سوشل میڈیا پر پرائیویسی کیسے محفوظ رکھیں؟ عملی اقدامات اور مکمل گائیڈ
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
یہ اسٹیٹس شاید وقتی طور پر تسلی دے دے، لیکن حقیقت میں نہ تو یہ فیس بک، انسٹاگرام یا کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی اثر ڈال سکتا ہے، اور نہ ہی آپ کی پرائیویسی کو کوئی قانونی تحفظ دیتا ہے۔
اگر آپ واقعی اپنی آن لائن زندگی کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، تو بس اسٹیٹس لگانے سے آگے بڑھیں اور یہ آسان مگر مؤثر اقدامات اختیار کریں:
ذاتی معلومات کم سے کم شیئر کریں
اپنا موبائل نمبر، گھر کا پتہ، یا لوکیشن پبلک پوسٹس پر کبھی مت ڈالیں۔
گھر والوں کی معلومات یا تصاویر صرف قریبی دوستوں تک محدود رکھیں۔
پرائیویسی سیٹنگز میں Friends Only یا مخصوص فہرستوں کا استعمال کریں۔
تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے وقت محتاط رہیں
پوسٹ کرنے سے پہلے سوچیں: کیا یہ تصویر مستقبل میں میرے لیے مسئلہ بن سکتی ہے؟
بچوں کی تصاویر کو پبلک نہ کریں۔
صرف انہی لوگوں سے میڈیا شیئر کریں جن پر مکمل اعتماد ہو۔
ایپس کو غیر ضروری رسائی نہ دیں
ہر ایپ کو کیمرہ، مائیک یا لوکیشن کی رسائی دینا ضروری نہیں ہوتا۔
اجازت دیتے وقت کا انتخاب کریں۔
بعد میں جا کر سیٹنگز سے اضافی رسائی بند کر دیں۔
مشکوک تھرڈ پارٹی ایپس سے بچیں
سستے کوئز، مفت گیمز، اور “جانیں آپ کی شخصیت کیا ہے؟ جیسی ایپس اکثر پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
انسٹال کرنے سے پہلے ان کی ریٹنگ، ریویوز اور پرمیشنز ضرور چیک کریں۔
اکاؤنٹ کی سکیورٹی کو ترجیح دیں
Two-Factor Authentication ہر سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر آن کریں۔
مضبوط پاس ورڈ بنائیں: حروف، اعداد اور علامات کا استعمال کریں۔
ہر تین سے چھ ماہ بعد پاس ورڈ تبدیل کریں، اور ایک ہی پاس ورڈ کو ہر جگہ مت استعمال کریں۔
حساس گفتگو پبلک میں مت کریں
نجی باتوں کے لیے End-to-End Encrypted میسجنگ ایپس استعمال کریں جیسے Signal یا WhatsApp۔
پبلک پوسٹس یا کمنٹس میں ذاتی منصوبے یا خیالات نہ لکھیں۔
پرائیویسی سیٹنگز کا باقاعدہ جائزہ لیں
ہر چند ماہ بعد اپنے اکاؤنٹس کی پرائیویسی سیٹنگز چیک کریں۔
پرانی یا غیر ضروری پوسٹس، تصاویر اور ٹیگز کو ہٹا دیں۔
اپنی آن لائن شناخت پر نظر رکھیں
آپ کی پوسٹس کو صرف دوست ہی نہیں، بلکہ ادارے، ویزہ افسر، نوکری دینے والے، اور یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
وہی مواد اپلوڈ کریں جس کی ذمہ داری آپ خوشی سے اٹھا سکیں۔
پرائیویسی اسٹیٹس لگانے سے نہیں، ہوشیاری سے بچانے سے قائم رہتی ہے۔
انٹرنیٹ پر ایک بار جو پوسٹ ہو جائے، وہ برسوں بلکہ نسلوں تک رہ سکتی ہے۔
اگر چاہیں تو میں اسے انفوگرافک یا سوشل میڈیا پوسٹ کے فارمیٹ میں بھی تیار کر سکتا ہوں۔
Post Views: 7
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بی آئی ایس پی ادائیگیوں کا نیا ڈیجیٹل نظام ، ڈھائی لاکھ مستفیدین کی تربیت جون 2026 تک مکمل ہوگی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 اکتوبر2025ء) بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے 2 لاکھ 50 ہزارمستفیدین کو جون 2026 تک ڈیجیٹل مالیاتی مہارتوں کی تربیت دی جائے گی تاکہ نئے بینکوں اور فِن ٹیک پلیٹ فارمزکے ذریعے سماجی تحفظ کی ادائیگیاں زیادہ آسان، شفاف اورقابلِ رسائی بنائی جا سکیں۔ویلتھ پاکستان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ اقدام ملک کے کم آمدنی والے لاکھوں گھرانوں کو محدود بینکوں پر انحصار کم کرنے اور زیادہ مسابقتی اور کھلے نظام کے ذریعے ادائیگی وصول کرنے کے قابل بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔منصوبے کے تحت بی آئی ایس پی کی ادائیگیاں موجودہ محدود ڈھانچے سے ہٹ کر ایسے کھلے اور مسابقتی ادائیگی ماڈل میں منتقل کی جائیں گی جہاں مستفیدین اپنے قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) سے منسلک ڈیجیٹل والٹس یا اکاؤنٹس استعمال کر سکیں گے۔(جاری ہے)
