ٹرمپ کا روس اور یوکرین کو پاک بھارت جنگ بندی سے سبق سیکھنے کا مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس اور یوکرین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ بندی سے سبق سیکھیں۔
وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے روس اور یوکرین امن معاہدہ کر سکتے ہیں، اور اس حوالے سے ان کی صدر ولادیمیر پیوٹن سے پہلی ملاقات مثبت رہی۔
ٹرمپ نے بتایا کہ آئندہ ملاقات میں روسی صدر پیوٹن اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ ممکنہ طور پر کچھ یورپی رہنما بھی شریک ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ امن بہت ضروری ہے، جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک خطرناک صورتحال میں چند طیارے گرنے کے بعد بھی تنازع کو بڑے پیمانے پر جنگ میں بدلنے سے روکا گیا، ورنہ لاکھوں جانیں ضائع ہو سکتی تھیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات الاسکا میں ہوئی، جو 2021 کے بعد کسی امریکی اور روسی صدر کی پہلی براہِ راست ملاقات تھی۔
اس دوران امریکی وزیر خزانہ نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو بھارت پر مزید ٹیرف لگ سکتے ہیں، جس سے مجموعی ڈیوٹی 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ عزالدین الحداد نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے، جسے وہ حماس کو کمزور اور ختم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق عزالدین الحداد کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل لڑائی ختم کرنے کے بجائے حماس کے وجود کو مٹانے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ مسلح جدوجہد جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی فریم ورک کو اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، اس میں حماس پر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور آئندہ غزہ کی حکومت میں کوئی کردار ادا نہ کرے، اس شرط کو حماس اپنی بقا کے خلاف سمجھتی ہے۔
خیال رہےکہ حماس کے قبضے میں اس وقت 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔
حماس قیادت کو خدشہ ہے کہ اگر وہ یرغمالیوں کو رہا کردے تو اسرائیل دوبارہ حملے شروع کرسکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔
امریکی منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جسے حماس نئی شکل میں قبضے کے مترادف قرار دیتی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سخت مزاحمت کرے گا، اس صورتحال کے باعث امریکی منصوبے پر عملدرآمد کے امکانات مزید کمزور ہوگئے ہیں۔