مخصوص نشستوں کے بعد پی ٹی آئی کا بڑا فیصلہ، اراکین سے دوبارہ وفاداری کا حلف
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے پارٹی اراکین کو دوبارہ سے وفاداری کے حلف نامے دینے کا پابند بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پارٹی کو خدشہ ہے کہ مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس کا راستہ روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں پارٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا ایک اہم اجلاس کل اسلام آباد میں منعقد ہوگا، جس میں قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے تمام اراکین کو شرکت کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے۔
اجلاس کا بنیادی مقصد نہ صرف موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لینا ہے بلکہ ایسے اقدامات پر غور کرنا بھی ہے جن سے اراکین کی پارٹی وابستگی کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی کے اراکین سے ایک بار پھر باقاعدہ تحریری حلف نامے لیے جائیں گے، جن میں وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں گے کہ وہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔
خاص طور پر خیبرپختونخوا اسمبلی کے 35 آزاد اراکین کو اس عمل کا حصہ بنایا جائے گا، جو حالیہ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، مگر قانونی طور پر آزاد حیثیت رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ عام انتخابات کے بعد بھی پارٹی نے اپنے تمام منتخب اراکین سے اسی نوعیت کا حلف نامہ لیا تھا تاکہ کسی بھی ممکنہ سیاسی انحراف کو روکا جا سکے،مگر سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد پارٹی کی پوزیشن خاصی کمزور ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں کو تقویت ملی ہے اور اب کے پی اسمبلی میں صرف 8ووٹ درکار ہیں جن کی مدد سے حکومت کو خطرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔
پارٹی قیادت کو خدشہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں، بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ان آزاد یا کمزور وابستگی رکھنے والے اراکین سے رابطے میں آ سکتی ہیں۔ اسی امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے سیاسی دفاع کو مضبوط کرنے اور پارٹی ڈسپلن کو بحال رکھنے کے لیے دوبارہ حلف لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ وقت نازک ہے۔ ایک طرف مخصوص نشستوں کے فیصلے نے پارلیمانی طاقت کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف پارٹی کے خلاف قانونی اور سیاسی محاذ پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں پارٹی اراکین کا متحد رہنا اور پارٹی پالیسی پر عمل پیرا ہونا انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
دوسری جانب پارٹی کے اندرونی حلقے اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ اگر کسی رکن نے حلف نامہ دینے کے باوجود پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف کیا تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پارٹی آئندہ چند دنوں میں ایک سخت ڈسپلنری پالیسی کا اعلان بھی کرے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں اراکین سے پی ٹی آئی کے بعد
پڑھیں:
بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
بلوچستان میں سنہ 1972 سے لے کر آج تک سیاسی تاریخ زیادہ تر مخلوط حکومتوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ صوبے میں کبھی کسی بڑی سیاسی جماعت کو اکیلے حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا بلکہ مختلف جماعتوں کے اتحاد اور سیاسی سمجھوتوں سے حکومتیں قائم ہوئیں تاہم بیشتر مخلوط حکومتیں اختلافات، گورنر راج یا مرکز صوب کشیدگی کے باعث اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہیں۔
پہلی مخلوط حکومتبلوچستان کی پہلی مخلوط حکومت اپریل 1972 میں بنی جب نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اتحاد کر کے سردار عطا اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
یہ حکومت تعلیم، صحت اور زرعی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی لیکن مرکز کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے۔
حکومت پر الزام لگا کہ وہ غیر ملکی اسلحہ کے ذریعے صوبے کو آزاد کرانے کی سازش کر رہی ہے۔ یوں صرف 9 ماہ بعد فروری 1973 میں یہ حکومت برطرف کر دی گئی اور صوبے میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔
سنہ 1989: نواب اکبر بگٹی کی وزارت عالیہسنہ 1989 میں نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی حکومت میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور آزاد ارکان شامل تھے لیکن چند ہی ماہ بعد اختلافات شدت اختیار کر گئے۔
مزید پڑھیے: بلوچستان: مائنز اینڈ منرلز بل پر اتفاق رائے کی کوششیں، وزیر اعلیٰ کی اسمبلی میں تفصیلی وضاحت
بگٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے، مرکز کے ساتھ بھی تصادم ہوا اور آخرکار صرف 14 ماہ بعد اس حکومت کا خاتمہ ہوا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔
سال 1990: ظفراللہ جمالی وزیراعلیٰ بن گئےسنہ 1990 کے عام انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ جمالی وزیراعلیٰ بنے لیکن وہ ایوان میں اکثریت ثابت نہ کر سکے اور ان کی حکومت صرف 22 دن کے اندر ختم کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر اسمبلی بحال ہوئی اور نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے مگر یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اندرونی اختلافات اور اتحادیوں کی بغاوت کے باعث محض 20 ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ دی۔
الیکشن 1997: سردار اختر مینگل نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالاالیکشن1997 میں سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی جماعت بی این پی نے جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا لیکن تھوڑے عرصے بعد وہ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے اور استعفیٰ دینا پڑا۔
ان کے بعد میر جان محمد جمالی وزیراعلیٰ بنے مگر سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور یوں یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔
وہ حکومت جس نے 5 سالہ مدت پوری کیسنہ 2002 میں پہلی بار بلوچستان میں ایک ایسی مخلوط حکومت بنی جس نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی۔ وہ دور پرویز مشرف کے زیر سایہ تھا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کے نوجوان پائلٹس کے تربیتی پروجیکٹ میں اہم پیشرفت
جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بنے اور مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل نے اتحاد کیا۔ اس حکومت میں اتحادی اختلافات ضرور تھے لیکن وفاق کی پشت پناہی اور مشرف دور کے غیر معمولی کنٹرول نے حکومت کو گرنے سے بچائے رکھا۔ یوں بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مخلوط حکومت نے اپنی مدت مکمل کی۔
سنہ 2008: نواب اسلم رئیسانی اور پھر گورنر راجسنہ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی جس میں بلوچستان اسمبلی میں اس وقت 62 اراکین جن میں ق لیگ کے 20 میں سے 19، جمعیت علماء اسلام کے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 7، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، نیشنل پارٹی پارلیمینٹیرین کے ایک اور 9 آزاد اراکین نے نواب اسلم رئیسانی کی حمایت کی اور یوں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔
نواب اسلم رئیسانی کا حکومتی دور تقریباً 4 سال چلا لیکن کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر ہونے والے پے در پے 2 دھماکوں میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے باعث صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔
انتخابات 2013سنہ2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ایک منفرد پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل ہوا۔ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے معاہدے کے تحت حکومت بنائی۔
طے پایا کہ ڈھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ رہیں گے اور باقی مدت مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئے گی۔ یہی ہوا پہلے عبدالمالک بلوچ نے اقتدار سنبھالا اور پھر نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان حکومت اور پاکستان ریلویز کا پیپلز ٹرین سروس شروع کرنے پر اتفاق
نواب ثناء شہری بھی اپنا دور مکمل نہ کر پائے اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
سنہ 2018: پی ٹی آئی اور باپ پارٹی کی حکومتسال2018 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) وجود میں آئی اور اس نے پی ٹی آئی اور آزاد ارکان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
جام کمال خان وزیراعلیٰ بنے لیکن ان کے خلاف اپنی جماعت کے اندر ہی اختلافات شدید ہو گئے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر وہ مستعفی ہوگئے۔
ان کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے اور باوجود اس کے کہ حکومت میں بار بار بحران پیدا ہوئے، اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کر لی۔
گزشتہ انتخابات اور موجودہ وزیراعلیٰسنہ2024 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں نے ایک نئی مخلوط حکومت تشکیل دی۔ میر سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ ہیں۔
موجودہ حکومت مائنز اینڈ منرلز ایکٹ، ایوی ایشن ڈویلپمنٹ پلان اور روزگار پروگرام پر کام کر رہی ہے تاہم حکومت کو اندورنی اختلافات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟
بلوچستان کی نصف صدی پر محیط تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومتیں ناگزیر ہیں لیکن بار بار ناکام ہونے کی بڑی وجہ مرکز اور صوبے کے درمیان عدم اعتماد اور اتحادی جماعتوں کے باہمی اختلافات رہے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اگر موجودہ حکومت بھی سیاسی استحکام برقرار رکھ پائی تو یہ صوبے کے عوام کے لیے ترقی اور استحکام کی نئی مثال قائم کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان حکومت بلوچستان کی حکمران جماعتیں بلوچستان کے حکمران اتحاد