ ناشر کی طرف سے روایتی استردادی خط تھا جس میں زہر مٹھاس میں لیپ کر دیا جاتا ہے۔ آرلٹ نے لکھا: ’یہ بلاشبہ بڑی اچھی کتاب ہے لیکن ان دنوں اسٹار کھلاڑیوں کی یادوں یا پھر کبھی کبھار کارڈس کی کتابوں کے دیگر کتابوں کی فروخت مشکلات کا شکار ہے۔‘

آرلٹ نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر یہ ویسٹ انڈیز میں شائع ہو تو وہاں اسے قابلِ قدر حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔ جان آرلٹ کو کیا خبر تھی کہ یہ تصنیف کرکٹ پر بہترین کتاب کا درجہ حاصل کر لے گی اور اس کے سامنے جغادری مصنفین کی تصانیف کا رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔

کتاب کے مسترد ہونے کا جیمز کو رنج تھا۔ ان کی کتاب کا مسودہ آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور کرکٹ کے نامور لکھاری جیک فنگلٹن کے پاس تھا جنہوں نے جیمز کو تجویز کیا کہ اب وہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی سیریز کے بارے میں کچھ لکھ کر اسے کتاب کے آخری باب کے طور پر پیش کریں کیوں کہ فرینک وورل کی یہ کامیابی صرف ایک کامیاب کپتان اور ٹیم کے فرد کے طور پر ہی نہیں ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی ہے۔

یہ بات جیمز کے دل کو لگی اور انہوں نے اسے مان لیا۔ جیمز کے بیان کو جو وسعت درکار تھی اس کے لیے کھیل کے میدان سے باہر جانا ضروری تھا۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ یہ کتاب درماندہ سماج کی تاریخ بھی ہے۔

مصنف کے خیال میں یہ ماضی کے واقعات کا بیان ہے نہ ہی یہ خود نوشت ہے بلکہ کتاب یہ سوال قائم کرتی ہے۔
“What do they know of cricket who only cricket know?”
(جو صرف کرکٹ کے بارے میں جانتے ہیں، وہ کرکٹ کے بارے کیا جانتے ہوں گے)

اس سوال کا مفصل جواب اس کتاب سے فراہم ہو جاتا ہے۔ 1963 میں لندن سے یہ کتاب شائع ہوئی تو اس کا بھرپور خیر مقدم ہوا۔ اسے سراہنے والوں میں جان آرلٹ بھی شامل تھے۔ اشاعت سے لے کر اب تک اس کتاب کا تذکرہ اور اس کی تحسین کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔

گوہا کے مضمون سے اس کتاب سے متعلق دو منفرد باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو کرکٹ پر یہ پہلی کتاب تھی جس پر امریکا کے معروف اخبارات میں تبصرے ہوئے اور دوسرے مستقبل کے دو نوبیل انعام یافتہ ادیبوں وی ایس نائپال اور ڈیرک والکاٹ نے اسے سراہا تھا۔

والکاٹ نے نیو یارک ٹائمز میں اس کتاب پر تبصرے میں اس میں تاریخی اور ثقافتی تجزیے کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے لکھا کہ اس کتاب کی روشنی اتنی ہی شفاف ہے جتنے گرمیوں کے دنوں میں کھیل کے وقت ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں میں یہ کتاب ہر لکھاری کو لازمی پڑھنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا یہ نو آبادیاتی دور کی تاریخ ہے جس میں اس کی چیرہ دستیوں، محرومیوں اور تکبر کا بیان ہے۔ ڈیرک والکاٹ کا تبصرہ کتاب کے پہلے امریکی ایڈیشن کی اشاعت پر تھا جبکہ نائپال نے 1963 میں کتاب کی اشاعتِ اول کے بعد ‘انکاؤنٹر ‘ میں اس پر تبصرہ کیا تھا۔

نائپال اور سی ایل آر جیمز کے درمیان خط کتابت بھی ہوتی تھی۔ وہ ایک دوسرے کی تحریروں کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے تھے۔ جن دنوں ‘بیونڈ اے باؤنڈری’ نائپال کے زیر مطالعہ تھی اور اس پر وہ تبصرے کا ارادہ رکھتے تھے تو اس وقت بھی ان کے درمیان مراسلت رہی۔ ایک خط میں جیمز نے نائپال کی ژرف بینی کی تعریف کی کیونکہ انہوں نے کتاب کو بڑی دقت نظر سے دیکھا تھا۔

