اسرائیل کا خاتمہ ہمارا ناقابل تبدیل ہدف ہے، شہید حاج رمضان کے کلمات
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی محاذ کی تزویراتی گہرائی کا ذکر کرتے ہوئے شہید نے کہا کہ ہم ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس میں امام حسین (ع) اور اہل بیت (ع) کی مرضی اور رضا ہے، یہ فطری بات ہے کہ ہم اس راستے میں اپنے پیاروں کی شہادت سمیت کچھ قیمتیں ادا کریں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے شہدا اور ان کے خون کو نظرانداز کر دیا ہے یا ہم ان کے راستے سے ہٹ گئے ہیں۔ میجر جنرل ایزدی نے مزید کہا کہ جب ہم اسرائیل کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے پوری طاقت سے اس حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، دشمن بھی اس بات کو سمجھ چکا ہے اور اس نے اس مقصد کے حصول کو روکنے کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت سمیت اپنی تمام طاقت استعمال کر رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
اپنی شہادت سے قبل میجر جنرل ایزدی (حاج رمضان) نے دشمن کی شدید ضربوں کے باوجود اسرائیل پر یقینی فتح کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ مزاحمت کو بھاری ضربیں لگی ہیں اور ہم نے بہت زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں، لیکن یہ راستہ اپنی قیمت مانگتا ہے، یہ دشمن کی تباہی اور اسرائیل کے خاتمے کے وعدے کی تکمیل کا راستہ ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈروں میں سے ایک میجر جنرل ایزدی (حاج رمضان) نے اپنی شہادت سے قبل دشمن کی طرف سے لگنے والی شدید ضربوں کے باوجود اسرائیل پر یقینی فتح کے بارے میں تاکید کی۔ اپنے بیانات میں میجر جنرل ایزدی نے دشمن کے شدید دباؤ اور متعدد ممتاز مزاحمتی شخصیات کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ راستہ مزید دشوارگزار ہے، لیکن یہ ہمیں ایک یقینی فتح کی طرف لے جانے والا ہے اور یہ کہ غاصب صیہونی حکومت کی نابودی ایک تمدنی اور یقینی ہدف ہے۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی محاذ کی تزویراتی گہرائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس میں امام حسین (ع) اور اہل بیت (ع) کی مرضی اور رضا ہے، یہ فطری بات ہے کہ ہم اس راستے میں اپنے پیاروں کی شہادت سمیت کچھ قیمتیں ادا کریں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے شہدا اور ان کے خون کو نظرانداز کر دیا ہے یا ہم ان کے راستے سے ہٹ گئے ہیں۔ میجر جنرل ایزدی نے مزید کہا کہ جب ہم اسرائیل کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے پوری طاقت سے اس حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، دشمن بھی اس بات کو سمجھ چکا ہے اور اس نے اس مقصد کے حصول کو روکنے کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت سمیت اپنی تمام طاقت استعمال کر رہا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ موجودہ جنگ "بقا کی جنگ" ہے، انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہم اس حکومت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ یہ فطری بات ہے کہ اس جنگ میں ہم چوٹ لگائیں گے بھی اور چوٹ کھائیں گے بھی، یہ جنگ کی ایک حقیقت ہے، لیکن ہم جس مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایک بہت ہی عظیم مقصد ہے اور ان تمام قربانیوں کا متقاضی ہے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ کی مقبول اور بااثر شخصیات کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے، جن میں سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں، کہا کہ ہم نے ایسی شخصیات کو کھو دیا ہے جو بہت عزیز تھیں اور ان کا نقصان بہت بھاری ہے، لیکن ہماری طاقت ختم نہیں ہوئی، بلکہ مزید گہری ہو گئی ہے، لیکن اس کے مقابلے میں دشمن نے جو کھویا ہے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے بھی تاکید کی کہ اس جنگ میں دشمن نے جو کچھ کھویا ہے اس کی تلافی کسی چیز سے نہیں ہو سکتی۔ میجر جنرل ایزدی نے حالیہ مہینوں میں سید حسن نصر اللہ کی بارہا دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر دشمن ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہ لیتا یا یہ سوچتا کہ مزاحمت کے پاس آپریشنل صلاحیت نہیں ہے تو وہ حملہ نہ کرتا۔
