بانی اور پی ٹی آئی میں فاصلہ ہے، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ بانی اور پی ٹی آئی میں فاصلہ ہے اور فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کے دوران عرفان صدیقی نے کہا کہ جتنی ملاقاتیں بانی پی ٹی آئی کی ہوئی ہیں، اتنی دوسرے قیدیوں کی نہیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور بانی میں فاصلہ ہے فیصلہ سازی کافقدان ہے، پارٹی کے پاس کوئی ایجنڈ نہیں، یہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں میں یہ نہیں مانتا۔
وفاقی وزیر مملکت برائے امورداخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ دستور گالم گلوچ اور گریبان پکڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ن لیگی سینیٹر نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے ایک دوسرے پر اعتماد کرنا سیکھیں، ہم کسی کی کوئی سیٹیں چھیننے کی خواہش نہیں رکھتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں میں تصور نہیں کرسکتے احتجاج کہاں چلا گیا ہے، فرنیچر مائیک توڑا گیا ہے۔ اسپیکر کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔
عرفان صدیقی نے یہ بھی کہا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی سیٹیں ختم نہیں کر سکتے اس لیے الیکشن کمیشن گئے، ان کے اقدام سے ایک میسیج ضرور گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اتنا سمجھیں کہ یہ کوئی ڈی چوک نہیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں مل سکیں یہ ایک قانونی مسئلہ ہے۔
ن لیگی سینیٹر نے کہا کہ کے پی حکومت ختم کرنے کی کوئی بات نہیں،وہاں نمبر گیم بھی پورا نہیں، اگر پی ٹی آئی کے اندر سے بغاوت ہوتی ہے تو ان کا اپنا مسئلہ ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی پی ٹی ا ئی نے کہا کہ
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