پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں نے قیادت کوحکومت سے مذاکرات کا مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسیر رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے حکومت سے مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاہم اس عمل کو بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ کھلا خط پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ سمیت دیگر اسیر رہنماؤں کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ملک اس وقت بدترین سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اور اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ سنجیدہ مذاکرات ہیں۔ اسیر رہنماؤں نے زور دیا کہ مذاکرات صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ مقتدر حلقوں سے بھی کیے جائیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا آغاز سیاسی سطح پر کیا جائے اور تحریک انصاف لاہور کے اسیر رہنماؤں کو بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل سے قبل عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی جائے تاکہ پارٹی قیادت وسیع مشاورت کر سکے۔
رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا کہ عمران خان سے ملاقات کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رکھا جائے تاکہ پارٹی پالیسی مربوط اور موثر انداز میں طے کی جا سکے۔
یہ خط ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب پی ٹی آئی شدید سیاسی دباؤ اور قیادت کی گرفتاریوں جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔
Post Views: 7.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسیر رہنماو ں رہنماو ں نے پی ٹی ا ئی گیا ہے
پڑھیں:
صمود فلوٹیلا، اسیر انسانیت اور یومِ کپور کی گونج
اسلام ٹائمز: اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی سمندروں کو بھی اپنی قید کا حصہ بنا ڈالا اور ان کشتیوں پر سوار کارکنان کو اسیر کر لیا، ان کارکنوں کا جرم کیا تھا، یہی کہ انہوں نے انسانیت کے نام پر رحم کے جذبے کے تحت فلسطین کا رخ کیا تھا۔ اسی دوران اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈانن کا بیان آیا کہ یہ کارکنان یومِ کپور کی تعطیلات کے بعد ڈی پورٹ کر دیئے جائیں گے، گویا انسانیت کی اسیری بھی اب مذہبی کیلنڈر کے تابع ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
غزہ کی سسکتی ہوئی سرزمین کے لیے نکلنے والا صمود فلوٹیلا دراصل صرف کشتیوں کا قافلہ نہیں تھا، یہ انسانیت کی ایک صدا تھی، بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں کے لیے سانس لیتا ہوا پیغام تھا اور دنیا کے بے حس ضمیروں کے لیے ایک سوال تھا، مگر اسرائیلی بندوقوں نے اس آواز کو بھی خاموش کرنے کی کوشش کی، جیسے وہ غزہ کی فضاؤں کو میزائلوں اور بارود سے خاموش کرتے آئے ہیں، یہ امدادی قافلہ محض روٹی اور دوائی نہیں لایا تھا بلکہ دنیا کو یہ یاد دہانی کروا رہا تھا کہ محاصرہ ظلم ہے، بھوک گناہ ہے اور خاموشی جرم ہے۔
اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی سمندروں کو بھی اپنی قید کا حصہ بنا ڈالا اور ان کشتیوں پر سوار کارکنان کو اسیر کر لیا، ان کارکنوں کا جرم کیا تھا، یہی کہ انہوں نے انسانیت کے نام پر رحم کے جذبے کے تحت فلسطین کا رخ کیا تھا۔ اسی دوران اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈانن کا بیان آیا کہ یہ کارکنان یومِ کپور کی تعطیلات کے بعد ڈی پورٹ کر دیئے جائیں گے، گویا انسانیت کی اسیری بھی اب مذہبی کیلنڈر کے تابع ہے، رہائی بھی عبادت کے دن کے بعد ہوگی جیسے انسانی جانوں سے کھیلنا بھی ایک عبادت سمجھ لیا گیا ہو۔
یومِ کپور یہودی عقیدے کا سب سے مقدس دن ہے، وہ دن جب بندے اپنے خدا کے سامنے جھک کر معافی مانگتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، دنیاوی لذتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور روح کو پاکیزگی عطا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس دن اسرائیل کی فضائیں ساکت ہو جاتی ہیں، شہر ویران ہو جاتے ہیں اور پورا ملک ایک لمحے کو ٹھہر سا جاتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اسی مقدس دن کے سائے تلے اسرائیل دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے سے باز نہیں آتا، اگر یومِ کپور کفارے کا دن ہے تو پھر فلسطین کی سرزمین پر گرنے والے ہر بم کا کفارہ کون دے گا۔
اگر یہ دن معافی کا دن ہے تو پھر قید کیے گئے کارکنوں اور محصور کیے گئے فلسطینیوں کے لیے معافی کب لکھی جائے گی اور اگر یہ دن عبادت کا دن ہے تو کیا عبادت اُس وقت قبول ہو سکتی ہے جب انسانیت کو قید میں رکھا گیا ہو، صمود فلوٹیلا ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسانیت کا جرم سب سے بڑا جرم بن چکا ہے، اسرائیل اپنی طاقت اور مذہبی تقدیس کے پردے میں ظلم کو چھپاتا ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہر محاصرہ ایک دن ٹوٹتا ہے، ہر زنجیر ایک دن کٹتی ہے اور ہر ظلم کے خلاف ایک دن حق کی صدا ضرور گونجتی ہے۔