ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ بے بنیاد ہے، جنگ بندی میں ان کا کوئی دخل نہیں، جے شنکر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ رواں سال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ان کی ثالثی سے ممکن ہوئی۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق، واشنگٹن میں کوآڈ اجلاس میں شرکت کے لیے موجود بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو کھلے عام چیلنج کر دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ رواں سال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی کے بعد انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرائی تھی۔
نیوز ویک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جے شنکر نے ٹرمپ کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کمرے میں موجود تھے جب نائب صدر (جے ڈی) وینس نے 9 مئی کی رات وزیراعظم مودی سے بات کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس گفتگو میں تجارت اور جنگ بندی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔
جے شنکر کے مطابق، وینس نے مودی کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
جے شنکر نے کہا کہ ہم نے کچھ باتیں تسلیم نہیں کیں اور مودی نے پُرعزم ردعمل کا عندیہ دیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگلی صبح امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اطلاع دی کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، اسی دن پاکستانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) میجر جنرل کاشف عبداللہ نے بھارتی ہم منصب سے براہ راست رابطہ کر کے جنگ بندی کی درخواست کی۔
واضح رہے کہ یہ جے شنکر کا پہلا تفصیلی بیان ہے، جس میں انہوں نے اس تنازع کے اختتام سے متعلق بھارتی مؤقف پیش کیا ہے، جو امریکی صدر ٹرمپ کے بیانیے سے بالکل مختلف ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب ٹرمپ کا اصرار ہے کہ دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان ممکنہ جوہری تصادم کو انہوں نے ذاتی مداخلت، تجارتی دباؤ اور اعلیٰ سطحی رابطوں کے ذریعے روکا۔
بھارت کئی مواقع پر اس بات پر ناراضی کا اظہار کر چکا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مسلسل بھارت و پاکستان کے باہمی معاملات میں مداخلت کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر کشمیر کے معاملے پر۔
ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیشکش پر نئی دہلی کی طرف سے شدید ردعمل آیا ہے، جو طویل عرصے سے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ٹرمپ نہ صرف مئی کی کشیدگی ختم کرانے کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں بلکہ پاکستانی عسکری قیادت کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور ان کی تحمل کی پالیسی کو سراہتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تعاون سے پرامن حل ممکن ہوا، اگرچہ یہ مؤقف واشنگٹن کی سفارتی حکمت عملی کے لیے موزوں ہو سکتا ہے، لیکن نئی دہلی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
اس کے برعکس، اسلام آباد نے ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی کردار کو تسلیم کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے، ٹرمپ کے ایک خاموش مگر فیصلہ کن پاکستانی جنرل کا ذکر عام طور پر آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی طرف اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر کا حالیہ دورہ واشنگٹن، جس میں ان کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات بھی شامل تھی، دونوں ممالک کے درمیان کئی سال کی محدود عسکری روابط کے بعد ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
اس دورے کے بعد وزیر خارجہ روبیو نے وزیراعظم شہباز شریف کو دو بار فون کیا، جس سے یہ قیاس آرائیاں مزید زور پکڑ گئیں کہ امریکا جنوبی ایشیا میں پسِ پردہ کردار ادا کر رہا ہے تاکہ کشیدگی کو قابو میں رکھا جا سکے۔
ایک اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ بھارت دہشتگردی کے مبینہ حملوں کے جواب میں جوہری بلیک میلنگ کے آگے سر نہیں جھکائے گا اور یہ دعویٰ بھی دہرایا کہ 9 مئی کو پاکستان کے اندر کیے گئے حملے پہلگام واقعے کا جواب تھے۔
بعد ازاں، کوآڈ اجلاس کے بعد ایک پریس بریفنگ میں جے شنکر نے پاکستان کو بالواسطہ طور پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو دہشتگردی کے خلاف زیرو ٹالرنس دکھانا ہوگا، متاثرین اور حملہ آوروں کو برابر نہ سمجھا جائے، بھارت کو اپنے عوام کے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور ہم اس حق کو ضرور استعمال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے کوآڈ شراکت دار اس بات کو سمجھیں گے اور سراہیں گے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان کے کے درمیان انہوں نے ٹرمپ کے کہا کہ کے لیے کے بعد نے کہا رہا ہے
