data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سوال: ایک موقع پر ایک صاحب نے دورانِ گفتگو ایک حدیث بیان کی۔ روزِ قیامت رب العالمین انسان کے بارے فیصلہ کچھ اس طرح کریں گے کہ ایک انسان کی نماز آئے گی، اور اس کی نجات کے لیے سفارش کرے گی۔ اسی طرح روزہ، قرآن اور دوسرے اعمالِ صالحہ اس کی نجات کے لیے سفارش کریں گے لیکن رب العالمین ان تمام اعمال کو ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دے کر فرمائیں گے کہ آج میں نے فیصلہ نماز، روزے، زکوٰۃ وغیرہ پر نہیں بلکہ اس انسان کے ’اسلام‘ پر کرنا ہے۔ پھر اسلام کو بلاکر اس کے نتیجے کو دیکھ کر نجات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ یہاں ’اسلام‘ سے کیا مراد ہے؟ پھر نماز اور دوسرے اعمال کی تاکید کا کیا مقصد ہوا؟
جواب: یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے مضمون پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ حدیث میں اسلام کی بنیاد پر فیصلے کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے گا کہ ایک انسان پورے دین کو مانتا ہے یا نہیں، اس کے ہرحکم کے سامنے سرخم تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً، ’’پورے اسلام میں داخل ہوجائو‘‘ پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ یا صرف اسلام کے چند احکام کو جو اس کو پسند آئے انھیں قبول کیا اور ان پر عمل کیا، باقی کو نظرانداز کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘ (البقرہ: 85)۔ قرآن پاک کی اس آیت کریمہ میں یہودیوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے کچھ احکام کو مانتے تھے اور کچھ کا انکار کرتے تھے۔
یہی طرزِعمل اب مسلمانوں نے بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگ چند عبادات کو دین سمجھ کرکے ان پر عمل کرتے ہیں لیکن اسلام کے باقی حصے کو دین ہی نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں، نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور حج کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن باقی دین کو ترک کر دینے میں کوئی گناہ نہیں سمجھتے۔ حدیث میں انھی لوگوں کی مذمت کی گئی ہے کہ اس قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔ نماز، روزے اور دیگر اعمال کے فضائل اور جو تاکید کی گئی ہے اس کا فائدہ بھی انھی لوگوں کو ملے گا جو پورے دین کو مانتے اور اپناتے ہیں اور اسلامی نظام کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرے تمام نظاموں کو مٹاکر اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا اس حدیث پر اشکال درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم!
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کے کیس میں سزا یافتہ چاروں افراد بری
اسلام آباد(محمد ابراہیم عباسی )اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی کے پرتشدد واقعے میں انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے چار مجرموں کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے سنایا۔
بری ہونے والوں میں سہیل خان، شاہزیب، اکرم اور میرا خان شامل ہیں۔ سہیل خان اور شاہزیب کی پیروی معروف وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے کی۔ سماعت کے دوران بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر میں سہیل خان اور شاہزیب کا نام کہیں درج نہیں، نہ ہی شناخت پریڈ کے دوران کسی گواہ نے ان کی نشاندہی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ محمد عامر کو شناخت کرنے والے گواہوں کے باوجود کیس سے ڈسچارج کر دیا گیا، جبکہ سہیل خان کے خلاف کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔
اکرم اور میرا خان کے حوالے سے بھی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ صرف ایک گواہ نے شناخت کی، جبکہ جن گواہوں نے شناخت کی ان کا نام ایف آئی آر میں شامل نہیں۔ عدالت نے اس نکتے پر بھی سوال اٹھایا کہ اگر ملزمان سے لاٹھیاں برآمد ہوئیں تو کسی کو زخمی کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوشن نہ ملزمان کی موقع پر موجودگی ثابت کر سکی اور نہ ہی کسی کے زخمی ہونے کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔
پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت سے مزید وقت مانگا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ تمام دلائل سننے کے بعد اب مزید وقت دینا مناسب نہیں۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صرف شناخت پریڈ کی بنیاد پر سزا دینا نظام عدل کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
آخر میں عدالت نے تمام شواہد اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد سہیل خان، شاہزیب، اکرم اور میرا خان کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