معروف پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے مشورہ دیا ہے کہ اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر نانی یا دادی کے ساتھ بیٹھیں اور اُن کے ساتھ چائے پراٹھا کھا کر زندگی کو انجوائے کریں۔

یہ بات انہوں نے کراچی میں منعقدہ اپنی نئی آنے والی فلم نیلوفر کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

عمار رسول کی ہدایت کاری میں نیلوفر فلم بنائی جارہی ہے جو رمانوی کہانی پر مبنی ہے اور ہدایت کار ہی اس کے مصنف بھی ہیں۔

فلم میں فواد خان، ماہرہ کے علاوہ مدیحہ امام، بہروز سبزواری سمیت دیگر بھی کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ اس فلم کے شریک پروڈیوسر فواد خان بھی ہیں۔

یاد رہے کہ فواد خان اور ماہرہ خان کی جوڑی نے ڈرامہ ہمسفر سے شہرت حاصل کی جس کے بعد دونوں کو بالی ووڈ میں موقع ملا اور پھر طویل وقت کے بعد چند سال قبل دونوں بلال لاشاری کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں ایک ساتھ نظر آئے تھے۔

ڈرامہ اور فلم شائقین اس جوڑے کو رومانوی کرداروں میں ایک ساتھ دیکھ کر بہت پسند کرتے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرہ خان نے بتایا کہ ’فواد اور اُن کا کردار رومانوی ہے اور اس سے اُن کے گھر والوں کو بھی اعتراض نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ تم محبت کرنے والی لڑکی ہو تو کردار اچھا ہی نبھاؤں گی‘۔

ماہرہ کے مطابق فلم میں رومانوی کہانی کے ساتھ اور بھی دیکھنے کو ملے گا اور انہیں امید ہے کہ شائقین اس کو بہت پسند بھی کریں گے۔

طویل عرصے بعد ایک ساتھ کام کرنے سے متعلق سوال پر اداکارہ نے کہا کہ ہاں ہم کافی عرصے بعد ایک ساتھ کام کررہے ہیں مگر اس میں بہت مزہ آیا، اسی کے ساتھ انہوں نے دیگر اداکاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیٹ پر ایک ساتھ ہوتے اور ایک دوسرے سے نہ صرف محبت کرتے بلکہ احترام کے ساتھ رہتے ہیں۔

ماہرہ خان نے کہا کہ اس فلم کے پروڈیوسر باصلاحیت اور ذہین ہیں انہوں نے نہ صرف ہم سب کو ایک ساتھ جمع کیا بلکہ فلم میں بھی لے کر آرہے ہیں۔ اداکارہ نے بتایا کہ فلم میں بہروز سبزواری، نوید شہزاد اور فواد کے ساتھ بھی مناظر ہیں۔

اداکارہ نے فلم کے حوالے سے کہا کہ ’لوگوں کو انتہائی مصروف دنیا میں سے کچھ وقت اپنے لیے نکال کر دادی یا نانی کے ساتھ ملائی والی چائے اور پراٹھے کھاتے ہوئے اسے دیکھنا اور انجوائے کرنا چاہیے‘۔

فواد خان کے ساتھ دوبارہ کام کا موقع ملنے پر ماہرہ نے کہا کہ ’’ہم اداکاروں کے طور پر بھی کچھ مختلف تھے، لیکن چونکہ ہم نے اتنے عرصے سے ایک ساتھ کام نہیں کیا لیکن اس بار بہت مزہ آیا ہے‘۔

فواد خان کے ساتھ اپنی جوڑی کی شہرت اور لوگوں کی محبت ملنے کے حوالے سے ماہرہ نے کہا کہ یہ فلم میرے دل کے بہت قریب ہے کیونکہ یہ ایک رومانوی کہانی ہے، ایک ایسی فلم جس میں محبت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماہرہ خان نے نے کہا کہ انہوں نے فواد خان ایک ساتھ کے ساتھ فلم میں

پڑھیں:

پاکستان ایکسپریس؛ دہلی کے چائے خانے سے ریاست مدینہ تک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251117-03-8

 

