خزانے کو کھربوں کا نقصان، سرکاری ڈسکوز کی بجلی چوری نقصانات میں صرف 11ارب کمی
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
بجلی چوری سے نقصانات میں بڑی کمی نہ آسکی، بجلی تقسیم کارکمپنیوں کے نقصانات میں صرف 11 ارب روپے کمی ریکارڈ کی گئی، تاہم وفاقی حکومت بجلی وصولیوں کے نقصانات 183 ارب روپے کم کرنے میں کامیاب رہی۔
سرکاری بجلی تقسیم کارکمپنیوں کی نااہلی اورچوری کی مد میں کیے گئے نقصانات میں بڑی کمی نہ لائی جاسکی جس کے باعث قومی خزانے کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
گذشتہ مالی سال کے دوران ڈسکوز کی نااہلی اور چوری کی مد میں نقصانات صرف 11 ارب روپےکم ہونے کے بعد 265 ارب روپے رہے، تاہم وفاقی حکومت کو بجلی وصولیوں کے نقصانات 183 ارب روپے کم کرنے میں بڑی کامیابی ملی ہے۔
مالی سال 24-2023 کے دوران بجلی چوری اور ڈسکوز کی نااہلی کے نقصانات 276 ارب روپے تھے جو گذشتہ مالی سال 25-2024 میں 11 ارب روپے کی کمی سے 265 ارب روپے پر آگئے ہیں۔
پاور ڈویژن کی دستاویز کے مطابق گذشتہ مالی سال ڈسکوز کی انڈر ریکوریز میں 183 ارب روپےکی کمی ہوئی جس کے بعد گذشتہ مالی سال کے دوران ڈسکوز کی انڈر ریکوریز 132 ارب روپے رہی اور مالی سال 24-2023 میں یہ نقصانات 315 ارب روپےتھے۔
دستاویز کے مطابق گذشتہ مالی سال ڈسکوز کے مجموعی نقصانات 397 ارب روپے رہے جومالی سال 24-2023 میں 591 ارب روپے تھے۔
یعنی مالی سال 25-2024 میں سالانہ بنیادوں پر ڈسکوز کے مجموعی نقصانات 194 ارب روپےکم ہوئے۔
دستاویز کے مطابق ڈسکوز کے نقصانات اور انڈر ریکوریز پاور سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ شبہاز حکومت نے گذشتہ مالی سال کے دوران بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7 روپے 12 پیسے فی یونٹ تک کااضافہ کیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: گذشتہ مالی سال نقصانات میں کے نقصانات ارب روپے کے دوران ڈسکوز کی
پڑھیں:
سیلاب سے معاشی نقصان
پاکستان میں سیلاب سے محصولات میں کمی ہوگی نہ بڑا معاشی نقصان، یہ آئی ایم ایف کا خیال ہے۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے معیشت کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش یہ حساب کتاب لگانے والے کبھی اس گاؤں میں جاتے، جہاں گھرکا دروازہ آج بھی ملبے کے نیچے ہے، جہاں اناج کے ڈھیر کی جگہ پانی کیچڑ ہے، جہاں رات کے کھانے میں بچے ماں کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں، پلیٹ کو نہیں اور ماں دور اندھیرے میں اپنے شوہرکا انتظار کر رہی ہوتی ہے جو اب پلٹ کر نہیں آئے گا۔
اخبارات یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ عوام کہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بے شمار نقصان ہوا ہے، مرنے والے بہت سے عزیز و اقارب، زیر آب آنے والی فصلیں، مکانات کا ملبہ، اگر کوئی چھوٹا کسان اپنے مال مویشی کھو دے تو وہی اس کا سب سے بڑا نقصان ہے، اگر کوئی کسان پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہو تو یہ پانی کے اونچے اونچے ریلے اسے کیا ڈبوئیں گے۔ پہلے ہی وہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے پھر اسے اخبار کی سرخیوں میں یہ پڑھنے کو مل جائے کہ بڑا معاشی نقصان نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے تو اس کے دل پرکیا گزری ہوگی۔
اگر بڑے نقصان کا مطلب مجموعی معیشت میں نمایاں کمی ہے تو آئی ایم ایف اور حکومت اس کو ایک نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ جو اندازے اور ماڈلزکا ڈیٹا انھیں بتائے، لیکن اگر ’’بڑے نقصان‘‘ کا معیار زندگی، انسانی معیشت، غربت، بقا اور معاشرے میں معاشی عدم توازن ہو تو پھر ہر جان، ہر مویشی، ہر فصل، ہرگھرکا نقصان بڑا ہوا ہے۔
