پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میں حیران کن 40 فیصد تیزی کیسے آئی؟ بلومبرگ کی تازہ رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میں 2025 کے دوران حیران کن تیزی دیکھنے میں آرہی ہے، جس میں سب سے نمایاں کردار عام شہریوں اور چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو روایتی طور پر رسک لینے سے گریز کرتا تھا، مگر اس بار مارکیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
بلومبرگ کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
ملکی بَینچ مارک کےایس ای-100 انڈیکس رواں سال اب تک تقریباً 40 فیصد بڑھ چکا ہے، جس نے اسے ایشیا کی بہترین کارکردگی دکھانے والی مارکیٹوں میں شامل کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی استحکام اور بہتر منافع کی توقعات نے عوام کا اعتماد بڑھایا ہے۔
پراپرٹی کی قیمتوں میں جمود اور بینک منافع میں کمیچونکہ ملک میں پراپرٹی کے نرخ رکے ہوئے ہیں اور گزشتہ 2 سال میں بینک منافع کی شرح آدھی رہ گئی ہے، اس لیے بہت سے لوگ اپنی بچت کے بہتر استعمال کے لیے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کر رہے ہیں۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے بتایا کہ یہ مکمل طور پر لیکویڈیٹی پر مبنی ریلی ہے، اور جب تک یہ سرمایہ کسی نئی سمت نہیں جاتا، مارکیٹ مضبوط رہے گی۔
معاشی بہتری اور عالمی اداروں کی جانب سے اعتماد میں اضافہپاکستان نے معاشی مشکلات سے نکلتے ہوئے خاطر خواہ بہتری دکھائی ہے۔ ایس اینڈ پی گلوبل اور فِچ ریٹنگز دونوں نے اس سال پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی ہے۔ ان اداروں نے مؤثر مالیاتی انتظام اور اصلاحات کی رفتار کی تعریف کی ہے، جو وزیرِاعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف معاونت یافتہ پالیسیوں کے تحت ممکن ہوا۔
دوسری جانب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جانب سے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ان کا حالیہ طور پر 2030 تک اعلیٰ عہدے پر برقرار رہنا بھی سیاسی تسلسل کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
نئے سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد مارکیٹ میں داخلستمبر کی سہ ماہی میں 36 ہزار نئے ٹریڈنگ اکاؤنٹس کھلے، جو گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
اسی طرح اکتوبر میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں روزانہ کا ٹریڈنگ والیوم 200 ملین ڈالر سے بھی اوپر چلا گیا جو 2017 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
44 سالہ جاوید خالد مرزا، جو عسکری بینک میں سیکیورٹی افسر ہیں، پہلے اسٹاک مارکیٹ کو ’جوا‘ سمجھتے تھے۔ مگر فیس بک پر ملنے والے ’فِن فلوئنسرز‘ کی تجزیاتی ویڈیوز نے انہیں قائل کیا، جس کے بعد انہوں نے نیشنل فوڈز کے حصص خریدے، وہی کمپنی جس کی پراڈکٹس وہ گھر میں استعمال کرتے ہیں۔
میوچل فنڈز میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ سال کے آغاز میں جہاں مقامی فنڈز کے صرف 9 فیصد اثاثے اسٹاکس میں لگے تھے، وہ ستمبر تک بڑھ کر 16 فیصد ہو گئے۔
خطرات برقرار، مہنگائی اور جغرافیائی کشیدگی بڑا چیلنجاگرچہ مارکیٹ کا رجحان مثبت ہے، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ جشن خراب کر سکتا ہے۔
بلومبرگ اکنامکس کے مطابق اکتوبر میں مہنگائی توقع سے زیادہ بڑھی ہے، جس سے شرحِ سود میں کسی فوری کمی کا امکان کم ہے۔
اسی طرح بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی بھی سرمایہ کاروں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
غیرملکی سرمایہ کار منافع سمیٹ رہے ہیںدلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مقامی سرمایہ کار مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں، وہیں غیر ملکی فنڈز اس سال 308 ملین ڈالر مالیت کے حصص بیچ چکے ہیں جو 2018 کے بعد سب سے بڑا سالانہ انخلا ہے۔
اسٹاک ہوم کے فنڈ مینیجر میتیاس مارٹنسن کے مطابق
آگے مثبت رہنے کے لیے آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ پاکستان کے اگلے 10 سال پچھلی دہائی سے بہتر ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ منافع مزید بڑھ سکتا ہے، لیکن رفتار اب نسبتاً سست اور مستحکم ہو گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹاک مارکیٹ سرمایہ کاروں مارکیٹ میں رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
چینی کی قیمتوں میں اضافہ: کس شوگر مل کے پاس کتنی چینی اسٹاک ہے؟
ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے۔ کوئٹہ میں چینی کی قیمت 230 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔
ملک کے دیگر حصوں میں یہی چینی 190 سے 200 روپے فی کلو میں فروخت کی جا رہی ہے۔
چینی کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر طلب اور رسد پر منحصر ہوتا ہے.
