امریکی صدر کا سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
امریکی صدر کا سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 18 November, 2025 سب نیوز
واشنگٹن (آئی پی ایس) امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو امریکی ساختہ ایف-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی منظوری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے یہ بات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ امریکا سے ایک روز قبل کہی۔
ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ ہم یہ کرنے جا رہے ہیں، ہم ایف-35 طیارے فروخت کریں گے‘۔
یہ فروخت ایک بڑے پالیسی تبدیلی کی نشاندہی کرے گی، جو مشرقِ وسطیٰ میں عسکری توازن کو ممکنہ طور پر بدل سکتی ہے اور واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کی ’معیاری فوجی برتری‘ برقرار رکھنے کی تعریف کو بھی آزمائے گی۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق، سعودی عرب نے زیادہ سے زیادہ 48 ایف-35 طیارے خریدنے کی درخواست کی ہے، جو کئی ارب ڈالر کا ممکنہ معاہدہ ہے اور جو محمد بن سلمان کے دورہ امریکا سے قبل پینٹاگون کی ایک اہم منظوری حاصل کر چکا ہے۔
سعودی طویل عرصے سے لاک ہیڈ مارٹن کے اس لڑاکا طیارے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر اہلکار نے ٹرمپ کے اعلان سے قبل رائٹرز کو بتایا تھا کہ صدر طیاروں کے معاملے پر ولی عہد سے بات کرنا چاہتے ہیں، پھر ہم فیصلہ کریں گے۔
سعودی عرب، جو امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، کئی برسوں سے ان لڑاکا طیاروں کا خواہشمند ہے، کیونکہ وہ اپنی فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا ہے اور بالخصوص ایران سے آنے والے علاقائی خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔
بادشاہت کی جانب سے دو اسکواڈرن کے برابر طیارے خریدنے کی تازہ کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے ریاض کے ساتھ دفاعی تعاون مزید بڑھانے کے لیے آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔
سعودی فضائیہ اس وقت مختلف قسم کے لڑاکا طیارے استعمال کرتی ہے، جن میں بوئنگ کے ایف-15، یورپی ٹورنیڈوز اور ٹائیفونز شامل ہیں۔
سعودی عرب نے اس سال کے شروع میں ٹرمپ کو براہِ راست اپیل کی تھی کہ وہ ان طیاروں کی فروخت کی اجازت دیں۔
امریکی حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ پینٹاگون کے محکمہ پالیسی نے کئی ماہ تک اس ممکنہ معاہدے پر کام کیا۔
واشنگٹن مشرقِ وسطیٰ میں اسلحے کی فروخت اس انداز سے طے کرتا ہے کہ اسرائیل کی ’معیاری فوجی برتری‘ برقرار رہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو علاقائی عرب ممالک کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ جدید امریکی ہتھیار فراہم کیے جائیں۔
ایف-35، جو اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور دشمن کے ریڈار سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، دنیا کا سب سے جدید لڑاکا طیارہ سمجھا جاتا ہے، اسرائیل تقریباً ایک دہائی سے ان طیاروں کو چلا رہا ہے، اس نے کئی اسکواڈرن تشکیل دیے ہیں، اور وہ اب تک مشرقِ وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے پاس یہ نظام موجود ہے۔
ایف-35 کا معاملہ وسیع تر سفارتی کوششوں سے بھی منسلک رہا ہے، بائیڈن انتظامیہ نے اس سے قبل ایک جامع معاہدے کے حصے کے طور پر سعودی عرب کو ایف-35 فراہم کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں ریاض کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا امکان بھی شامل تھا، تاہم یہ کوششیں بالآخر ناکام رہیں۔