جیمز اور نائپال میں گاڑھی چھنتی تھی، دونوں کے درمیان تبادلہ خیالات ہوتا، اکٹھے وقت گزارتے، ٹیسٹ میچ دیکھتے، ایک دوسرے کی لکھت پر بے لاگ رائے دیتے، لیکن رفتہ رفتہ ان میں فکری اور ذاتی سطح پر دوریاں بڑھ گئیں۔

جیمز کے خلاف نائپال کا کینہ ظاہر ہو کر رہا جس کے لیے انہوں نے فکشن کا سہارا لیا۔ رام چندر گوہا کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ نائپال نے جیمز کے انتقال کے پانچ سال بعد اپنے ناول ‘اے وے ان دی ورلڈ’ میں فکشنی کردار کے طور پر ان کی غیر ہمدردانہ تصویر پیش کی ہے۔

بائیں بازو کا ایسا مفکر جو اسٹالن کا مداح اور مشرقی جرمنی کا حامی ہے اور مغرب کی محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھ کر بھولے بھالے نوجوانوں کو بھڑکاتا ہے۔ جب فرخ دھونڈی نے ان سے پوچھا کہ جیمز تو اسٹالن اور اس کی مشرقی یورپ میں قائم کردہ حکومتوں کا سخت مخالف تھا تو نائپال نے کہا کہ اس نے تو بس کسی حد تک ہی جیمز کے کردار کو پیش کیا ہے۔

رام چندر گوہا نے لکھا کہ ناول نگار آزاد ہیں کہ حقیقی زندگی سے کردار اٹھائیں اور اس کو جیسا چاہیں روپ دے ڈالیں۔ ان کے لیے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ نائپال نے اس کردار کو اپنے ناول میں پیش کرنے کے لیے جیمز کے مرنے کا انتظار کیا۔

گوہا کی دانست میں یہ خباثت کے ساتھ ساتھ خاص طرح کی بزدلی بھی ہے کہ اس آدمی کا کیری کیچر بنایا جائے جو جواب دینے کے لیے موجود ہی نہ ہو۔ گوہا کو شاید علم نہیں ہے کہ نائپال کی کمینگی صرف مردوں سے مخصوص نہیں تھی وہ زندوں کا مردہ بھی خراب کر سکتے تھے۔

جیتے جاگتے محسن کی بھد اڑانے میں بھی انہیں عار نہ تھی۔ اس کی ایک مثال نامور پاکستانی مصنف احمد رشید ہیں۔

رام چندر گوہا نے فکشن میں نائپال کے سفلے پن کے بارے میں لکھا ہے تو ایک ممتاز پاکستانی دانشور اقبال احمد نے نائپال کے نان فکشن ‘بیونڈ بلیف’ میں ان کے چھوٹے پن کا بتایا ہے۔ اقبال احمد نے نائپال کو نسل پرست مستشرق قرار دیا جو دوستوں کو کاٹ کھاتا ہو۔

اقبال احمد نے ڈیوڈ بریسمین کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ نائپال نے ‘بیونڈ بلیف’ میں شہباز کے روپ میں احمد رشید کو دکھایا ہے۔ ان کے بقول: ’احمد رشید حماقت کی حد تک فیاض شخص ہے۔ اس نے نائپال کے کام میں مدد دینے کے لیے اپنے بہت سے کام چھوڑ دیے۔ نائپال نے اس کا کیری کیچر بنا کر اس کا حساب برابر کر دیا ہے۔ اس نے اس کا نام بدل دیا ہے لیکن صرف اس طرح کہ ہر پڑھا لکھا پاکستانی احمد رشید کو پہچان لے گا اور ایک مردم خور سے دوستی کرنے پر اس سے ہمدردی کرے گا۔‘

(بحوالہ ‘سامراج کے مقابل’، اقبال احمد کے تین انٹرویو، ڈیوڈ بریسمین، ترجمہ: حمید جہلمی)

