بھارت سے میچ کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا، ٹیم پسند ناپسند کی بنیاد پر منتخب کی جا رہی ہے، سابق بیٹر
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
کراچی:
متحدہ عرب امارات میں شیڈول سہ فریقی کرکٹ سیریز اور ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کے انتخاب پر سابق کھلاڑیوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا تاہم کامران اکمل نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایشیا کپ میں بھارت سے اہم میچ کو مدنظر رکھ کر ٹیم کا انتخاب کرنا چاہیے تھا لیکن چند برسوں میں پسند ناپسند کی بنیاد پر ٹیم منتخب کی جا رہی ہے۔
کراچی میں منعقدہ نجی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ گزشتہ تین چار برس کے دوران پاکستان کی نئی کرکٹ ٹیم ابھر کے سامنے آرہی ہے، حسن نواز، حسین طلعت، صائم ایوب سمیت دیگر نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی سہ قومی سیریز اور ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے، متحدہ عرب امارات کی پچز پر پاکستان کا ریکارڈ شان دار رہا ہے۔
سرفراز احمد نے کہا کہ انجری سے نجات پا کر پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے والے بیٹر فخر زمان میچ ونر ہیں، یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ فخر زماں گزشتہ کچھ عرصے سے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
سابق کپتان نے کہا کہ اولمپک مقابلوں میں کرکٹ کا شامل کیا جانا خوش آئند ہے، پاکستان اگلے اولمپکس کے کرکٹ مقابلوں میں بھی گولڈ میڈل جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
سابق وکٹ کیپر کامران اکمل نے کہا کہ سہ قومی کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم کا انتخاب درست ہے لیکن ایشیا کپ جیسے اہم ترین ایونٹ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کا انتخاب بہت سوچ بچار کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف میچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیم بنانی چاہیے تھی، میگا ایونٹ کے لیے قومی ٹیم کے انتخاب کے وقت کھلاڑیوں کی حالیہ کارکردگی کو بھی مدنظر رکھنا ضروری تھا۔
کامران اکمل نے کھلاڑیوں کے انتخاب کو ہدف بناتے ہوئے کہا کہ ایشیا کپ کے لیے سینیر پلیئرز کو اہمیت نہیں دی گئی، بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ کا نظام خراب ہو کر رہ گیا ہے اور اہلیت کو قطعی طور پر فوقیت نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کافی عرصے سے بے در پے غلطیاں کی جا رہی ہیں اور اب قومی ٹیم کا انتخاب بھی اسی کا تسلسل ہے، بابراعظم اور محمد رضوان انتہائی منجھے ہوئے اور تجربے کار بیٹرز ہیں، ان کو ٹیم میں جگہ ملنی چاہیے تھی۔
کامران اکمل نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے پسند نا پسند پر ٹیم منتخب کی جا رہی ہے، چیئرمین پی سی بی اپنی دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نان کرکٹرز جب بورڈ میں آئیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔
سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق نے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی تشکیل اہلیت کی بنیاد پر دی گئی ہے، اعتماد کرتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا امید ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم توقعات پر پورا اترکر اچھے نتائج پیش کرے گی، نیک تمنائیں ٹیم کے ساتھ ہیں، پاکستان کو جلد پاور ہٹرز ملیں گے۔
عبدالرزاق نے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں تبدیلی آئی ہے اور یہ دیکھ کر بہت دلی مسرت ہوتی ہے کہ اب پاکستان کرکٹ ٹیم نے جارحانہ انداز اپنا لیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ ٹیم کامران اکمل نے ٹیم کا انتخاب انہوں نے کہا کی جا رہی نے کہا کہ ایشیا کپ رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر دنیا بھر کے رہنما وہاں جمع ہوئے۔ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہر مقرر نے اپنے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔
دنیا میں جاری تنازعات اور جنگوں کے حوالے سے فلسطین کا مسئلہ سب سے زیادہ موضوع بحث رہا۔ مغربی ملکوں بالخصوص مسلم حکمرانوں نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت اور نیتن یاہو کے مظلوم فلسطینیوں پر بڑھتے ہوئے مظالم پر شدید تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے پوری قوت سے آواز اٹھائی۔
وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کی جیت کا فاتحانہ انداز میں تذکرہ کیا بلکہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی ، جارحانہ عزائم، مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور نہتے کشمیریوں پر بزدلانہ ریاستی مظالم سے عالمی رہنماؤں کو آگاہ کیا۔
وزیر اعظم نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات پر ہمہ وقت تیار ہے۔ انھوں نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو اعلان جنگ کے مترادف قرار دیتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ پاکستان اپنے 24 کروڑ عوام کے حقوق کا بھرپور انداز میں دفاع کرے گا۔
شہباز شریف نے عالمی برادری کو دو ٹوک الفاظ میں آگاہ کیا ہم نے بھارت سے جنگ جیت لی ہے، اس کے سات لڑاکا طیارے مٹی کا ڈھیر بنا دیے، اگر صدر ٹرمپ مداخلت کرکے جنگ نہ رکواتے تو نتائج تباہ کن ہو سکتے تھے۔
وزیر اعظم نے صدر ٹرمپ کو عالمی امن کا علم بردار قرار دیتے ہوئے ان کی پوری ٹیم کی کاوشوں کو سراہا اور واضح کیا کہ ان کی امن کوششوں کے تناظر میں ہی صدر ٹرمپ کا امن کے نوبل انعام کے لیے نام پیش کیا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پاک بھارت جنگ کے حوالے سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور ایئرچیف مارشل ظہیر بابر سندھو کی دانش مندانہ جنگی حکمت عملی کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جرأت مندانہ قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضاؤں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرکے بھارتی جارحیت کا ایسا منہ توڑ فیصلہ کن جواب دیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیر اعظم نے بھارت کو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کی عالمی فورم پر دعوت دے کر گیند بھارت کے کورٹ میں پھینک دی ہے لیکن ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیکریٹری خارجہ سے لے کر وزرائے اعظم تک کشمیر پر ہونے والے ہر سطح کے مذاکرات کی ناکامی کا واحد ذمے دار بھارت ہے جو اپنی روایتی ضد، ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر دو طرفہ مذاکرات کو سبوتاژ کرتا رہا ہے۔
پہلگام واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستان نے آگے بڑھ کر خود پیش کش کی لیکن بھارت نے جواب میں پاکستان پر جنگ مسلط کر دی اور عبرت ناک شکست و عالمی رسوائی اور سفارتی ناکامیاں اس کا مقدر بن گئیں جس کا واضح تذکرہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔
انھوں نے بھارتی سرپرستی میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
پاکستان ایک سے زائد مرتبہ حکومتی سطح پر افغان حکومت سے یہ مطالبہ دہرا چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر پناہ گزیں دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ ان تک افغان حکومت نے اب تک دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا نتیجتاً پاکستان میں آج بھی وقفے وقفے سے دہشت گرد عناصر اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم پاک فوج اور ہماری فورسز کی زیرک حکمت عملی کے باعث وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں تنازع فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار دل دہلا دینے والا المیہ اور عالمی ضمیر پر ایک دھبہ ہے فلسطین کو اب آزاد ہونا ہے جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا۔
امریکی صدر ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں بھی غزہ میں جنگ بندی پر بات چیت ہوئی لیکن اس ملاقات کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا، نہ ہی رہنماؤں نے میڈیا کو ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سو ٹرمپ مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے نتائج کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔
البتہ صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ملاقات پاکستان کے نقطہ نظر سے خاصی مفید رہی۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جو حوصلہ افزا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق شہباز ٹرمپ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس سے پاک امریکا تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