ایف-35 کی ممکنہ فروخت کو امریکی کانگریس کی جانب سے جانچ پڑتال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، قانون ساز پہلے بھی 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ریاض کے ساتھ اسلحے کے سودوں پر سوال اٹھا چکے ہیں، اور کانگریس کے کچھ اراکین اب بھی سعودی عرب کے ساتھ عسکری تعاون مزید بڑھانے کے حوالے سے محتاط ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآزاد کشمیر کے نومنتخب وزیراعظم فیصل راٹھور نے عہدے کا حلف اٹھا لیا آزاد کشمیر کے نومنتخب وزیراعظم فیصل راٹھور نے عہدے کا حلف اٹھا لیا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا، جج سپریم کورٹ سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے غزہ پلان کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی حماس نے سلامتی کونسل میں ٹرمپ کےغزہ منصوبے کی حمایت میں قراردادکو مسترد کردیا الیکشن کمیشن کا اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سعودی عرب کو لڑاکا طیارے
پڑھیں:
وینزویلا میں فوجی کارروائی کرنے کیلئے اپنا فیصلہ کرچکا ہوں، ٹرمپ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ اس ہفتے کئی اعلیٰ سطح کی بریفنگز اور خطے میں امریکی فوجی قوت کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے بعد انہوں نے وینزویلا میں ممکنہ کارروائی کے لیے فیصلہ لے چکا ہوں۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق 4 ذرائع نے بتایا کہ حکام نے اس ہفتے صدر ٹرمپ کو وینزویلا میں ممکنہ فوجی کارروائیوں کے آپشنز کے بارے میں بریف کیا ہے، جب کہ وہ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ صدر نکولس مادورو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کسی مہم کی ابتدا کے کیا فوائد اور خطرات ہیں۔
اس دوران، امریکی فوج نے خطے میں ایک درجن سے زائد جنگی جہاز اور 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کر دیے ہیں، جسے پینٹاگون نے ’آپریشن سدرن اسپئیر‘ کا نام دیا ہے۔
جمعہ کو صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ غیر قانونی مہاجرین اور منشیات کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوششوں اور رجیم چینج کے امکان پر آگے بڑھنے کے راستے کے قریب ہیں۔
ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے کہا کہ میں نے کچھ حد تک فیصلہ کر لیا ہے، ہاں، میں یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کیا ہوگا، لیکن میں نے کچھ حد تک فیصلہ کر لیا ہے۔
ٹرمپ کو کس بارے میں بریف کیا گیا؟
سیکریٹری دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کیئن نے بدھ کے روز صدر کو بریف کیا تھا، جب کہ قومی سلامتی کے بڑے گروپ (جس میں سیکریٹری اسٹیٹ مارکو روبیو اور دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے) نے جمعرات کو صدر سے سیچویشن روم میں ملاقات کی تھی۔
دونوں اجلاسوں میں ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے ہدف کے آپشنز کا جائزہ لیا۔
صدر کو وینزویلا کے لیے مختلف آپشنز پیش کیے گئے، جن میں فوجی یا حکومتی تنصیبات پر فضائی حملے اور منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں پر کارروائی، یا مادورو کو براہ راست ہٹانے کی کوشش شامل ہے، پہلے رپورٹس کے مطابق صدر وینزویلا میں کوکین پیداوار کی سہولیات اور منشیات کے راستے نشانہ بنانے پر غور کر رہے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی کارروائی نہ کریں۔
ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کو ملک میں آپریشن کی اجازت دی تھی، لیکن انتظامیہ کے اہلکاروں نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی حملوں کے لیے قانونی جواز موجود نہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ بعد میں یہ امکان پیدا کیا جا سکے، حالاں کہ ٹرمپ نے حال ہی میں ’سی بی ایس‘ کے پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں کہا تھا کہ وہ وینزویلا میں فضائی حملوں پر غور نہیں کر رہے، حالاں کہ پہلے وہ اس خیال کے حق میں نظر آ رہے تھے۔