وہ رقم کمرشل بینکوں، برانچ لیس آپریٹرز، اے ٹی ایمز، ایجنٹس اور دیگر مجاز ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے بھی نکال سکیں گے۔
اس اصلاحات کا اہم حصہ یہ ہے کہ وصول کنندگان کو نئے نظام کو محفوظ اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے بی آئی ایس پی کے 2 لاکھ 50 ہزار مستفیدین کے لیے مالیاتی خواندگی کا قومی پروگرام تیار کیا ہے تاکہ وہ ڈیجیٹل ٹولز کا محفوظ اور پراعتماد استعمال سیکھ سکیں۔یہ اقدام جنوری 2024 میں مکمل ہونے والے ایک پائلٹ منصوبے کی بنیاد پرآگے بڑھایا جا رہا ہے جس میں 4,000 خواتین مستفیدین کو اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) اورجرمن ترقیاتی ادارے جی آئی زیڈ (GIZ) کے تعاون سے تربیت دی گئی تھی۔ ان تربیتی نشستوں میں مالی منصوبہ بندی، گھریلو فیصلوں میں شمولیت، موبائل فون کے ذریعے محفوظ لین دین اور سرکاری ڈیجیٹل سروسزتک رسائی کے موضوعات شامل تھے۔ توسیع شدہ پروگرام میں ان ہی تربیتی ماڈیولز کو بڑے پیمانے پرنافذ کیا جائے گا۔ مواد اردو اورعلاقائی زبانوں میں تیار کیا گیا ہے تاکہ خواتین اور دیہی گھرانے، جو بی آئی ایس پی کے 90 لاکھ سے زائد مستفیدین میں اکثریت رکھتے ہیں، آسانی سے استفادہ کر سکیں۔ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے ’’ویلتھ پاکستان‘‘ کو بتایا کہ “مالیاتی خواندگی ڈیجیٹل ادائیگیوں کو محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر مستفیدین والٹس کا محفوظ استعمال سیکھ جائیں اور اخراجات کی منصوبہ بندی کرنا جانیں تو یہ تبدیلی دور رس نتائج دے گی۔اہلکار کے مطابق اس نظام سے خاص طور پر دور دراز اضلاع میں رہنے والی خواتین کو فائدہ ہوگا جو اس وقت نقد امداد حاصل کرنے کے لیے مرد گھرانوں یا غیر رسمی چینلز پرانحصار کرتی ہیں۔ شناختی کارڈ سے جڑے ڈیجیٹل والٹس کے ذریعے وہ براہِ راست اپنی رقم تک رسائی حاصل کرسکیں گی، چھوٹی بچت کر سکیں گی اور بتدریج دیگر مالیاتی سہولیات تک پہنچ سکیں گی۔فیلڈ میں کمیونٹی سیشنز اور موبائل ٹیمیں ان علاقوں تک بھی جائیں گی جہاں بینک کی باقاعدہ شاخیں موجود نہیں ہیں، تاکہ کوئی بھی مستفید پیچھے نہ رہ جائے۔اہلکار نے مزید کہا کہ “تربیت ڈیجیٹل شمولیت کی بنیاد ہے۔ ایک بار جب لوگ والٹس کے محفوظ استعمال پرعبورحاصل کرلیں گے تو وہ دیگر باقاعدہ مالیاتی خدمات تک بھی رسائی حاصل کر سکیں گے، جس کا اثر بی آئی ایس پی سے کہیں آگے تک جائے گا۔حکومتی حکام کے مطابق نیا انٹروپریبل ادائیگی ماڈل اور اس سے وابستہ خواندگی پروگرام جون 2026 تک مکمل طور پر نافذ ہو جائیں گے۔ اگلا مرحلہ تربیتی سیشنز کو تمام صوبوں تک وسعت دینے، نقد رقم نکالنے کے مزید پوائنٹس قائم کرنے اور ڈیجیٹل سیکیورٹی کو مضبوط بنانے پر مشتمل ہوگا۔حکومت کا کہنا ہے کہ بی آئی ایس پی کی ادائیگیاں کھلے نظام میں منتقل ہونے سے بینکوں اور فِن ٹیک کمپنیوں کے درمیان مسابقت بڑھے گی، لین دین کے اخراجات کم ہوں گے اور پورے پاکستان میں محفوظ و مؤثر کیش آؤٹ کا ڈھانچہ قائم ہوگا۔ اس اقدام سے ملک کی ڈیجیٹل مالیاتی گورننس مضبوط ہوگی اور زیادہ لوگ غیر رسمی نقد معیشت سے نکل کر باضابطہ مالی نظام میں شامل ہو سکیں گے۔