کہا گیا کہ حکومت سیلاب سے متعلق اخراجات کو ہنگامی پول سے پورا کرسکتی ہے۔ شرح نمو کا یہ ہدف4.2 فی صد تھا جو اب 4 فی صد کے قریب ہی رہ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف نے کسی مدد امداد سے صاف ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ نقصان کو معمولی قابل برداشت قرار دے کر راہ فرار اختیار کر لی ہے۔ کہا گیا کہ نقصان اعشاریہ تین فی صد جی ڈی پی کا ہے۔ تو حکومت چاہتی ہے کہ اسے قابل انتظام نقصان قرار دے اور معاشی استحکام کو خطرے میں نہ ڈالے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشی نمو برقرار رہے گی، مگر مزید کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی نظر میں بڑا نقصان ہوا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر آئیں چلتے ہیں پیر والا کے کسی دیہات میں، ایک چھوٹا کسان جس نے اپنی دھان کی فصل کھو دی ہے یہ اس کا سب سے بڑا نقصان ہے۔
اس دیہاتی کے خالی باڑے کو دیکھیے جہاں جابجا جانور باندھنے کے کھونٹے ابھی بھی قائم ہیں لیکن وہ کہانی سنا رہے ہیں کہ غریب کسان کے سارے جانور پانی بہا کر لے گیا اور اس کی معیشت بھی دریا برد ہو کر صفر ہو گئی ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات جاری ہیں، ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو دو قسطوں کے اجرا کی امید ہے۔ یہ قسطیں دو مختلف قرضوں کے پروگراموں کے تحت مجموعی طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کل معاشی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 360 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ البتہ ابھی مزید نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
2022 میں سندھ میں آنے والے نقصانات کا اندازہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو کہ اگرچہ کم ہے پھر بھی اس وقت ڈالر ریٹ 300 کے قریب کے لحاظ سے 3 ہزار ارب روپے نقصان بنتا ہے اور فی الحال نقصان کا اندازہ جوکہ 2022 کے مقابلے میں 5 سے 7 گنا زیادہ ہے۔ان تمام باتوں سے فی الحال یہی نظر آ رہا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی اعداد و شمار اور انسانی حقیقت میں نمایاں فرق ہے۔ نقصان تو غریب کا ہوا ہے، ایسا معلوم دیتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ انسانی دکھ، بدحالی، فاقہ کشی کو اعداد و شمار میں صفائی کے ساتھ چھپا دیتا ہے۔
ایک ملک کی مجموعی معیشت کو دیکھتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نہیں کہ دیہی معیشت ڈوب گئی ہے اور بہت سے لوگ بچھڑ گئے۔جب رات کے اندھیرے میں ماں خالی نگاہوں سے دور سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے اور بچہ سامنے رکھی ہوئی پلیٹ کو نہیں دیکھتا۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر کا انتظار ہے جو سیلابی پانی کو چیرتا ہوا گیا تھا کہ گھر کے کچھ قیمتی سامان کو لے آؤں۔ آج وہ بھوکی پیاسی حسرت بھری نگاہوں سے اس کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ اس کا تو سب کچھ نقصان ہوگیا۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ وہ انتظار کرتی ہے اور اپنے بچے کے بھوک سے ستائے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہے۔ بچے کو بھی اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے تو روٹی پانی کا نہیں پوچھتا۔ اپنی ماں سے روتے ہوئے پوچھتا ہے’’ اماں! بابا کب آئیں گے؟‘‘