پڑھیں:
’یوکرین کو اب روس سے امن معاہدہ کرنا پڑے گا‘، جنگ بندی کی امیدیں معدوم ہونے پر صدر ٹرمپ کی ’کمزور‘ کو نصیحت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز کہا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے معاہدہ کرنا چاہیے کیونکہ روس ایک بہت بڑی طاقت ہے اور یوکرین نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ پیوٹن ملاقات: امن معاہدے پر پیشرفت، روس یوکرین جنگ بندی کا اعلان نہ ہوسکا
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا میں تقریباً 3 گھنٹے طویل ملاقات کے باوجود کوئی جنگ بندی طے نہ ہو سکی۔
ٹرمپ نے ایک بڑی پالیسی تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور پیوٹن اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ جنگ ختم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ براہ راست امن معاہدہ ہے، نہ کہ محض ایک عارضی جنگ بندی جیسا کہ یوکرین، یورپی اتحادی اور سابقہ امریکی انتظامیہ کا مؤقف رہا ہے۔
ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر اپنے پیغام میں کہا کہ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ روس اور یوکرین کے درمیان اس ہولناک جنگ کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ایک براہ راست امن معاہدہ ہے محض جنگ بندی نہیں جو اکثر قائم نہیں رہتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ جنگ، جو کہ یورپ میں گزشتہ 80 برسوں کی سب سے ہلاکت خیز جنگ ہے، جو اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد کو ہلاک یا زخمی کر چکی ہے۔ ان میں بڑی تعداد عام یوکرینی شہریوں کی ہے۔
ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ پیر کے روز یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے اور اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اس کے بعد ایک اور ملاقات پیوٹن سے طے ہو سکتی ہے۔
زیلنسکی نے الاسکا سمٹ کے بعد ٹرمپ سے ایک طویل فون کال کے بعد کہا کہ یوکرین تعمیری تعاون کے لیے تیار ہے سہ فریقی مذاکرات کے خیال کی حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ یوکرین امن کے حصول کے لیے اپنی بھرپور کوشش جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
مزید پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ نے سیمی کنڈیکٹرز پر بھاری ٹیرف عدائد کرنے کا اعلان کردیا
تاہم پیوٹن نے زیلنسکی سے ملاقات کا کوئی ذکر نہیں کیا اور روسی خبررساں ایجنسی نے پیوٹن کے مشیر کے حوالے سے کہا کہ تہرائی ملاقات پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
ٹرمپ نے فوکس نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں زمینوں کے تبادلے اور یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹیز پر بھی بات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ نکات ہیں جن پر بات چیت ہوئی، اور ہم ان پر بڑی حد تک متفق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم معاہدے کے کافی قریب ہیں لیکن یوکرین کو اس سے اتفاق کرنا ہوگا، شاید وہ انکار کر دے۔
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ وہ زیلنسکی کو کیا مشورہ دیں گے تو ان کا جواب تھا کہ معاہدہ کرنا ہوگا۔ دیکھیں روس بہت بڑی طاقت ہے یوکرین نہیں۔ وہ (یوکرینی) اچھے سپاہی ہیں مگر حقیقت مختلف ہے۔
زیلنسکی نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی معاہدے میں یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹیز شامل ہونا ضروری ہیں تاکہ روس دوبارہ حملے کا ارادہ نہ رکھے۔
یورپ کا ردعملیورپی سفارتکاروں اور تجزیہ کاروں نے ٹرمپ پیوٹن ملاقات پر مایوسی کا اظہار کیا۔
جرمنی کے سابق سفیر ولف گینگ اشنگر نے کہا کہ پیوٹن کو تو ریڈ کارپٹ مل گیا جبکہ ٹرمپ کو کچھ نہیں۔ جیسا خدشہ تھا نہ جنگ بندی، نہ امن۔ یوکرین کے لیے کچھ بھی نہیں۔ یورپ کے لیے یہ گہری مایوسی ہے۔
کارنیگی روس یوریشیا سینٹر کی محقق تاتیانا اسٹانووایا نے کہا کہ ٹرمپ نے یوکرین اور یورپ پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن پوری طرح پیوٹن کی حمایت نہیں کی۔
مزید پڑھیں: ’ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے پر آمادہ ہوں مگر‘ ۔۔۔ ؟ ہیلری کلنٹن کا حیران کن بیان
معروف مورخ سرگئی رادچینکو نے لکھا کہ پیوٹن نے اس دور میں جیت لی کیونکہ اسے کچھ دیے بغیر سفارتی فتح حاصل ہوئی، البتہ ٹرمپ نے مکمل طور پر یوکرین کو نہیں بیچا۔
میدان جنگ اور عالمی ردعملدونوں ممالک نے ہفتے کے روز بھی فضائی حملے کیے۔ یوکرینی فضائیہ نے بتایا کہ روس نے 85 ڈرونز اور ایک بیلسٹک میزائل فائر کیے جن میں سے 61 کو تباہ کر دیا گیا۔
یوکرینی جنرل اسٹاف کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 139 جھڑپیں ہوئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس اور یوکرین جنگ روس یوکرین امن معاہدہ روس یوکرین جنگ بندی یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی