پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما شیرافضل مروت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، البتہ وہ پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال سے مایوس ضرور ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیرافضل مروت نے 14 اگست کے احتجاج کی کال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کس نے کیا، اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ ہم تو یہی سمجھے تھے کہ 14 اگست کو جشنِ آزادی منایا جائے گا، لیکن اب تو مجھے بھی شک ہے کہ یہ ناقص فیصلہ آخر آیا کہاں سے؟
علیمہ خان اور پارٹی رہنماؤں کی باتوں پر تحفظات
انہوں نے کہا کہ علیمہ خانم کے بیان سے بھی واضح نہیں ہو سکا کہ 14 اگست کو احتجاج کرنا ہے یا صرف سڑکوں پر نکلنا ہے۔ ان کے مطابق، کچھ پارٹی رہنماؤں نے یہ پیشکش کی کہ اگر وہ خاموش رہیں تو انہیں دوبارہ پارٹی میں جگہ مل سکتی ہے،لیکن میں نے صاف کہہ دیا کہ میں کسی بھی ‘کاز کے لیے ہمیشہ تیار ہوں، زبان بندی قبول نہیں۔
  پارٹی میں واپسی کی شرط
شیرافضل مروت کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی میں اپنا سیاسی مستقبل نہیں دیکھتے، تاہم اگر دو بنیادی شرائط پوری ہوتیں تو وہ کردار ادا کرنے کو تیار تھے،پہلی یہ کہ پارٹی کے اندر رویوں میں بہتری لائی جائے اوردوسری یہ ہےکہ احتجاجی سرگرمیوں پر پابندی نہ ہو
انہوں نے موجودہ قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے بانی احتجاج چاہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ وہ واحد کام ہے جو موجودہ قیادت سے ممکن نہیں۔
سیاسی مؤقف واضح
شیرافضل مروت نے زور دے کر کہا کہ کسی اور جماعت میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن موجودہ پی ٹی آئی میں میرا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا۔
ان کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کی موجودہ پالیسیوں اور قیادت کے فیصلوں سے نالاں ہیں، تاہم اصولی مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سیاسی و سماجی کارکن سید عامر سہیل کا خصوصی انٹرویو

اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی گفتگو میں وادی کشمیر کے معروف تجزیہ نگار و سیاسی و سماجی کارکن اور ڈسٹریکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے سابق ممبر کا کہنا تھا کہ 25 کتابوں پر حکومتی پابندی غیر جمہوری عمل ہے جس سے بھارت کو کچھ ہاتھ نہیں آئیگا اور وہ اس عمل سے کوئی بھی چیز حاصل نہیں کرسکتا ہے، بی جے پی کے ذریعے انجام دی جانیوالی نفرت کی سیاست بھارتی سیکیولرازم اور جمہوریت کیلئے شدید خطرہ ہے۔ متعلقہ فائیلیںمودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی پوزیشن دفعہ 370 کے خاتمے کو 6 سال گزر چکے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے بعد وادی کشمیر کے سیاسی، دینی و سماجی رہنماؤں کو شدید ترین عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ 6 برسوں میں وادی کشمیر میں نہ کوئی ترقی دیکھی گئی اور نہ بھارتی مظالم و بربریت میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ جماعت اسلامی کشمیر، عوامی ایکشن کمیٹی اور اتحاد المسلمین جیسی دینی و سماجی تنظیموں پر پہلے سے ہی پابندی عائد کی جاچکی ہیں، اب حالیہ دنوں ملکی و غیر ملکی قلم کاروں کی 25 مختلف کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کو لیکر اسلام ٹائمز نے وادی کشمیر کے معروف تجزیہ نگار و سیاسی و سماجی کارکن اور ڈسٹریکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے ممبر سید عامر سہیل سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جس دوران انہوں نے کہا کہ 25 کتابوں پر پابندی غیر جمہوری عمل ہے جس سے بھارت کو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور وہ اس عمل سے کوئی بھی چیز حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے ذریعے انجام دی جانیوالی نفرت کی سیاست بھارتی سیکیولرازم اور جمہوریت کیلئے شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اور یہاں کی لیڈرشپ خوف و ہراس کے سایے میں زندگی گزار رہی ہے۔ سید عامر سہیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو راہل گاندھی کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ چوری کے الزامات کا جواب دینا چاہیئے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں جھڑپ، قیادت پر کمپرمائزکے الزامات
  • وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سیاسی و سماجی کارکن سید عامر سہیل کا خصوصی انٹرویو
  • بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر اقوام متحدہ سے بھی پابندی لگوانے کی کوشش کریں گے، بلاول
  • موجودہ حکومت جیت کر نہیں آئی، مسلط کی گئی: حافظ نعیم الرحمان
  • 5کلو سونے کی واپسی کا کیس؛ لاہور ہائیکورٹ نے کسٹم حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
  • لتا کی ساڑھی نہیں تو امیتابھ بچن کا موزہ ہی دیدو؛ بشریٰ انصاری
  • پی ٹی آئی کا 9مئی کیسز میں پارٹی رہنماؤں کو سزاؤں کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان
  • جو پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، خالد مقبول صدیقی
  • جو پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، خالد مقبول