خلیل الرحمن

سنیے! یہ جو پاکستان ایکسپریس چلی تھی اس کا قصہ بھی سن کر دیکھیے آپ بھی سر دھنتے ہوئے کہیں گے یا خدا یہ کیا ماجرا ہے۔ سفر کا آغاز تکبیروں کی گونج اور جنت کی منزل کے وعدے سے ہوا انجن میں پہلا ایندھن ڈالا گیا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ واہ رے واہ!! ایسا لگا جیسے اب گھی کے چراغ جلیں گے اور قوم پنجوں کے بل چلے گی، مگر میاں بسم اللہ ہی غلط اُتر گئی، ڈرائیور نے اسلامی جمہوریت کے اسٹیشن پر اتنی دیر ٹال مٹول کی کہ گاڑی رُکی کم اور رگڑے زیادہ کھائے۔ مسافروں نے چائے پانی سے زیادہ سگار کے کش لگائے۔ آگے چل کر بنیادی جمہوریت کی ایسی پرپیچ کھائیاں آئیں کہ مسافروں کا آٹے دال کا بھاؤ پانی کی طرح بہہ گیا، ڈرائیور جو خود کو انجینئر سمجھنے لگے تھے بریک کو بھول کر ایکسیلیٹر پر ہی پیر جمائے بیٹھے رہے اور سائیڈ مرر میں اپنے عکس سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے رہے۔

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہ کھائیاں پار ہی ہوئی تھیں کہ ون یونٹ کے اسٹیشن پر ایسا ازدحام مچا کہ خدا ہی حافظ تھا سمجھ لیجیے کہ ایک پھول میں سو کانٹے سمٹ آئے اور غصے میں آ کر گاڑی نے اپنا ایک ڈبا ہی گول کر دیا اْس دن سے یہ قول مشہور ہوا ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور پھر تو گاڑی کا انجن ایسا ٹھنڈا پڑا کہ کسی زورآور کے بس کی بات نہ رہی ایک نئے مسافر نے لقمہ دیا روٹی، کپڑا اور مکان کا ایندھن لگاؤ مگر جناب وہ ایندھن ڈالا کم گیا چوری زیادہ ہوا پھر بھی گاڑی کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کیا گیا مسافر پھولے نہ سمائے کہ اب تو نئی نویلی دلہن کی طرح سب کچھ سج جائے گا، مگر وقت کا پلٹا ہوا پتا دیکھیے سامنے سے ایک ٹرین آ نکلی جس پر بڑے حروف میں لکھا تھا نو ستارے نو بھائی بھٹو تیری شامت آئی، اس ٹکر میں گاڑی کا رُخ مڑ کر اسلام ہمارا عقیدہ، جمہوریت ہمارا نظام کے اسٹیشن پر آ گیا یہاں ہر گھر سے نوکری کا خواب ایسا بیچا گیا کہ مسافروں نے سمجھا اب تو انگریز کے زمانے کی پنشن مل جائے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ٹامک ٹوئیاں مارتے سب واپس اسی ڈسے ہوئے مقام پر آ پہنچے، گاڑی کو اسلامی نظام و قوانین کے اسٹیشن پر ٹھیرنا تھا مگر انجن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور چلتا پرزہ بن کر سیدھا جمہوریت بحال کرو کے اسٹیشن پر جا رْکا۔ یہاں گاڑی کو پتا چلا کہ آگے کا ویزہ صرف قائد کا وفادار ہی لے سکتا ہے ورنہ تو وہ غدار ہے اور موت کا حقدار! گویا دال میں کالا بہت پہلے ہی پڑ چکا تھا۔

آگے ترقی و خوشحالی کی منزل کی طرف گاڑی نے ہچکولے کھانے شروع کیے جیسے ڈرائیور نے کوئی نیا نشہ کیا ہو یہ حالت دیکھ کر کسی سیانے نے گاڑی کا رُخ جدید پاکستان کی طرف موڑ دیا مگر میاں یہ اندھیرے میں ہاتھ مارنے والی بات تھی گاڑی ابھی مقامی حکومتوں کے اسٹیشن سے گزر ہی رہی تھی کہ نئے پاکستان کی تبدیلی سے ایسی لڑکھڑائی کہ ڈرائیور سمیت سب کی بتیس دانتوں میں زبان آ گئی۔ مرمت کے نام پر احسن حکمرانی اور غریب دوستی کے پرزے لگائے گئے جن کا حال نقار خانے میں توتی کی آواز جیسا تھا ساتھ ہی فوراً پاکستان کھپے کا نیا انجن منگوانے کا شور مچا بس یہیں پرانے انجن نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور چلّا اٹھا مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا۔

