پاکستان تحریک انصاف کی لاہور جیل میں قید قیادت کے بیان کے مطابق سیاسی و مقتدرہ سطح پر مذاکرات ہونے چاہئیں، آغاز کار کے طور پر سیاسی بنیادوں پر مذاکرات کئے جائیں، تحریک انصاف کے لاہور میں قید راہنماؤں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کی لاہور جیل میں قید قیادت نے بھی مذاکرات کی اپیل کر دی۔ پی ٹی آئی راہنماؤں نے جیل سے مذاکرات کرنے کے لئے بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ملک کے بدترین بحران سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں، مذاکرات ہونا ہر سطح پر لازمی ہیں۔ بیان کے مطابق سیاسی و مقتدرہ سطح پر مذاکرات ہونے چاہئیں، آغاز کار کے طور پر سیاسی بنیادوں پر مذاکرات کئے جائیں، تحریک انصاف کے لاہور میں قید راہنماؤں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی کی تقرری کے لئے بانی پی ٹی آئی تک رسائی آسان بنائی جائے۔ لاہور جیل سے جاری ہونے والے بیان پر ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، محمود الرشید، شاہ محمود قریشی اور اعجاز احمد چودھری کے دستخط موجود ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: تحریک انصاف پر مذاکرات لاہور جیل

پڑھیں:

ایم آر ڈی موومنٹ 1983ء کی تحریک

چار دہائیاں قبل ملک میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت اور مارشل لاء کے خاتمے کے لیے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) تشکیل دیا تھا۔ یہ جدید پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے سب سے بڑا مشترکہ اتحاد تھا۔

تحریک کا باضابطہ آغاز 14 اگست 1983 کو ملک بھر میں ہوا۔ پہلے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں اورکارکنوں نے بڑے شہروں بشمول کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاورکے علاوہ دیگر شہروں میں کیا ۔

سندھ میں تحریک کا آغاز بڑی تیزی سے ہوا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سندھ میں رہنماؤں کی گرفتاریوں کے دوران ہزاروں افراد جمع ہوجاتے تھے۔

جب کارکن گرفتاریاں دینے کے لیے نمودار ہوتے تو لوگوں کا ہجوم ان پر ہار ڈالتا، نعرے لگاتا اور تھانوں کی طرف مارچ کرتا تھا۔ انھیں پولیس اہلکار راستے میں گرفتار کر کے لے جاتے تھے۔

گرفتار ہونے والوں میں اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اورکارکنوں کی تھی، جب کہ سندھ میں بائیں بازو کی جماعتیں، سندھی عوامی تحریک (رسول بخش پلیجو)، اور جمعیت علمائے اسلام بھی شامل تھیں۔

تحریک کے چند دنوں میں سندھ سے ہزاروں کارکنوں کوگرفتارکر لیا گیا۔ سندھ کی جیلیں اور تھانے بھرگئے۔ پولیس اور انتظامیہ کو رات کے وقت جیلوں میں رکھنا مشکل ہوگیا۔

تھانوں میں گرفتار ہونے والوں کو رات کو گھر بھیج دیا جاتا تھا، اور وہ صبح واپس تھانوں میں آجاتے تھے۔ پولیس کے ساتھ جھڑپیں، روڈ بلاک، لاٹھی چارج، آنسوگیس اور توڑ پھوڑ روزکا معمول ہوتا تھا۔

تھانے کا عملہ بھی گرفتاریاں کرنے سے کتراتا تھا۔ تحریک کے دوران بہت سے پولیس کانسٹیبلوں نے اپنے فرائض انجام دینے سے انکارکردیا اور اپنی ٹوپی اور بیلٹ پھینکنا شروع کردیے جس سے بالخصوص سندھ میں سول نافرمانی جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔

خبروں کا واحد ذریعہ اخبارات تھے، میڈیا پر سنسر شپ تھی۔ بی بی سی لندن کی خبریں سننے کے لیے لوگ روزانہ شہروں اور دیہاتوں میں جمع ہوتے تھے۔

کئی شہر روزانہ بند رہتے، جہاں کرفیو جیسی صورتحال تھی۔ اس تحریک میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور مذہبی اسکالرزکو بھی گرفتارکیا گیا۔ ان میں سے کئی کو غیر سول عدالتوں سے سزائیں سنائی گئیں۔ میرا صحافتی سفر بھی 1983 میں ایم آر ڈی تحریک کی رپورٹنگ سے شروع ہوا۔

ایسے میں اس وقت کے سندھ پیپلز پارٹی کے صدر غلام مصطفی جتوئی جو ایم آر ڈی تحریک کی قیادت کر رہے تھے، انھوں نے گھارو ریسٹ ہاؤس سے ایک خط لکھ کر پارٹی کارکنوں سے تحریک روکنے کا پیغام دیا، لیکن سندھ کے عوام نے ان کی کال کو مسترد کردیا اور سندھ میں کئی ماہ تک تحریک چلتی رہی۔

ابتدائی دنوں میں مورو اور خیرپور ناتھن شاہ کے قصبوں میں نصف درجن کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ دادو میں روزانہ ہونے والے جلوسوں اور خصوصاً خواتین کے احتجاج نے بھی اس تحریک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بخشی۔

ایم آر ڈی تحریک کا سب سے بڑا واقعہ 42 سال قبل 29 ستمبر 1983 کو سکرنڈ شہر کے قریب قومی شاہراہ پر پیش آیا۔ جہاں پارٹی کارکنان اور سیکڑوں دیہاتی احتجاج کر رہے تھے، ان پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 16 افراد شہید اور 51 زخمی اورگرفتارکر لیے گئے۔

جلوس کی قیادت کرنے والے 70 سالہ پنہل خان چانڈیو اور ان کے بیٹے غلام عباس چانڈیو کو گرفتارکر لیا گیا۔

ان پر خیرپور میں مقدمہ چلایا گیا اور انھیں سخت سزائیں دی گئیں۔ شدید زخمی کارکنوں کو کئی مہینوں تک نواب شاہ کے سول اسپتال میں رکھا گیا اور بعد میں لے جا کر قید کر دیا گیا۔

شہداء میں سے 9 کسان، دو سکرنڈ ہائی اسکول کے طالب علم اور ایک ڈھول بجانے والا منگنھار تھا جو گلیوں میں ڈھول بجا کر خوشیاں پھیلاتا تھا۔ ایک سکرنڈ شہر میں مزدوری کرتا تھا، ایک دکان چلاتا تھا، ایک دودھ والا تھا اور ایک بکریاں چرانے والا تھا۔

ان سب کا تعلق نچلے طبقے سے تھا۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جو لوگ اس دن زخمی بھی ہوئے تھے، انھیں دوسرے زخمیوں اور لاشوں کے ساتھ نواب شاہ کے سول اسپتال لے جایا گیا۔

میں اور سکرنڈ سٹی سے میرے کچھ صحافی دوست جائے وقوعہ پر پہنچے تو قومی شاہراہ پر شہداء اور زخمیوں کا خون ابھی تک خشک نہیں ہوا تھا۔ ان کے جوتے، چپل اور دیگر سامان بکھرا ھوا تھا۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مظاہرین خالی ہاتھ تھے۔ بی بی سی نے اس واقعے کی خبر 29 ستمبر 1983 کو اپنی پہلی خبر کے طور پر نشر کی اور ریڈیو پاکستان نے بھی یہی خبر نشر کی، جس میں کہا گیا کہ آج سکرنڈ کے قریب 16 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔

اگلی صبح سکرنڈ شہر سے سیکڑوں لوگ گاؤں پنہل خان چانڈی پہنچے جہاں شہداء کے ورثاء اپنے پیاروں کو سپرد خاک کر رہے تھے۔ ورثاء کے علاوہ ایم پی اے غلام قادر چانڈیو بھی موجود تھے جو لوگوں سے تعزیت کر رہے تھے۔

ان کے والد پنہل خان چانڈیو اور بھائی غلام عباس چانڈیو سمیت ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ غلام قادر چانڈیو محنت کش طبقے کے نمایندے ہیں جو مسلسل 30 سال سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔

1995 میں بے نظیر بھٹو نے انھیں چھ سال کی مدت کے لیے سینیٹ آف پاکستان کا رکن منتخب کیا۔ اس کے بعد وہ پانچویں مرتبہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ غلام قادر چانڈیو 2002 کے الیکشن سے لے کر اب تک ہر الیکشن میں زیادہ ووٹ لے کر جیتے ہیں۔

آج اس تحریک کو 42 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ تحریک ملک کے باقی حصوں کی نسبت سندھ میں زیادہ فعال تھی، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازوکی جماعتوں کی شرکت نمایاں رہی۔ واضح رہے کہ سندھ کے قوم پرستوں نے اس تحریک کی مخالفت کی تھی۔ قوم پرست رہنما جی ایم سید نے اس تحریک کو کفن چوروں کی تحریک قرار دیا۔

سندھ کے عوام کی اس تاریخی جدوجہد نے سندھی عوام کو پوری دنیا میں جمہوریت کے حامی اور آمریت مخالف کے طور پر پہچان دی۔ ایم آر ڈی کی تحریک آج بھی خطے میں جمہوریت پسندوں کے لیے جوش و خروش کی ایک مثال بنی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: تحریکِ انصاف کے کسان ونگ کے رہنما اعجاز شفیق نے لاہور پریس کلب کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں
  • ایم آر ڈی موومنٹ 1983ء کی تحریک
  • غزہ پر بمباری روکنے کے لیے اسرائیل سے ٹرمپ کی اپیل ’حوصلہ افزا‘ ہے: حماس
  • آزاد کشمیر معاہدے کا کریڈٹ سیاسی قیادت کو جاتا ہے: سکیورٹی ذرائع
  • پی ٹی آئی رہنما اعجاز چودھری کی سزا کیخلاف اپیل سماعت کیلئے مقرر
  • جنوبی افریقا کیخلاف ٹیسٹ سیریز، شان مسعود قیادت جاری رکھیں گے
  • پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
  • مخصوص نشستیں کیس، نظرثانی درخواستوں کی منظوری کا تفصیلی فیصلہ جاری
  •   آج پاکستان کو ایک معاملہ فہم قیادت اور دانشمندانہ حکمت عملی کی شدید ضرورت ہے، چوہدری محمد سرور
  • مخصوص نشستیں کیس: تحریک انصاف کوفریق بنے بغیرریلیف ملا،برقرارنہیں رہ سکتا،عدالت عظمیٰ