ٹرمپ کا پاک بھارت جنگ کے درمیان 6 سے 7 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
واشنگٹن(نیوز ڈیسک) امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں چھ سے سات طیارے گرائے جانے کا دعویٰ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن بہت اہم ہے، پاکستان اور بھارت کی جانب دیکھیں ، دونوں کے درمیان جنگ بندی کرائی، یہاں تک کہ دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ پاک-بھارت تنازع کے دوران چھ سے سات طیارے مار گرائے گئے تھے۔
میڈیا سے گفتگو میں صدر نے کہا کہ پاک-بھارت تنازع کے دوران چھ سے سات طیارے مار گرائے گئے تھے، وہ ایٹمی جنگ کے لیے تیار تھے، ہم نے یہ مسئلہ حل کیا۔
انھون نے مزید کہا کہ “میں نے گزشتہ چھ ماہ میں چھ جنگیں حل کی ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے۔”
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب چند روز قبل بھی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں کردار ادا کیا۔ تاہم بھارت مسلسل اس مؤقف کو مسترد کرتا آیا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات آج الاسکا میں ہو گی، جس کے بعد دونوں رہنما مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔ روسی صدر پیوٹن ملاقات کے لیے الاسکا روانہ ہو چکے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ اس ملاقات میں روس یوکرین جنگ بندی کے حوالے سے پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی صدر کے درمیان
پڑھیں:
سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھارت شیخ حسینہ واجد کو بھارت کے حوالے کرنے کا پابند
بھارت میں موجود سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ملکی عدالت نے انسانیت کے خلاف جرائم میں موت کی سزا سنا دی ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک خصوصی ٹریبونل نے ایک طویل عدالتی عمل کے بعد شیخ حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم میں موت کی سزا سنائی ہے۔
مزید پڑھیں: انسانیت کیخلاف جرائم: بنگلہ دیشی عدالت نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی
شیخ حسینہ واجد پر الزام ہے کہ انہوں نے 2024 کے طلبہ مظاہروں کو بے رحمانہ طریقے سے کچلنے کے احکامات دیے، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 1400 افراد ہلاک ہوئے۔
شیخ حسینہ واجد کو جب بنگلہ دیش کی عدالت نے سزا سنا دی ہے تو ان کی بھارت میں موجودگی اب سوالیہ نشان بن گئی ہے کیوں کہ دونوں ممالک کے مابین اس حوالے سے ایک معاہدہ موجود ہے۔
اس معاہدے کے تحت دونوں فریقین نے سنگین جرائم اور دہشتگردی کے خلاف تعاون کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، بشمول ایسے جرائم جو طویل سزا یا موت کی سزا کا باعث بن سکتے ہیں، بشرطیکہ ان جرائم کو دونوں ممالک میں قابلِ تعاقب سمجھا جائے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بنگلہ دیش نے ماضی میں اسی معاہدے کے تحت بعض مطلوب افراد کو بھارت کے حوالے کیا، جیسے کہ یو ایل ایف اے کے رہنما انوپ چیتیا کی حوالگی۔ جبکہ اسی طرح دیگر مطلوب افراد کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔
بھارت نے مطلوب شخص تہوار رانا کو بھی امریکا سے واپس لانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور مختلف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہی بھارت، جس نے اپنی بین الاقوامی اور دوطرفہ قانونی وابستگیوں کا بارہا اظہار کیا ہے، وہ شیخ حسینہ کو پناہ دے کر کس منطق کی بنیاد پر اپنی اصولی سطح کو پسِ پشت ڈال رہا ہے؟ وہ ایسے رہنما کو کیوں تحفظ دے رہا ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے نہتے طلبہ کو کچلنے کی ہدایت دی۔
مزید پڑھیں: سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم، ’اپنے کیے کی سزا مل گئی‘
مبصرین کے مطابق نئی دہلی کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ نیک نیتی سے بات چیت کرے اور شیخ حسینہ کی حوالگی کے امکانات پر غور کرے، یا پھر واضح کرے کہ اس معاملے میں اس کے قانون کی حکمرانی کے اصول اچانک کیوں لاگو نہیں ہوتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش بھارت سنگین جرائم شیخ حسینہ واجد