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو قطرۂ خوں نہ نکلا

جب ہماری یہ سیاسی ایکسپریس دوبارہ جمہوریت بحال کرو کے اسٹیشن پر رکی تو نئے ڈرائیور صاحب ایک ایسے خواب لیے آئے کہ سن کر عقل دنگ رہ گئی انہوں نے اعلان فرمایا اب ہم اس کھٹارا گاڑی کو سیدھا ریاست ِ مدینہ کے ٹریک پر ڈالیں گے۔ لوگوں نے سنا تو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا معاملہ پیش آ گیا، وہی انجن جو پہلے اسلامی قوانین کے اسٹیشن پر کانوں میں تیل ڈال کر سو رہا تھا اب اچانک اسے اسلامی فلاحی ریاست کا خیال آیا، ڈرائیور صاحب نے فرمایا کہ ہم عمرانیات کو بھی مدینہ کی طرز پر ڈھالیں گے مگر المیہ یہ تھا کہ وہ نہ خود مغرب کی ٹوئی چھوڑ پائے نہ ہی یہ سمجھ سکے کہ ریاست ِ مدینہ تلوار سے نہیں عدل و کردار سے بنتی ہے یہاں ایک نئی پھکڑپن شروع ہوئی جہاں پہلے ہر گھر سے نوکری کی بات ہوتی تھی اب ہر فرد کو ریاست کا نگہبان بنانے کے دعوے ہونے لگے۔ وہ خواب تھا جو فقط سو گئے تو خواب ہوا؍حقیقتوں سے جسے دور کر دیا گیا تھا۔

یہ ریاست ِ مدینہ والا نیا انجن لگا تو سہی مگر میاں یہ تو الٹی گنگا بہنے لگی جب ڈرائیور نے گاڑی کو جدید پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کی تب ہی اس کے پرزے ایسے ڈھیلے ہوئے کہ ہر کوئی اپنے منہ میاں مٹھو بنا بیٹھا تھا اصل میں لگایا کچھ گیا نکلا کچھ اور اسی انجن کی گڑگڑاہٹ میں نئے پاکستان کی تبدیلی کا وہ پرچم بھی لہرا رہا تھا جس پر احسن حکمرانی اور غریب دوستی کی مرمت درج تھی مگر مرمت ایسی ہوئی کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور، گاڑی لڑکھڑا کر پھر سے کھائی میں گرنے ہی کو تھی کہ نیا شور بلند ہوا مجھے کیوں نکالا اب کہانی پھر سے پاکستان کھپے اور ووٹ کو عزت دو کے پرانے ٹریک پر آ گئی ہے، اور ریاست ِ مدینہ کا خواب بیچ بازار میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ یہ سیاسی ریل گاڑی چلتی رہے گی ڈرائیور بدلتے رہیں گے ایندھن چوری ہوتا رہے گا۔ مگر یاد رکھیے جس دن مسافروں نے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اْس دن یہ گاڑی نہیں رْکے گی، بلکہ یہ کھٹارا لوہے کا ڈبا پرزہ پرزہ ہو جائے گا اور منزل خود بخود سامنے آ جائے گی اپنا خیال رکھیے اب تو چائے کا ایک گھونٹ پی لیجیے ورنہ یہ بھی ٹھنڈی ہو جائے گی۔

خلیل الرحمن

متعلقہ مضامین

  • کولکتہ ٹیسٹ میں پچ تیار کرنے کا مشورہ کس کا تھا؟ گنگولی نے نام بتا دیا
  • فواد اور ماہرہ خان نے ’’نیلوفر‘‘ سے امیدیں بادھ لیں
  • وی ایکسکلوسیو، حکومت سیاسی درجہ حرارت میں کمی پر متفق، پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ جلد ہوگا، فواد چوہدری
  • پاکستان ایکسپریس؛ دہلی کے چائے خانے سے ریاست مدینہ تک
  • ماہرہ خان کو نانی کی نصیحت نظر انداز کرنا مہنگا پڑگیا
  • ٹنڈومحمدخان، قلت آب کیخلاف مکینوں کا شدید احتجاج
  • کراچی کو ناپسند کرنے والوں کے بیان پر ماہرہ خان کا ردعمل سامنے آگیا
  • زیادہ پروسیسڈ خوراک کھانے والی خواتین میں رسولیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے، ماہرین کا انتباہ
  • قانونی تقاضے پورے کرنے والے ہوٹلز ڈی سیل کردیے گئے