27 ویں ترمیم سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیں،عمران خان
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف اور سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم لائی جا رہی ہے اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیں اور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ بنا دیں۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے اپنی بہنوں کے ذریعے جاری پیغام میں انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں 26 ارکان پر پابندیاں لگا دی ہیں، اس سے بہتر ہے ہمارے ارکان اسمبلی کے باہر اپنی اسمبلی لگائیں، 10 محرم کے بعد غلامی کے نظام کےخلاف تحریک شروع کر دیں کیوں کہ قوم کو غلام بنایا جا رہا ہے اور غلام بننے سے بہتر ہے میں ساری زندگی جیل میں رہوں۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا کہ پارٹی میں 50 ہزار عہدیداران ہیں اور وہ اپنا وزن اٹھا سکتے ہیں کیوں کہ سیاستدانوں کا کام ہے سیاست کرنا، لیڈ کرنا یا کال دینا ہمارا کام نہیں ہے، انسان جو مرضی پلان بناتا رہے لیکن آخری پلان اللہ کا ہے اور اللہ عمران خان کے ساتھ ہے، عمران خان کے جو احکامات ہوں گے ہم ان کا مکمل فالو اپ کریں گے اور ان کو احکامات پر عمل کرنے کی تاکید کریں گے، عمران خان کو اس پر اپڈیٹ دیا کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ پوری جماعت کیا پورا ملک عمران خان کی پارٹی ہیں، اب یہ عوامی نمائندوں کو ایک ایک کرکے اسمبلی سے نکال رہے ہیں، عمران خان کو مکمل طور پر آئیسولیٹ کردیا گیا ہے، جب تک ہماری عمران خان سے ملاقات نہیں کروائی جاتی ہم یہی رہیں گے، کم از کم جب ہم پریشر ڈالتے ہیں تو دو بہنوں کی تو ملاقات ہو جاتی ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر نے عمران خان کا کیس نہ لگا کر جو سروسز دی ہیں اس کے تحفے میں ان کو اب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگایا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سے بہتر ہے
پڑھیں:
اکثریتی ججز نے 26ویں ترمیم آئینی بنچ کے سامنے لگانے کا کہا تھا، چیف جسٹس: جسٹس منصور، جسٹس منیب کے خط کا جواب
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور شاہ کے خط میں جوابی خط پہلی بار منظر عام پر آگیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کا جوابی خط جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31 اکتوبر کے اجلاس پر لکھا گیا۔ دونوں ججز نے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم 4 نومبر 2024 کو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان جیسے تمام سوالات کے جوابات میٹنگ منٹس اور چیف جسٹس کے خط میں سامنے آگئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ اجلاس کیوں نہیں بلایا؟ ان سوالات کے جواب بھی دیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کے خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191 اے کے تحت آرٹیکل 183/3 کی درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، آرٹیکل 191 اے کی ذیلی شق 4 کے تحت ججز آئینی کمیٹی ہی کیس فکس کرنے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 191اے کی ذیلی شق تین اے کے تحت آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے۔ خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191اے کی شق چار آئینی بینچ کے ججز پر مشتمل کمیٹی کو معاملہ سپرد کیا جاتا ہے نہ کہ ججز ریگولر کمیٹی، ججز کمیٹی 2023 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی اور کمیٹی کے اپنے بھائی ججز اراکین کی اس تشویش کو سمجھتا ہوں جو آئین چھبیسویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے حوالے سے ہے۔ چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ میں نے ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے 13 ججز سے رائے لی، جس میں اْن سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز (جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) نے کہا کہ آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت دائر کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، کیا ایسا 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ہو سکتا ہے؟۔ خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کے 13ججز میں سے 9 جج صاحبان کا موقف تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، جب ججز کی رائے آچکی تو یہ حقائق دونوں بھائی ججوں (جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) کو بتا دیے گئے اور انہیں 13 ججز کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔ خط میں مزید لکھا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانے کو مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف ججز کے درمیان انتہائی ضروری باہمی روابط کی روح مجروح ہوتی بلکہ اس سے سپریم کورٹ عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ مجبوراً، میں نے یہ دو خطوط اور ان کے جوابات (سربمہر بند لفافوں میں) سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کے حوالے کر دیے ہیں تاکہ وہ محفوظ طریقے سے رکھے جائیں، یہاں تک کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جو 5 نومبر 2024ء کو بلایا گیا ہے خط کے متن کے مطابق میں اس اجلاس میں جوڈیشل کمیشن سے درخواست کروں گا کہ وہ میرے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر معزز ججز کو آئینی بینچ کے اراکین کے طور پر نامزد کرے، تاکہ آئین کے آرٹیکل 191A کی ذیلی شق (3) کے کلاز (a) کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی یا آئینی بینچ کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ آرٹیکل 184 کے تحت دائر کردہ 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو پاکستان کے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے سامنے پیش کر سکے۔ چیف جسٹس نے خط میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بینچز کی تشکیل کے لیے کمیٹی کا اجلاس بلانا یا پاکستان کے سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دینا یقیناً آئین کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