یمن: اسرائیلی بحریہ کا صنعا میں بجلی گھر پر حملہ، زور دار دھماکوں کے بعد آگ بھڑک اٹھی
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
اسرائیلی بحریہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا کے قریب ایک بجلی گھر پر حملہ کیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق یمن میں حوثیوں سے منسلک ’المسیرہ ٹی وی‘ نے اطلاع دی کہ اس جارحیت سے حزیاز بجلی گھر کے جنریٹرز کو نقصان پہنچا اور آگ بھڑک اٹھی، جس پر بعد میں قابو پا لیا گیا۔
یمن کے نائب وزیرِاعظم نے تصدیق کی کہ ایمرجنسی ٹیموں نے مزید نقصان سے بچاؤ میں کامیابی حاصل کی، صنعا کے رہائشیوں نے بھی کم از کم 2 زور دار دھماکوں کی آوازیں سننے کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ بجلی گھر کا مقام حوثی جنگجوؤں کے استعمال میں تھا، لیکن اس نے کسی ثبوت کے بغیر شہری بجلی گھر کو نشانہ بنایا، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ یہ حملہ جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
اتوار کے روز اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والے ایک بیان میں فوج نے کہا کہ یہ کارروائی حوثیوں کے بار بار کے حملوں، بشمول اسرائیل کی جانب داغے جانے والے میزائلوں اور ڈرونز کے براہِ راست جواب میں کی گئی۔
حوثی 2023 سے اسرائیل پر راکٹ اور ڈرون حملے کر رہے ہیں، جنہیں وہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے ردعمل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے یمن کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے، جن میں الحدیدہ بندرگاہ بھی شامل ہے، جو انسانی امداد کے لیے زندگی کیلئے اہم لکیر ہے، اسرائیل نے یمن کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی حملے کیے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ حوثیوں کے استعمال میں تھا۔
زیادہ تر حوثی میزائل اور ڈرون جو اسرائیل پر داغے گئے تھے، روک لیے گئے ہیں، لیکن ان حملوں اور جوابی کارروائیوں نے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے علاقائی اثرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
امریکا اور برطانیہ نے بھی یمن میں بمباری کی ہے، حوثیوں نے اسرائیل سے منسلک جہازوں کو نشانہ بنایا جو بحیرہ احمر سے گزرتے ہیں، حوثیوں کا کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں اسرائیل کی جنگ اور غزہ کی ناکہ بندی کے جواب میں کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں عالمی تجارت بھی متاثر ہوئی جو اس آبی گزرگاہ سے گزرتی ہے۔
مئی میں، واشنگٹن نے اس گروہ کے ساتھ ایک غیر متوقع جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت امریکا نے اپنی بمباری مہم روک دی اور بدلے میں حوثیوں نے امریکی مفادات سے منسلک جہازوں پر حملے بند کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم حوثیوں نے اصرار کیا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے خلاف ان کی کارروائیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔
اس سے قبل امریکی افواج نے یمن میں سیکڑوں فضائی حملے کیے تھے، جن میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ جنگ بندی بمباری کو روک دے گی۔
یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے حیران کن ثابت ہوا، اور اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے زور دیا کہ ان کا ملک اگر ضرورت پڑی تو تنہا اپنا دفاع کرے گا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیل کی بجلی گھر یمن کے
پڑھیں:
گلوبل صمود فلوٹیلا حملہ:کولمبیا نے اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کولمبیا نے اسرائیلی جارحیت پر سخت ترین ردعمل دیتے ہوئے ملک میں موجود تمام اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ صدر گستاوو پیٹرو نے اس وقت کیا جب اسرائیلی افواج نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والی گلوبل صمود فلوٹیلا پر کارروائی کرتے ہوئے عملے میں شامل دو کولمبیائی خواتین، مانویلا بیڈویا اور لونا بریتو کو گرفتار کر لیا۔
یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب فلوٹیلا غزہ کے قریب ایک خطرناک سمندری زون میں داخل ہوئی، جو ساحل سے تقریباً 150 ناٹیکل میل کے فاصلے پر واقع تھا۔
صدر پیٹرو نے اپنے بیان میں اس اقدام کو وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے ایک سنگین بین الاقوامی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل انسانی ہمدردی کی کوششوں کو طاقت کے زور پر روک رہا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اسرائیل کے ساتھ موجود آزاد تجارتی معاہدہ بھی فوری طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کیہ یہ بڑا اعلان خطے میں ایک غیر معمولی اقدام تصور کیا جا رہا ہے، کیونکہ کولمبیا صمود فلوٹیلا واقعے کے بعد اسرائیل کے خلاف اس سطح پر سفارتی کارروائی کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور فلوٹیلا کے منتظمین نے کولمبیا کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ بنانے کی جانب ایک مضبوط قدم ہے۔ عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کی جارحیت، انسانی حقوق کی پامالی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف عملی اقدامات کرے تاکہ فلسطینی عوام تک امداد کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
کولمبیا کا یہ فیصلہ نہ صرف اسرائیل کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حق میں حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