ماہرین کے مطابق ملاقاتوں میں صدر نے ناکامی یا امریکی فوجی اہلکاروں کے خطرے کے امکانات کے پیش نظر کارروائی کے احکامات دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا۔
خطے میں دستیاب فوجی وسائل
حالیہ ہفتوں میں امریکی بحریہ نے کیریبین میں اپنی فوجی قوت جمع کی ہے، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ نے منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے کم از کم 20 جہازوں پر حملے کیے، جس کا مقصد امریکی حکام کے مطابق منشیات کے بہاؤ کو روکنا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ایئرکرافٹ کیریئر یو ایس ایس جیرالڈ آر فولڈ اس ہفتے خطے میں پہنچ گیا تھا، ایئرکرافٹ کیریئر کے علاوہ، امریکی فوج نے تقریباً 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد جنگی جہاز، بشمول کروزر، ڈیسٹروئرز، ایئر اور میزائل دفاعی کمانڈ شپ، ایمفیبیئن حملہ آور جہاز، اور ایک حملہ آور سب میرین۔ اس کے علاوہ 10عدد ایف-35 فائٹر جیٹس پورٹو ریکو بھیج دیے گئے ہیں، جو کیریبین میں امریکی فوج کے بڑھتے ہوئے فوکس کا مرکز بن گیا ہے۔
ماہرین اس سطح کی فوجی تیاری کو اہم اور غیر معمولی قرار دیتے ہیں۔
سینئر ایسوسی ایٹ سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز ایریک فارنس ورتھ نے کہا کہ میں اس پیمانے اور رفتار سے حیران ہوں، اور یہ بے مثال ہے، یہ اس صدی کی سب سے اہم فوجی تیاری ہے، حقیقت میں 1989 میں امریکا کی پاناما پر انٹری تک جانے کی ضرورت ہے کہ اس کے مترادف کچھ ہو۔
وینزویلا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فوجی اہلکاروں، ہتھیاروں اور سازوسامان کی بڑی تعیناتی کر رہا ہے۔
ممکنہ خطرات اور فوائد
وینزویلا میں رجیم چینج کے لیے امریکا کی سنجیدہ وابستگی ضروری ہوگی اور یہ اعلیٰ خطرہ رکھتی ہے، لیکن صدر مادورو کو ہٹانے سے ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو وہ کریڈٹ مل سکتا ہے جو متعدد امریکی انتظامیہ میں سے کوئی حاصل نہیں کرسکا۔
اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کو ملک کا جائز رہنما تسلیم کیا تھا، لیکن 2019 میں ناکام بغاوت کے بعد گوائیڈو اقتدار حاصل نہیں کر سکے۔
اگر ٹرمپ مادورو کو ہٹاتے ہیں تو وہ بڑے فوائد کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ طاقتور شخص کو ہٹاکر اور منتخب رہنما کو اقتدار میں لے آئے ہیں، منشیات اور مہاجرین کے بہاؤ پر تعاون، اور ممکنہ تیل کے معاہدے جیسے فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے مادورو کو ہٹانے کے لیے وینزویلا میں حملوں کے احکامات دیے تو امریکی صدر کو اپوزیشن کے ٹوٹے ہوئے عناصر اور بغاوت کے لیے تیار فوج کے ساتھ سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جمعہ کو کراکس سے مادورو نے خبردار کیا تھا کہ امریکی فوجی مداخلت ایک اور غزہ، نیا افغانستان یا دوبارہ ویتنام کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
انہوں نے امریکی عوام کے لیے براہ راست پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کے پاگل ہاتھ کو روکو جو بمباری، قتل اور جنوبی امریکا اور کیریبین میں جنگ لا رہے ہیں، جنگ بند کرو جنگ نہیں چاہیے۔
امریکی فوجی مداخلت کی توسیع اس سیاسی اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے جس نے ٹرمپ کو وعدوں پر ووٹ دیا تھا کہ امریکا کو بیرونی جنگوں میں نہیں داخل کیا جائے گا، نائب صدر جے ڈی وینس اور ہیگسیتھ نے عراق جنگ میں خدمات انجام دی ہیں اور بعد میں غیر ملکی تنازعات میں امریکی مداخلت پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔
ایک کانگریسی اہلکار نے کہا کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ امریکا کو لاطینی امریکا میں مسلسل تنازع میں کھینچے، اپوزیشن کے لیے طویل مدتی حمایت کے لیے ٹرمپ کی وابستگی حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا، اور اس حمایت کے بغیر یہ کام نہیں کرے گا۔