اقبال احمد کا کہنا تھا نائپال کو ہر لیفٹیسٹ سے نفرت ہے اس لیے احمد رشید کو اس نے نشانہ بنایا۔ اس بات سے سی ایل آر جیمز کی ذات سے اس کے عناد کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے جو لیفٹ کے عالمی شہرت یافتہ دانشور تھے۔

گوہا نے جیمز کو ایسا جہاں گرد انقلابی قرار دیا ہے جن کی تگ و تاز کا دائرہ تین براعظموں تک پھیلا ہوا تھا اور اس اعتبار سے ان کا موازنہ ہوچی منہ اور ایم این رائے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ جیمز کی معروف کتاب دی بلیک جیکوبین (1938) کو گوہا نے ‘کلاسیک آف سوشل ہسٹری ‘ قرار دیا ہے۔

ہرمن میلول پر ان کی تنقیدی کتاب کی بھی وہ تعریف کرتے ہیں۔ اس لیے جیمز کی علمی و عملی زندگی کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ پر ایسی شاہکار کتاب سی ایل آر جیمز جیسا چومکھی ذہن رکھنے والا درد مند سکالر ہی لکھ سکتا تھا جو گوہا کے لفظوں میں محبت اور احتیاط سے تخلیق کی گئی ہے اور علم کی مختلف شاخوں کا ذائقہ اس میں موجود ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

سی ایل آر جیمز کرکٹ کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سی ایل آر جیمز کرکٹ بیونڈ اے باؤنڈری سی ایل آر جیمز بہترین کتاب کے بارے میں ویسٹ انڈیز اقبال احمد نائپال کے کی کتابوں نے نائپال شائع ہوئی ایڈیشن کی انہوں نے نے لکھا شائع ہو ہے لیکن جیمز کی کرکٹ کے اس کتاب کرکٹ پر یہ کتاب کی کتاب جیمز کے کتاب کی کتاب کے کرکٹ کی دیا ہے اور اس کے پاس میں یہ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہمارے زمانے میں اکثر بڑے اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے کہنے کے باوجود مطالعہ نہیں کرتے۔ لیکن عام طور پر یہ شکایت 15، 20 سال کے ’’بچوں‘‘ کے بارے میں کی جاتی ہے اور شکایت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے 8، 10 سال کی عمر تک بن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ سامنے آتا ہے وہ بچپن کی تفصیل ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مطالعے کا شوقین بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو 4، 5 سال کی عمر سے پڑھنے والا بنانا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 4، 5 سال کی عمر کے بچوں کو پڑھنے والا کیسے بنایا جاسکتا ہے۔؟

‎بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے؟ — شاہنواز فار وقی ہمارے زمانے میں اکثر بڑے اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے کہنے کے باوجود مطالعہ نہیں کرتے۔ لیکن عام طور پر یہ شکایت 15، 20 سال کے ’’بچوں‘‘ کے بارے میں کی جاتی ہے اور شکایت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے 8، 10 سال کی عمر تک بن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ سامنے آتا ہے وہ بچپن کی تفصیل ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مطالعے کا شوقین بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو 4، 5 سال کی عمر سے پڑھنے والا بنانا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 4، 5 سال کی عمر کے بچوں کو پڑھنے والا کیسے بنایا جاسکتا ہے۔؟ اس مسئلے کا تمام روایتی تہذیبوں باالخصوص اسلامی تہذیب نے ایک زبردست حل تلاش کیا ہوا تھا اور وہ یہ کہ پڑھنے والوں کو پہلے ’’سننے والا‘‘ بنائو۔ یعنی Reader کو پہلے Listener کے ’’مرتبے‘‘ پر فائز کرو۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ہند اسلامی تہذیب نے اس کی ابتدائی صورت یہ پیدا کی تھی کہ بچوں کو شیرخوارگی کی عمر سے طرح طرح کی ’’لوریاں‘‘ سنائی جائیں۔ مثلاً ایک لوری تھی۔