یہ بھی پڑھیں: چینی کی زائد قیمت فروخت پر صوبوں میں جرمانے اور گرفتاریاں، وزارت فوڈ سیکورٹی کی سینیٹ میں رپورٹ
حکومتی ذرائع کے مطابق ملک بھر میں موجود شوگر ملز کے پاس اس وقت بھی 3 لاکھ 74 ہزار 870 میٹرک ٹن چینی موجود ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سی شوگر ملز کے پاس کتنی چینی اسٹاک ہے اور ان شوگر ملز کے مالکان کون ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق، 30 اکتوبر 2025 کو سب سے زیادہ چینی کا اسٹاک 39 ہزار 954 میٹرک ٹن رحیم یار خان شوگر ملز لمیٹڈ کے پاس تھا۔
مزید پڑھیں:ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
پی ٹی آئی رہنما مونس الٰہی اور دنیا میڈیا گروپ کے مالک میاں عامر محمود اس مل کے شیئر ہولڈر ہیں۔
اسی طرح، صدر آصف زرداری کے قریبی دوست اور اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ عبد الغنی کی ٹنڈوالہ یار شوگر ملز یونٹ 2 مظفر گڑھ نے 34 ہزار 570 میٹرک ٹن چینی اسٹاک کی ہوئی ہے۔
اسی مل کی یونٹ 1 خیبر پختونخوا میں 10 ہزار 238 میٹرک ٹن چینی اسٹاک موجود ہے۔ سب سے کم چینی کا اسٹاک خوشکی شوگر ملز کے پاس 123 میٹرک ٹن ہے۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد کے دکانداروں کو چینی خریدنے میں مشکلات کا سامنا کیوں؟
ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق، سب سے زیادہ چینی اسٹاک کرنے والی پہلی 10 شوگر ملز میں سے 6 کے مالکان سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز، سلمان شریف اور نصرت شہباز رمضان شوگر ملز کے شیئر ہولڈر ہیں، جس نے 570 میٹرک ٹن چینی اسٹاک کی ہوئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے مرحوم بھائی عباس شریف کے 2 بیٹے عبدالعزیز عباس شریف اورعبداللہ یوسف شریف چوہدری شوگر ملز کے مالک ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد کے شہری چینی کی قیمت 172 روپے فی کلو سے زائد ہرگز نہ دیں، انتظامیہ کی ہدایت
جس کے پاس 5 ہزار 134 میٹرک ٹن چینی موجود ہے۔
صدر آصف زرداری کے ایک اور قریبی دوست ذکا اشرف کی اشرف شوگر ملز کے پاس 20 ہزار 616 میٹرک ٹن چینی کا اسٹاک موجود ہے۔
اسی طرح سینیئر سیاستدان جہانگیر خان ترین بھی مختلف شوگر ملز کے مالک ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق ان کی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کے پاس 30 ہزار 730 میٹرک ٹن، جے کے شوگر ملز کے پاس 10 ہزار 76 میٹرک ٹن، جے ڈی ڈبلیو یونٹ 3 کے پاس 6 ہزار 620 میٹرک ٹن، جے کے شوگر ملز یونٹ 1 کے پاس 2 ہزار 730 میٹرک ٹن، اور جے ڈی ڈبلیو یونٹ 2 کے پاس 2 ہزار 532 میٹرک ٹن چینی کا اسٹاک موجود ہے۔
مزید پڑھیں: چینی کی قیمت کیوں بڑھتی ہے؟ ایک نہ ختم ہونے والا بحران
واضح رہے کہ حکومت نے شوگر ملز مالکان کی قیمتیں نہ بڑھانے کی یقین دہانیوں کے بعد چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی تھی۔
تاہم چند ماہ میں چینی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو گیا ہے، جس پر حکومت نے کارروائی کی ہے۔
حکومت نے دکانداروں کو چینی 172 روپے فی کلو میں فروخت کرنے کا حکم دیتے ہوئے زائد قیمت پر فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کی ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار کا پیٹرولیم مصنوعات اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ پر اظہارِ تشویش
جس کے نتیجے میں دکانداروں نے چینی کی فروخت روک دی ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ چینی ذخیرہ کرنے کی مدت 2 سال ہوتی ہے۔ اگر 7 لاکھ 49 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ نہ کی جاتی تو ضائع ہو جاتی۔
ایکسپورٹ کی گئی چینی کی ایکسپائری ڈیٹ اگست 2025 تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف زرداری اومنی گروپ پی ٹی آئی جہانگیر خان ترین چینی خواجہ عبد الغنی ذکا اشرف رمضان شوگر ملز شہباز شریف شوگر ملز ایسوسی ایشن عامر محمود عباس شریف مونس الہی