22 سالوں سے میک اپ نہ ہٹانے کا دعویٰ کرنیوالی خاتون کے چہرے میں عجیب تبدیلی
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
چین سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 22 سالوں سے اپنا میک اپ نہیں ہٹایا تھا جس کی وجہ سے ان کے چہرے میں عجیب تبدیلی آگئی ہے۔
آدیٹی سینٹرل کی رپورٹ کے مطابق 37 سالہ خاتون گاو اس وقت سوشل میڈیا پر صارفین کی توجہ کا مرکز بنی جب انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے گزشتہ 22 سال کے دوران میک اپ صحیح طریقے سے نہیں ہٹایا، جس کے نتیجے میں ان کے چہرے پر شدید الرجی اور سوجن پیدا ہو گئی۔
گاو نے سوشل میڈیا پر اپنی کہانی شیئر کی تاکہ دوسروں کو میک اپ کے بعد چہرہ باقاعدگی سے صاف کرنے کی اہمیت سے آگاہ کر سکیں۔ ان کے مطابق، انہوں نے 15 سال کی عمر سے میک اپ استعمال کرنا شروع کیا تھا، جب وہ اپنی ماں کی لپ اسٹک سے متاثر ہوئیں۔ لیکن میک اپ ہٹانا انہیں ”بہت جھنجھٹ“ لگا، اور انہوں نے اصول بنایا کہ ”اگر اگلے دن پھر میک اپ لگانا ہے تو اتارنے کی کیا ضرورت ہے؟“ اس لیے وہ صرف پانی سے چہرہ دھوتی تھیں اور اگلے دن مزید میک اپ لگا لیتی تھیں۔
اگرچہ برسوں تک انہیں مہاسوں (acne) کا سامنا رہا، لیکن ان کے بقول ان کی اسکن عمومی طور پر بہتر حالت میں رہی، لیکن اس وقت تک کہ رواں سال انہیں ایک سنگین الرجک ردِ عمل کا سامنا نہ ہوا جس نے ان کے چہرے کو اس قدر بگاڑ دیا کہ وہ پہچانی نہیں جا سکیں۔
ماہرِ امراضِ جلد سے رجوع کرنے کے بجائے، گاو ایک میڈیکل ایسٹھیٹک کلینک گئیں، جہاں انہوں نے ”اسکن بوسٹر“ انجکشن لگوایا۔ ان کے مطابق اس علاج نے ان کی حالت کو مزید خراب کر دیا، اور ان کے چہرے پر جامنی رنگت آ گئی۔
گاو نے ایک وائرل ویڈیو میں بتایا کہ یہ خارش ناقابلِ برداشت ہے، میں ہر دن گھر میں چھپی رہتی ہوں۔ میں باہر جانے کی ہمت نہیں کرتی۔ میرا پورا چہرہ جھریوں سے بھرا اور بدنما ہو چکا ہے۔ میں نہ باہر جا سکتی ہوں، نہ کسی سے مل سکتی ہوں، نہ دوست بنا سکتی ہوں۔ بدترین حالت میں یہ خارش ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے ہزاروں چھوٹی چیونٹیاں میرے چہرے پر رینگ رہی ہوں۔
رپورٹ کے مطابق سادہ گھرانے میں پرورش پانے والی گاو نے بعض اوقات سستا فاؤنڈیشن استعمال کیا، جسے وہ اپنی موجودہ حالت کا ممکنہ سبب سمجھتی ہیں۔ تاہم، ماہرین امراضِ جلد اس بات سے متفق نہیں کہ صرف میک اپ یا ناقص صفائی کی عادت اتنے شدید نتائج پیدا کر سکتی ہے۔
ایک ماہر امراض جلد کا کہنا تھا کہ بائیس سال تک چہرہ مناسب طریقے سے صاف نہ کرنا یقیناً نقصان دہ ہے، لیکن جو علامات ہم یہاں دیکھ رہے ہیں وہ زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اس میں سخت کیمیکل والے مصنوعات، ممکنہ سٹیرائیڈ کے غلط استعمال، یا بار بار کیے گئے انجیکشن شامل ہو سکتے ہیں۔
گاو کے کیس نے چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو (جو کہ ایکس کا چینی متبادل ہے) پر ایک وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ متعدد صارفین حیران ہیں کہ کیا صرف میک اپ صحیح طریقے سے نہ ہٹانے سے ایسا الرجک ردِ عمل پیدا ہو سکتا ہے، یا گاو نے کوئی اور ایسا کام کیا ہے جس سے ان کی جلد کو نقصان پہنچا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ان کے چہرے انہوں نے کے مطابق گاو نے میک اپ
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