حسبی ربیّ جل اللہ مافی قلبی غیر اللہ ; نور محمد صل اللہ لا الہٰ الا اللہ


غور کیا جائے تو چار مصرعوں کی اس لوری میں پوری توحید اور رسالت موجود ہے۔ اس میں جامعیت بھی ہے اور اختصار بھی۔ اس لوری میں صوتی حُسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ جو بچے اس لوری کو سنتے تھے وہ اسلام کی بنیاد سے بھی آگاہ ہوتے تھے ان کے مزاج میں ایک شاعرانہ آہنگ بھی پیدا ہوجاتا تھا اور زبان کا ایک سانچہ بھی انہیں فراہم ہوجاتا تھا۔ ایک بچہ تین، چار سال کی عمر تک یہ لوری ہزاروں بار سنتا تھا اور یہ لوری اس کے شعور میں راسخ ہوکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی تھی۔ لیکن لوریوں کی دنیا صرف اس لوری تک محدود نہ تھی۔ ایک لوری جو ہم نے ہزاروں بار سنی یہ تھی۔


آری نندیا آجا


’’فلاں‘‘ کو سُلا جا


فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے


فلاں کا سوہنا نام بتا جا


آتی ہوں بھئی آتی ہوں


فلاں کو سلاتی ہوں


فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے


فلاں کا سونا نام بتاتی ہوں


آگئی لو آگئی


فلاں کو سلا گئی


فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے


فلاں کا سوہنا نام بتا گئی


لائو جی لائو میری مزدوری دو


لو جی لو تم لڈو لو


لڈو میں سے نکلی مکھی


فلاں کی جان اللہ نے رکھی


اس لوری میں لوری سننے والے کا نام بدلتا رہتا تھا مگر مگر لوری یہی رہتی تھی۔ کہنے کو یہ لوری مذہبی نہیں ہے مگر اس لوری میں مذہب سطح پر موجود ہونے کے بجائے اس کی ’’ساخت‘‘ اور اس کی معنوی بُنت میں موجود ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ لوریاں بچوں میں مذہبی شعور، شاعرانہ مزاج اور زبان وبیان کی عمدہ اہلیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔


بچے 4، 5 سال کی عمر کے ہوتے تھے تو ان پر کہانیوں کی دنیا کا در کھل جاتا تھا۔ کہانیاں سنانے والے گھر کے لوگ ہوتے تھے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کہانی پڑھنے اور سننے میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کہانی پڑھنے او رسننے کے اثرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کہانی سننے کے عمل میں کہانی سنانے والے کی شخصیت سے منسلک ہوجاتی ہے اور اس میں ایک ’’انسانی عنصر‘‘ در آتا ہے جو کہانی کو حقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کہانی کی سماعت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ کہانی سنتے ہوئے سامع کا تخیل پوری طرح آزاد ہوتا ہے اور وہ کہانی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کہانی سنانے والی کی آواز کا اتار چڑھائو کہانی میں ڈرامائیت پیدا کردیتا ہے جس سے کہانی کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ عام طور پر کہانی سنانے والا کہانی سناتے ہوئے ہاتھوں کی مخصوص حرکت اور چہرے کے تاثرات کو بھی کہانی کا حصہ بنا دیتا ہے۔ جس سے ایک جانب کہانی کی فضا اور ماحول پیدا ہوتا ہے اور دوسری جانب کہانی کو برجستگی کا لمس فراہم ہوتا ہے۔ کہانی پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں مگر کہانی کی سماعت کا اپنا لطف اور اپنا اثر ہے اور بچپن میں کہانی کی سماعت کہانی کو پڑھنے سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔


بچپن میں یہ بات کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کہانی سنانے والے رات ہی کو کیوں کہانی سناتے ہیں۔ دن میں کہانی کیوں نہیں سناتے۔ بلکہ ہم ان سے دن میں کہانی سنانے کی ضد کرتے تھے تو وہ مسکراتے تھے اور کہتے تھے دن میں کہانی نہیں سنتے ورنہ ماموں راستہ بھول جاتے ہیں اور ہم ماموں کو راستے پر گم ہونے سے بچانے کے لیے کہانی سننے کی ضد ترک کردیتے تھے۔ لیکن اب اس عمر میں تھوڑا بہت پڑھنے اور غور کرنے سے معلوم ہوا کہ کہانی اور رات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دن میں کہانی کا اثر گھٹ کر آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات اسرار کا سمندر ہے اور رات کا لمس عام کہانی کو بھی پراسرار بنا دیتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو رات کی کہانی میں جہاں عمودی جہت یا Vertical Dimension پیدا کرتی ہے وہیں دوسری جانب وہ کہانی میں وہی کردار ادا کرتی ہے جو فلم یا ٹیلی ڈرامے میں سیٹ اور روشنیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کہانی کی سماعت بچوں کو مطالعے پر مائل نہیں ’’مجبور‘‘ کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ سماعت شاعری اور کہانی کو سامع کی شخصیت کا جز بنادیتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے والا بنانا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ بچوں کو ابتداء ہی سے ادب کی مختلف ہستیوں یا Forms کا سامع بنائیں۔ سماعت مطالعے کو صرف شوق نہیں بناتی ذوق بھی بناتی ہے۔ آج سے 30، 40 سال پہلے عام اسکولوں کے طلبہ بھی 10، 12 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک ڈیڑھ درجن نظموں کے ’’حافظ‘‘ ہوجاتے تھے۔ ان میں سے اکثر کا یہی حافظہ انہیں ’’مشاعروں‘‘ تک لے جاتا تھا اور مشاعرے انہیں ’’شعری مجموعوں‘‘ کے مطالعے پر مجبور کردیتے تھے۔ لیکن ہماری معاشرتی زندگی سے ادب کی سماعت کا پورا منظر نامہ غائب ہوچکا ہے۔ اب نہ کہیں لوریاں ہیں۔ نہ کہانیاں۔ پہیلیاں ہیں نہ نظموں کا حافظ ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ جس بچے نے دس، پندرہ سال تک شاعری یا کہانی کے ذیل میں کچھ بھی نہیں سنا وہ اچانک ادب پڑھنے والا بن جائے۔ یہ دیوار میں در بنانے کی خواہش ہے۔ اس کے برعکس بچپن سے فراہم ہونے والی شعر وادب کی ’’سماعت‘‘ شخصیت کو ایک ایسی عمارت بنا دیتی ہے جس میں دروازے اور کھڑکیاں فطری طور پر عمارت کے نقشے کے حصے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔


بچوں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں موجود بڑوں کی نقل کرتے ہیں چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی معاشرے میں بڑے کتاب نہ پڑھ رہے ہوں اور بچوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کتاب پڑھیں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بنیادی ہے۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو کتاب پڑھتے ہوئے اور کتاب کی اہمیت پر اصرار کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو بچوں میں مطالعے کا رحجان شوق بنے گا اور شوق ذوق میں تبدیل ہوگا۔ کتاب کے سلسلے میں بچوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کتاب بیک وقت دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے سستی چیز ہے۔ کتاب دنیا کی مہنگی ترین چیز اس لیے ہے کہ ایک کھرب ڈالر صرف کرکے بھی ایک شیکسپیئر ایک میر تقی میر اور ایک مولانا مودودیؒ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب دنیا کی سستی ترین چیز اس لیے ہے کہ جو کلیات میر ایک کھرب ڈالر خرچ کر کے بھی تخلیق نہیں کی جاسکتی وہ ہمیں بازار سے 5سو روپے میں مل جاتی ہے۔‎” width=”485″ height=”329″ />

