data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور: خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں خود کش دھماکے میں 8 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں ہفتے کے روز خودکش دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجے میں 8 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے ہیں۔

میڈیا ذرائع کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے میرعلی میں ہونے والے خود کش حملے کی شدید مذمت کی اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ میں ان سیکیورٹی اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ملک اور قوم کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن قائم کرنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، یہ قربانیاں دہشت گردی کے خلاف قوم کے حوصلے اور عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

اس سے قبل، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) وقار احمد نے  بتایا تھا کہ خودکش حملہ ایک گاڑی میں نصب دیسی ساختہ بم کے ذریعے کیا گیا، جس میں 4 عام شہری زخمی ہوئے۔

یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کچھ روز قبل خیبرپختونخوا کے جنوبی وزیرستان ضلع میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن میں 2 فوجی جوان شہید اور 11 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔

15 جون کو فرنٹیئر کور (ایف سی) کا ایک سپاہی جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہو گیا تھا۔

اسی ماہ کے آغاز میں شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں سیکیورٹی آپریشن کے دوران 14 دہشت گرد مارے گئے تھے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں مئی میں 85 حملے ریکارڈ کیے گئے جب کہ اپریل میں یہ تعداد 81 تھی۔

ترجمان پاک فوج نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں بھارتی فوج کی مداخلت کے ’ناقابل تردید ثبوت‘ بھی پیش کیے تھے اور کہا تھا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں شدت لا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شمالی وزیرستان تھا کہ

پڑھیں:

بلوچستان؛ گورنر ہاؤس کے باہر پولیس اہلکار کی فائرنگ سے 3 طلبہ اور 2 اہل کار زخمی

کوئٹہ:

بلوچستان میں گورنر ہاؤس کے باہر پولیس اہلکار کی فائرنگ سے 3 طلبہ اور 2 اہل کار زخمی ہو گئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ضلع ژوب میں گورنر ہاؤس (جانان ہاؤس) کے باہر سکیورٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار کی رائفل سے غلطی سے فائرنگ کے نتیجے میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج ژوب کے 3 طلبہ اور 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق طلبہ گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل سے تعلیمی مسائل کے سلسلے میں ملاقات کے لیے آئے تھے۔ پولیس ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ فائرنگ ایس ایچ او کے گن مین کی رائفل سے ہوئی، تاہم زخمیوں کی حالت تسلی بخش اور خطرے سے باہر ہے۔

فائرنگ کا واقعہ آج جمعۃ المبارک دوپہر 12 بجے کے قریب پیش آیا، جب گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کے 3 طلبہ جو اپنی شناخت ظاہر کر کے گورنر ہاؤس میں داخلے کی اجازت مانگ رہے تھے، اس دوران سکیورٹی چیک کے دوران اہلکار کی رائفل سے اچانک گولی چل گئی۔

پولیس کے مطابق فائرنگ ایس ایچ او کے گن مین کی غیر ارادی غلطی کا نتیجہ تھی، جس کی وجہ رائفل کی تکنیکی خرابی یا ہینڈلنگ میں غفلت بتائی جا رہی ہے۔ گولیاں لگنے سے 3 طلبہ کے بازو اور ٹانگوں پر زخم آئے جب کہ 2 پولیس اہل کار معمولی طور پر زخمی ہوئے۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں فوری طور پر موقع پر پہنچیں اور زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ژوب منتقل کیا گیا۔

اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالرحمن نے بتایا کہ تینوں طلبہ کی سرجری مکمل ہو چکی ہے اور ان کی حالت تسلی بخش ہے۔ 2 پولیس اہلکاروں کے زخم ہلکے ہیں اور انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔

زخمی طلبہ کی عمریں 18 سے 21 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں اور وہ گورنر سے کالج کی نئی عمارت اور وظائف کے حوالے سے ملاقات کا ارادہ رکھتے تھے۔

دوسری جانب گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل نے واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے زخمی طلبہ سے اسپتال میں ملاقات کی اور ان کے مکمل علاج کا خرچہ اٹھانے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ ہم زخمی طلبہ کو ہر ممکن تعلیمی اور مالی امداد فراہم کریں گے۔ علاوہ ازیں گورنر نے سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت اور ہتھیاروں کی باقاعدہ چیکنگ کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

دریں اثنا واقعے کے بعد گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کے طلبہ اور مقامی رہنماؤں نے جانان ہاؤس کے باہر احتجاج کیا، تاہم گورنر کی معذرت اور فوری معاوضے کے اعلان کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا۔

سماجی کارکنوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے ہتھیاروں کی باقاعدہ انسپکشن اور تربیتی پروگرامز کو لازمی کیا جائے۔

یاد رہے کہ رواں سال ژوب میں سکیورٹی اہلکاروں سے متعلق یہ دوسرا واقعہ ہے، جس سے سکیورٹی پروٹوکولز پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے زخمی طلبہ کے خاندانوں سے رابطہ کر کے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے گورنر ہاؤس کے سکیورٹی پروٹوکولز کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد  متعلقہ اہلکار کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سیکیورٹی فورسز کا لکی مروت میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، بھارتی پراکسی یافتہ 17 خوارج جہنم واصل
  • شمالی وزیرستان میں جبری شادی کا منصوبہ ناکام، 2 کم سن بچیاں بازیاب
  • کوہاٹ:درشہ خیل میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بڑی کاروائی، 18 عسکریت پسند ہلاک
  • خیبرپختونخوا؛ سیکیورٹی فورسز کی کرک میں کارروائی، 17 خوارج ہلاک اور متعدد زخمی
  • بلوچستان: گورنر ہاؤس کے باہر پولیس  کی فائرنگ ، 3 طلبہ‘ 2 اہلکار زخمی
  • نوشکی، پولیس کی تلاشی کے دوران گرینیڈ حملہ، شہری شہید، 5 اہلکاروں سمیت 8 افراد زخمی
  • نوشکی: پولیس موبائل کے قریب دستی بم کا دھماکا، 3 اہلکار زخمی
  • بلوچستان؛ گورنر ہاؤس کے باہر پولیس اہلکار کی فائرنگ سے 3 طلبہ اور 2 اہل کار زخمی
  • گورنربلوچستان کی رہائش گاہ کے باہر فائرنگ، 3 طلبہ اور 2 پولیس اہلکار زخمی
  • بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی