پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسیر رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو حکومت سے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے، تاہم انہوں نے یہ تجویز بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات سے مشروط کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی پی ٹی آئی کو 10 محرم کے بعد حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کی ہدایت

پی ٹی آئی کے قید رہنماؤں کی جانب سے پارٹی قیادت کے نام ایک کھلا خط لکھا گیا ہے۔ اس خط میں حکومت سے مذاکرات پر زور دیا گیا ہے، تاہم اس کے لیے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ مذاکرات کا آغاز اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک عمران خان سے ملاقات نہ ہو جائے۔

یہ خط پارٹی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، سابق وزرا میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔

خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات نہ صرف سیاسی سطح پر ضروری ہیں بلکہ مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی ان کا انعقاد ناگزیر ہے۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا آغاز سیاسی سطح سے کیا جائے اور تحریک انصاف لاہور کے اسیر رہنماؤں کو اس عمل میں شامل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو مائنس کیا جارہا ہے، علی امین گنڈاپور ایم پی ایز کو لے کر اڈیالہ کے باہر بیٹھ جائیں، علیمہ خان

مزید یہ کہ مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کے لیے بانی چیئرمین عمران خان تک رسائی ممکن بنائی جائے تاکہ پارٹی قیادت مشاورت کا دائرہ وسیع کر سکے، اور یہ ملاقاتوں کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسیر سیاسی قیادت پی ٹی آئی حکومت مذاکرات مذاکرات کی تجویز وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسیر سیاسی قیادت پی ٹی ا ئی حکومت مذاکرات مذاکرات کی تجویز وی نیوز پارٹی قیادت کہ مذاکرات گیا ہے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل

پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت میں طے شدہ پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل کا مطالبہ کیا ہے اور ڈیڑھ سال میں دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں مگر لگتا ہے کہ ن لیگ پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کو شامل کرنے پر راضی نہیں ہو رہی جب کہ وہ وفاقی حکومت میں تو پیپلز پارٹی کو نمایندگی دینے پر تیار ہے اور دونوں پارٹیاں بلوچستان حکومت میں شامل ہیں اور دونوں نے بلوچستان میں جے یو آئی کو نظرانداز کرکے مخلوط حکومت بنائی تھی جب کہ جے یو آئی کے پاس بلوچستان میں کے پی سے زیادہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی ہیں۔

سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی اسمبلی تو کیا ایک رکن سندھ اسمبلی بھی نہیں ہے اور سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت اسی طرح حاصل ہے، جیسی اکثریت (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں حاصل ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب کے گورنر کا عہدہ ملا ہوا ہے اور چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے پاس ہے اور ملتان ڈویژن میں گیلانی خاندان نے متعدد نشستیں بھی حاصل کر رکھی ہیں اور جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نمایندگی حاصل ہے اور وہ پنجاب میں (ن) لیگ کی حلیف بھی ہے اس لیے پنجاب حکومت میں شمولیت چاہتی ہے جس کے لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان متعدد اجلاس ہو چکے ہیں مگر ن لیگ کو نہ جانے کون سے تحفظات ہیں کہ وہ راضی نہیں ہو رہی۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنے وزیروں کی ضرورت ہے تاکہ وہ محکمے لے کر پی پی کارکنوں کو نواز سکے۔ گورنر پنجاب کا عہدہ آئینی ہے جب کہ وزیروں کو محکمے تو ملتے ہیں مگر وہ وہاں من مانیاں نہیں کر سکتے کیونکہ پنجاب حکومت اور اس کی انتظامی ٹیم کی ہر محکمے پر نظر ہے اورن لیگ ایک واضح پالیسی کے تحت صوبہ چلا رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے ارکان اگر حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو انھیں پنجاب حکومت کی پالیسی کسی صورت قبول نہیں ہوگی جس سے دونوں پارٹیوں میں اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔دونوں پارٹیوں میں اختلافات ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ارکان کو مجبوراً مفاہمت کی پالیسی اپنانا ہو گی۔

 پی پی کے ارکان اگر وزیر بنتے ہیں تو انھیں اپنی پارٹی کو پروموٹ کرنا ہوگا تاکہ پنجاب میں پی پی کی مقبولیت بڑھے جو ن لیگ کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنے طریقے سے حکومت چلانے کے اصول متعین کر رکھے ہیں جن پر عمل کرنا پی پی وزیروں کے لیے بہت ہی مشکل ہوگا۔پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کو زیادہ اہمیت کیوں دے گی ،ایسا کرنے سے اس کی سیاسی حیثیت اور ساکھ متاثر ہو گی۔

پی پی کو کابینہ میں شمولیت دونوں پارٹیوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھا سکتی ہے اس لیے پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہیں ہو پا رہا اور پی پی اپنے مطالبے پر جلد عمل چاہتی ہے۔ (ن) لیگ کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرح پیپلز پارٹی سے بھی خطرہ ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ ایک خاندان کی حکومت نظر آتی ہے اور ارکان اسمبلی کو بھی (ن) لیگی حکومت سے شکایات ہو سکتی ہیں مگر وہ پنجاب حکومت کی بھی مخالفت نہیں کر سکتی۔ دونوں پارٹیوں کا اتحاد جب بھی ختم ہوگا دونوں میں اختلافات بڑھیں گے جس کا ثبوت پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو پی ڈی ایم حکومت کے ختم ہوتے ہی (ن) لیگ کی مخالفت کرتے ہوئے دے چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میں پی ٹی آئی میں ہوتا تو عمران خان مئی 2024 میں رہا ہو چکے ہوتے، شیر افضل مروت
  • اڈیالہ جیل میں عمران خان سے پارٹی رہنماؤں کی ملاقات نہیں ہوسکی
  • حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا امکان، اسپیکر نے شیخ وقاص کیخلاف کارروائی روک دی
  • حکومت مذاکرات کی متلاشی، اسپیکر نے شیخ وقاص کیخلاف کارروائی روک دی
  • پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل
  • پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں جھڑپ، قیادت پر کمپرمائزکے الزامات
  • پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں ممبران نے قیادت کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • عمران خان سے ملاقات اور مذاکرات کو ایک ساتھ جوڑنا درست نہیں،رانا ثنا ء اللہ
  • پس پردہ کوششیں، حکومت، PTI مذاکرات کے امکانات روشن
  • عمران خان سے ملاقات اور مذاکرات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے: رانا ثناء اللہ