اس مسئلے کا تمام روایتی تہذیبوں باالخصوص اسلامی تہذیب نے ایک زبردست حل تلاش کیا ہوا تھا اور وہ یہ کہ پڑھنے والوں کو پہلے ’’سننے والا‘‘ بنائو۔ یعنی Reader کو پہلے Listener کے ’’مرتبے‘‘ پر فائز کرو۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ہند اسلامی تہذیب نے اس کی ابتدائی صورت یہ پیدا کی تھی کہ بچوں کو شیرخوارگی کی عمر سے طرح طرح کی ’’لوریاں‘‘ سنائی جائیں۔ مثلاً ایک لوری تھی۔
حسبی ربیّ جل اللہ
مافی قلبی غیر اللہ
نور محمد صل اللہ
لا الہٰ الا اللہ
غور کیا جائے تو چار مصرعوں کی اس لوری میں پوری توحید اور رسالت موجود ہے۔ اس میں جامعیت بھی ہے اور اختصار بھی۔ اس لوری میں صوتی حُسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ جو بچے اس لوری کو سنتے تھے وہ اسلام کی بنیاد سے بھی آگاہ ہوتے تھے ان کے مزاج میں ایک شاعرانہ آہنگ بھی پیدا ہوجاتا تھا اور زبان کا ایک سانچہ بھی انہیں فراہم ہوجاتا تھا۔ ایک بچہ تین، چار سال کی عمر تک یہ لوری ہزاروں بار سنتا تھا اور یہ لوری اس کے شعور میں راسخ ہوکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی تھی۔ لیکن لوریوں کی دنیا صرف اس لوری تک محدود نہ تھی۔ ایک لوری جو ہم نے ہزاروں بار سنی یہ تھی۔
آری نندیا آجا
’’فلاں‘‘ کو سُلا جا
فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے
فلاں کا سوہنا نام بتا جا
آتی ہوں بھئی آتی ہوں
فلاں کو سلاتی ہوں
فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے
فلاں کا سونا نام بتاتی ہوں
آگئی لو آگئی
فلاں کو سلا گئی
فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے
فلاں کا سوہنا نام بتا گئی
لائو جی لائو میری مزدوری دو
لو جی لو تم لڈو لو
لڈو میں سے نکلی مکھی
فلاں کی جان اللہ نے رکھی
اس لوری میں لوری سننے والے کا نام بدلتا رہتا تھا مگر مگر لوری یہی رہتی تھی۔ کہنے کو یہ لوری مذہبی نہیں ہے مگر اس لوری میں مذہب سطح پر موجود ہونے کے بجائے اس کی ’’ساخت‘‘ اور اس کی معنوی بُنت میں موجود ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ لوریاں بچوں میں مذہبی شعور، شاعرانہ مزاج اور زبان وبیان کی عمدہ اہلیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔
بچے 4، 5 سال کی عمر کے ہوتے تھے تو ان پر کہانیوں کی دنیا کا در کھل جاتا تھا۔ کہانیاں سنانے والے گھر کے لوگ ہوتے تھے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کہانی پڑھنے اور سننے میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کہانی پڑھنے او رسننے کے اثرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کہانی سننے کے عمل میں کہانی سنانے والے کی شخصیت سے منسلک ہوجاتی ہے اور اس میں ایک ’’انسانی عنصر‘‘ در آتا ہے جو کہانی کو حقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کہانی کی سماعت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ کہانی سنتے ہوئے سامع کا تخیل پوری طرح آزاد ہوتا ہے اور وہ کہانی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کہانی سنانے والی کی آواز کا اتار چڑھائو کہانی میں ڈرامائیت پیدا کردیتا ہے جس سے کہانی کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ عام طور پر کہانی سنانے والا کہانی سناتے ہوئے ہاتھوں کی مخصوص حرکت اور چہرے کے تاثرات کو بھی کہانی کا حصہ بنا دیتا ہے۔ جس سے ایک جانب کہانی کی فضا اور ماحول پیدا ہوتا ہے اور دوسری جانب کہانی کو برجستگی کا لمس فراہم ہوتا ہے۔ کہانی پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں مگر کہانی کی سماعت کا اپنا لطف اور اپنا اثر ہے اور بچپن میں کہانی کی سماعت کہانی کو پڑھنے سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
بچپن میں یہ بات کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کہانی سنانے والے رات ہی کو کیوں کہانی سناتے ہیں۔ دن میں کہانی کیوں نہیں سناتے۔ بلکہ ہم ان سے دن میں کہانی سنانے کی ضد کرتے تھے تو وہ مسکراتے تھے اور کہتے تھے دن میں کہانی نہیں سنتے ورنہ ماموں راستہ بھول جاتے ہیں اور ہم ماموں کو راستے پر گم ہونے سے بچانے کے لیے کہانی سننے کی ضد ترک کردیتے تھے۔ لیکن اب اس عمر میں تھوڑا بہت پڑھنے اور غور کرنے سے معلوم ہوا کہ کہانی اور رات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دن میں کہانی کا اثر گھٹ کر آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات اسرار کا سمندر ہے اور رات کا لمس عام کہانی کو بھی پراسرار بنا دیتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو رات کی کہانی میں جہاں عمودی جہت یا Vertical Dimension پیدا کرتی ہے وہیں دوسری جانب وہ کہانی میں وہی کردار ادا کرتی ہے جو فلم یا ٹیلی ڈرامے میں سیٹ اور روشنیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کہانی کی سماعت بچوں کو مطالعے پر مائل نہیں ’’مجبور‘‘ کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ سماعت شاعری اور کہانی کو سامع کی شخصیت کا جز بنادیتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے والا بنانا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ بچوں کو ابتداء ہی سے ادب کی مختلف ہستیوں یا Forms کا سامع بنائیں۔ سماعت مطالعے کو صرف شوق نہیں بناتی ذوق بھی بناتی ہے۔ آج سے 30، 40 سال پہلے عام اسکولوں کے طلبہ بھی 10، 12 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک ڈیڑھ درجن نظموں کے ’’حافظ‘‘ ہوجاتے تھے۔ ان میں سے اکثر کا یہی حافظہ انہیں ’’مشاعروں‘‘ تک لے جاتا تھا اور مشاعرے انہیں ’’شعری مجموعوں‘‘ کے مطالعے پر مجبور کردیتے تھے۔ لیکن ہماری معاشرتی زندگی سے ادب کی سماعت کا پورا منظر نامہ غائب ہوچکا ہے۔ اب نہ کہیں لوریاں ہیں۔ نہ کہانیاں۔ پہیلیاں ہیں نہ نظموں کا حافظ ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ جس بچے نے دس، پندرہ سال تک شاعری یا کہانی کے ذیل میں کچھ بھی نہیں سنا وہ اچانک ادب پڑھنے والا بن جائے۔ یہ دیوار میں در بنانے کی خواہش ہے۔ اس کے برعکس بچپن سے فراہم ہونے والی شعر وادب کی ’’سماعت‘‘ شخصیت کو ایک ایسی عمارت بنا دیتی ہے جس میں دروازے اور کھڑکیاں فطری طور پر عمارت کے نقشے کے حصے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔
بچوں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں موجود بڑوں کی نقل کرتے ہیں چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی معاشرے میں بڑے کتاب نہ پڑھ رہے ہوں اور بچوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کتاب پڑھیں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بنیادی ہے۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو کتاب پڑھتے ہوئے اور کتاب کی اہمیت پر اصرار کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو بچوں میں مطالعے کا رحجان شوق بنے گا اور شوق ذوق میں تبدیل ہوگا۔ کتاب کے سلسلے میں بچوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کتاب بیک وقت دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے سستی چیز ہے۔ کتاب دنیا کی مہنگی ترین چیز اس لیے ہے کہ ایک کھرب ڈالر صرف کرکے بھی ایک شیکسپیئر ایک میر تقی میر اور ایک مولانا مودودیؒ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب دنیا کی سستی ترین چیز اس لیے ہے کہ جو کلیات میر ایک کھرب ڈالر خرچ کر کے بھی تخلیق نہیں کی جاسکتی وہ ہمیں بازار سے 5سو روپے میں مل جاتی ہے۔

شاہنواز فاروقی دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم دستخط کے لیے صدر کو کب بھیجی جائے گی اور اس کی منظوری کیسے ہو گی؟
  • حملہ آور جوڈیشل کمپلیکس تک کیسے پہنچا پولیس نے تحقیقات میں سراغ لگا لیا
  • این اے 18 کا ضمنی انتخاب: عمر ایوب کی غیر سیاسی اہلیہ مہم کیسے چلا رہی ہیں؟
  • کتاب ہدایت
  • زمبابوے نے پاکستان کے دورے کے لیے 15 رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا
  • بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے؟
  • آمنہ ملک نے جنات سے اپنی گمشدہ چیزیں کیسے واپس منگوائیں؟
  •  اقبالؒ کے پیغام پر عمل خراج تحسین کا بہترین طریقہ، مریم نواز: برازیل پہنچ گئیں
  • بُک شیلف
  • کتاب دوستی: عالمی رجحانات اور پاکستان کی صورت حال