شہادت سے پہلے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم تھا کہ اسے شدید طاقت اور پختہ ارادے کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے اس نے اپنی تمام طاقت بشمول F-35 لڑاکا طیاروں اور بنکروں کو تباہ کرنے والے بموں کو میدان میں اتارا۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مزاحمت، دشمن کی طاقت سے پوری طرح آگاہی کے ساتھ اپنا راستہ اختیار کر رہی ہے، فرمایا کہ ہم نے دشمن کی طاقت کے علم کے ساتھ اپنی راہ کا انتخاب کیا ہے، یہ فطری ہے کہ اس راستے پر ہمیں نقصانات ہونگے، لیکن جیسا کہ رہبر انقلاب نے کہا کہ مستقبل میں بہت سی ہماری فتوحات منتظر ہیں۔ آخر میں، میجر جنرل ایزدی نے کہا کہ ہمارا راستہ ایک واضح راستہ ہے، دشمن تھک چکا ہے اور اس کی طرف سے اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں، ہم نے بھی نقصان اٹھایا ہے، لیکن اس طرح سے نہیں جو ہمارے ڈگمگانے کا سبب بنے، آج ہم شہداء کے راستے پر گامزن رہنے اور صیہونی حکومت کو تباہ کرنے کے الہی وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری قوت سے قدم اٹھانے کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں۔
واضح رہے کہ جنرل محمد سعید ایزدی جو حاج رمضان کے نام سے مشہور تھے، جہاد فلسطین اور محور مقاومت کی عسکری، تکنیکی اور مالی مددکے لئے وسیع نیٹ ورک کے مسئول تھے، حال ہی میں قم المقدس میں اپنے گھر میں صیہونی رجیم کے حملے کے نتیجے میں شہید ہوگئے تھے۔ راہ آزادی قدس کے اس عظیم جرنیل اور شہید نے تکنیکی مہارت، جدید سائنس، جدید ٹیکنالوجی، میزائل سسٹم، ٹنل نیٹ ورک، ڈرونز اور مزاحمت کے لیے دیگر اسٹریٹجک آلات کی تیاری کے لیے درکار مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں اور اس حمایت کے دائرے کو کئی دوسرے شعبوں تک وسعت دی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میجر جنرل ایزدی نے کا ذکر کرتے ہوئے کو ختم کرنے کا صیہونی حکومت نے کہا کہ ہے اور اس کہا کہ ہم حکومت کو راستے پر انہوں نے کی شہادت ہے کہ ہم کہ ہم نے یہ فطری لیکن اس کرنے کے دشمن کی ہوئے کہ اس بات کے لیے اور ان
پڑھیں:
جو بھی اسرائیل کیساتھ تعلقات چاہتا ہے لبنان چھوڑ دے، حزب اللہ
پارلیمنت میں حزب اللہ کے رکن نے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا حرام ہے اور اگر سب لوگ مل کر بھی ایسا کریں تب بھی یہ خدا کے نزدیک ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا اور کوئی آزاد ضمیر اسے جائز نہیں ٹھہرائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی پارلیمنٹ میں مزاحمتی دھڑے کے رکن رامی ابوحمدان نے حارہ الفکانی میں سیدلشہداء امام اباعبداللہ الحسین (ع) کی مجلس عزا سے خطاب میں کہا ہے کہ جو بھی دشمن کا ساتھ دیتا ہے ہم اسے لبنانی تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا حرام ہے اور اگر سب لوگ مل کر بھی ایسا کریں تب بھی یہ خدا کے نزدیک ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا اور کوئی آزاد ضمیر اسے جائز نہیں ٹھہرائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی دشمن کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے اسے اس پاک سرزمین کو چھوڑ کر اپنے امریکی آقاوں کی آغوش میں جانا ہوگا۔ لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے نمائندے نے کہا کہ ہم فرزندان حسین (ع)، اپنے دشمن کو اچھی طرح جانتے ہیں، ہم کبھی بھی فلسطین کے غاصبوں کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے، صیہونی وہی لوگ ہیں جنہوں نے سرزمین فلسطین کو اپنے وجود سے نجس کیا ہے اور شہیدوں کا خون زمین پر بہایا ہے۔ ابوحمدان نے کہا کہ حسین (ع)کا راستہ وقار، عزت اور آزادی کا راستہ ہے اور یہی خط ملت اسلامیہ کے تشخص اور غاصبوں کے تسلط کے مقابلے میں حسینیؑ موقف کو مضبوط اور مستحکم کرتا ہے۔